میوزیم کے ایک گوشے میں شکم مادر کی تصویریں بنی ہوئی تھیں اور حمل کے مختلف ادوار کو تصویروں کے ذریعے پیش کیا گیا تھا ۔ میں نے دیکھا کہ اسے دور سے دیکھتے ہی وہ اپنے چار سالہ بھائی کے ساتھ دوڑ تاہوا گیا اور اسے سمجھانے کی کوشش کرنے لگا کہ بچے کس
طرح پیدا ہوتے ہیں۔یہ منظر میرے لئے حیرت انگیز تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ کسی کافیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی۔ اسکولوں میں سائنس کے مضمون میں یہ بھی پڑھایا جاتا ہے مگر تیسری جماعت میں نہیں۔
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے
ایک بچہ جس کی عمر مشکل سے آٹھ سال ہوگی اس نے وہ سب کچھ جان لیا تھا جو میں نے اسے بتانے سے گریز کیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اسے کس نے بتایا تھا؟ یہ صرف ایک بچے کی بات نہیں ہے آج کل تمام بچے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ میں نے بھی اسے بتانے سے صرف اس لئے گریز کیا تھا کہ وہ ابھی کم عمر ہے اور مجھے لگتا ہے کہ ہر بات کا بچے کو اپنے وقت پر پتہ چلنا چاہئے۔ مگر یہی بچہ مجھے آج کل ایک اور سوال کے ذریعے مشکل میں ڈالے ہوئے ہے۔ یہ سوال اس کے پچھلے سوال سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ مجھے نہیں سمجھ آتا کہ اسے کیا جواب دوں۔ حالانکہ مجھے یقین ہے کہ وہ عنقریب اس سوال کا جواب بھی کہیں نہ کہیں سے ڈھونڈ نکالے گا۔ میں اسے جس سوال کا جواب نہیں دیتا یا نہیں دے پاتا اسے وہ انٹرنیٹ پر تلاش کرتا ہے۔ وہ اکثر میرے ساتھ بیٹھ کر ٹیلی ویزن چینلوں پر خبرین سنتا ہے اور اسے ایک لفظ کی تکرار تقریبا تمام چینلوں پر سنائی پڑتی ہے اور شاید اسی تکرار نے اس کے ذہن میں سوال پیدا کردیا ہو۔ وہ پوچھتا ہے کہ ’’بلاتکار‘‘ کا مطلب کیاہے؟اب میں اسے کیا جواب دوں؟ کیا کہوں؟ میں اسے گول مول جواب دیتا ہوں مگر اسے تشفی نہیں ہوپاتی اور وہ دوبارہ کسی نہ کسی شکل میں یہی سوال پوچھ لیتا ہے۔ وہ اکثر آسارام کو ٹی وی پر دیکھ کریہ سوال پوچھ لیتا ہے۔ جن دنوں راجدھانی دلی میں ایک لڑکی کا گینگ ریپ ہوا اور اس نے ہسپتال میں جاکر دم توڑ دیا اور اس کے خلاف انڈیا گیٹ پر مسلسل دھرنوں کا سلسلہ چل رہا تھا اور تمام نیوز چینل اس کی لائیو کوریج دے رہے تھے تب بھی وہ مجھ سے یہ سوال پوچھتا تھا۔
آج کا سماج پہلے کے مقابلے بہت کھلی فکر والا ہوچکا ہے۔ جس قسم کے تکلفات پہلے لوگوں کے درمیان ہوتے تھے آج ان کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ بعض غیر ضروری تکلفات بڑوں کے سامنے چھوٹے برتتے تھے اور مردوں کے سامنے عورتیں برتتی تھیں اب ان کا بھی خاتمہ ہوچکا ہے۔ ظاہر ہے یہ سب سماج میں تعلیم کے پھیلاؤاور مغربی اثر کے تحت ہوا ہے اور اسے ہم برا بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ ان کا تعلق ادب یا لحاظ سے نہیں بلکہ غیر ضروری تکلف سے ہے۔
تکلف میں ہے اے ذوقؔ تکلیف سراسر
آرام سے ہیں وہ جو تکلف نہیں کرتے
باوجود اس کے بچوں کو ہم وقت سے پہلے وہ سب کچھ نہیں بتا سکتے جو ہماری روزمرہ زندگی کی حقیقت ہے۔ کل تک ریپ جیسے واقعات پردہ خفا میں ہی رہ جاتے تھے،کوئی انھیں پولس تک لانے کی ہمت نہیں کرپاتا تھا، مگر آج اس ظلم کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے اور عورتیں خود سامنے آکر انصاف طلب کر رہی ہیں۔ انھیں احساس ہوچلا ہے کہ شرم مظلوم کو نہیں ظالم کو کرنی چاہئے۔ اس ظلم کے خلاف ٹیلی ویزن چینلوں پر بحثیں چل رہی ہیں۔ اخبارات میں آوازیں اٹھ رہی ہیں،جو یقیناًقابل تعریف بات ہے مگر ہمارے جیسے لوگوں کے سامنے اپنے ننھے بچوں کے سوالات بھی ہوتے ہیں جنھیں سن کر ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ آخر سماج میں ایسی بات ہوئی ہی کیوں کہ اس کی خبر ٹی وی پر آئی اور ہم سے ہمارے بچے اس کی تفصیلات پوچھ رہے ہیں۔
کوئی یہ بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
ہمارا خیال ہے کہ سماج میں پھیلے گھناؤنے جرائم کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ قوانین سخت ہوں اوروہ صرف کتابوں کی زینت نہ رہیں بلکہ انھیں عمل میں بھی لایا جائے۔ اسلام نے دنیا کو جو تعزیری قوانین دیئے ہیں وہ سخت ہیں۔ مثلا قاتل کو موت کی سزا،زانی و زانیہ کو سنگسار کرنے یا کوڑے مارنے کی سزا، چور ،ڈاکو، رہزن اور پاکٹ مارکو ہاتھ کاٹنے کی سزا وغیرہ وغیرہ۔ اسلام کے سخت قوانین کو بعض اہل مغرب ظالمانہ قرار دیتے ہیں مگر قرآن کہتا ہے کہ’’ تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے۔‘‘ اصل میں ان قوانین کا مقصد نفاذ سے زیادہ ڈرانا ہے۔ جس معاشرے میں سخت قوانین ہوں اور ان کا نفاذ یقینی ہو اور وہ بھی سرعام سزائیں دی جائیں وہاں جرائم خود بخود رک جائیں گے۔ آج کل جو ریپ کی وارداتوں کی خبریں بہت عام ہوگئی ہیں اور اس تعلق سے عوام دہشت میں مبتلا ہیں، اس قسم کی وارداتیں خود بخود کم ہوجائیں اگر قوانین کا نفاذ شروع ہوجائے۔اسی کے نتیجے میں ہمارے سماج میں بہت سی خرابیاں بھی جنم لے رہی ہیں اور اخلاقیات کا تو گویا خاتمہ ہی ہوچکا ہے۔ ایک قاتل کو سر عام موت کی سزا دینا یا ایک زانی کو سر عام سنگسار کیا جانا یا کوڑے لگاناحقوق انسانی کی خلاف ورزی نہیں بلکہ دنیا کے کروڑوں انسانوں کے حقوق کا تحفظ ہے۔ (
جواب دیں