لیکن انجام کے متعلق سوال وجواب کی رسم ادا کرلینے یا اس کے خوف کا صرف اظہار کردینے سے انجام کبھی رکا نہیں ، بربادیوں کی آگ میں بھی جوش وعمل کا مظاہرہ کرنے کے بجائے، کاہلی اور خود فریبی قومی شعار بن جائے تو زندہ وتوانا رہنے کی امید اور بھی کمزور پڑجاتی ہے۔
ہندوستان میں بھی عرصہ سے یہی صورت حال ہے جس کا سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہا تو ایک زمانہ وہ آسکتا ہے جب آج کے دور میں سیاست وقیادت کا فرض انجام دینے والے اور صاحب مال واقتدار افراد تو باقی نہیں رہیں گے مگر ان کے اعمال وکردار کا جائزہ لے کر مستقبل کا مورخ ضرور حیران رہ جائے گا کہ آخر بیس پچیس کروڑ کی یہ قابل لحاظ انسانی طاقت وقت کے طوفان میں خس وخاشاک کی طرح کیسے بہہ گئی جبکہ وہ ایک اعلیٰ تہذیب، بہترین دماغ اور اس عددی قوت کی حامل تھی جس کی شیرازہ بندی کرلی جاتی تو وقت کے حیرت انگیز کارنامے منظر عام پر آتے۔
آج مسلمانوں کی اربوں مالیت کی وقفیہ املاک تباہ کی جارہی ہیں، ان کے وہ قبرستان جہاں ان کے تہذیبی دینی اور سماجی سرمایہ کے امین دفن ہیں کھودکر میدان میں بدلے جارہے ہیں فرقہ وارانہ فسادات روز مرہ کا معمول بن گئے ہیں۔ مسلمانوں کی عام اقتصادی بدحالی، بیروزگاری، اور بے حیثیتی کا یقین ضرب کے حسابی اضافہ کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے مگر انسانوں کے رہنما، قائد، جماعتی، حدبندیوں ، شخصی دائروں اور نظریاتی بحثوں میں مصروف ہیں۔
اسی شہر میں مسلمانوں کے پاس اتنے صاحبِ استطاعت افراد موجود ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک عزم کے ساتھ کھڑا ہوجائے تو بیشتر مسلمانوں کی حالت بدل سکتی ہے، کسی ایک یا چند سرمایہ داروں کا نام لینا مناسب نہیں عمومی طریقے سے یہی عرض کیاجاسکتا ہے کہ ’’مسلمانوں کے لئے قومی سرمایہ کی عدم موجودگی اکثرمحرومیوں کا سبب بنتی رہی ہے‘‘ جب کہ وسائل کی فراہمی کے ساتھ سلیقہ اور ہمت سے کام لیاجائے تو ایسی ایک حالت اس ملک میں پیدا جاسکتی ہے کہ مختصر مدت میں ہی یہاں کے مسلمان صورت حال پر اثر انداز ہونے والے بن جائیں۔ سکھ، پارسی اور خود مسلمانوں کے بعض ذیلی فرقوں کی مثا ل ہمارے سامنے ہے جو پوری مسلم قوم کے مقابلہ میں اپنی عددی قلت کے باوجود کہیں زیادہ اثرانداز ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ جب آفات آتی ہیں تو خاص وعام کو نہیں دیکھا کرتیں، راتوں رات کروڑپتی اصحاب بے یارومددگار بن کر رہ جاتے ہیں اس لئے اگر یہ عرض کیاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہندوستان میں اصل مسئلہ غریبوں کا نہیں امیروں کا ہے جب حالات بدلتے ہیں، تغیر کا سیلاب انگرائیاں لیتا ہے اور تباہی کی بادِ سموم اٹھتی ہے تو سب سے زیادہ نقصان امیروں کو پہونچتا ہے۔ حالانکہ مسلمانوں سے متعلق حکمراں، مسلمانوں کے سرمایہ دار اور مسلمانوں کے رہنما اپنے آپ کو عام سطح سے ماورا رکھنا چاہتے ہیں لیکن نظامِ قدرت یہی ہے کہ جب غیرمعمولی حالات رونما ہوتے ہیں تو خاص وعام میں سرِ موا امتیاز نہیں کرتے۔(یو این این)
جواب دیں