میرے وطن کے لوگو! باتوں سے پیٹ بھرلو

آزادی کے بعد پہلی حکومت کانگریس کی بنی تو جواہر لال نہرو کے بارے میں یاد نہیں کہ انہوں نے ایک ماہ کے بعد دنیا کے رنگ برنگے ملکوں کا سفر شروع کردیا ہو، اُن کے بعد شاستری جی بنے تو رہے ہی کتنے دن؟ بعد میں اندرا جی نے برسوں حکومت کی لیکن شروع کے چار مہینے میں ہی سفر کرڈالے ہوں یہ بھی یاد نہیں پھر پہلی غیرکانگریسی حکومت بنی اور مرارجی ڈیسائی وزیر اعظم بنے یاد نہیں کہ وہ روس، امریکہ، چین، جاپان کہیں بھی گئے ہوں۔ اُن کے علاوہ غیرکانگریسی حکومت کے وزیر اعظم اٹل جی بنے اور راجہ وشوناتھ پرتاپ سنگھ بنے اُن کے بھی ابتدائی چار مہینے ملکوں ملکوں کٹوری لے کر مانگنے میں گذرے ہوں یہ بھی یاد نہیں۔ لیکن یہ یاد رہے گا کہ ابھی کچھ بھی نہیں ہوا ہے یا بقول مودی جی صرف اتنا ہوا ہے کہ افسر وقت پر دفتر آنے لگے ہیں اور یہ ہمارے وزیراعظم صاحب کے نزدیک اتنی بڑی بات ہے کہ اسے وہ بار بار کہہ رہے ہیں اور امریکہ میں بھی اسے بتانا ضروری سمجھا۔ انہیں اس سے غرض نہیں کہ افسر وقت پر آکر کام کیا اور کتنا کرتے ہیں؟ اور کام کرتے ہیں یا دن بھر ہنس بول کر وقت گذارتے ہیں؟ اس کے علاوہ ابھی کیا ہوا ہے اس کا وہ کوئی ذکر نہیں کرتے۔
ہم یہ محسوس کررہے ہیں کہ مودی جی اپنے ملک کے عوام کا سامنا کرنے سے بچ رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ملک کے عوام ان سے مہنگائی، بھرشٹاچار، بے روزگاری، نوجوانوں کی آوارہ گردی اور اچھے دن کے متعلق کوئی بات نہ کریں بس پورے ملک میں یہ چرچا ہوتا رہے کہ ہمارے محبوب ترین وزیر اعظم نے جاپانیوں کا دل جیت لیا، چین کے صدر صاحب تشریف لائے تو سابرمتی آشرم کی اُنہیں سیر کرائی اور ان سے گاندھی جی کا چرخہ چلوایا۔ اُنہیں گجراتی کھانے کھلائے اور گجراتی جھولا جھلایا۔ اور مزید بات کرنا ہو تو امریکہ کی بات کی جائے کہ جس امریکہ نے مودی جی کو ویزا دینے سے انکار کردیا تھا وہی امریکہ اپنے وہائٹ ہاؤس میں اُن کا استقبال کررہا تھا اور اُن کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کررہا تھا۔ اسی امریکہ میں جب انہوں نے ہندوستانی خاص طور پر گجراتیوں کو خطاب کیا تو اُن کے ہر جملہ پر تالیاں بج رہی تھیں مودی مودی کے نعرے لگ رہے تھے اور لوفروں کے انداز میں سیٹی بھی بجائی جارہی تھی۔
یا امریکہ کے پانچ روزہ دورے میں سلامتی کونسل میں 35 منٹ کی تقریر کی بات کی جائے جس میں انہوں نے پاکستان سے بات کرنے کا اشارہ بھی کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ دہشت گردی کے معاملہ میں وہ امریکہ کے ساتھ ہیں۔ اسی امریکہ کے جو کروڑوں انسانوں کے نزدیک دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے جس کا مظاہرہ وہ ویتنام میں بھی کرچکا ہے، جاپان میں ایٹم بم گراکر بھی، عراق کی اینٹ سے اینٹ بجاکر بھی اور افغانستان پر اولوں کی طرح بم برساکر بھی۔ بہرحال ہمارے وزیر اعظم صاحب کا امریکہ والے اور وہاں بسے ہندوستانی دل کھول کر استقبال بھی کررہے تھے اور وہاں کے مشہور چوراہے میڈیسن اسکوائر پر اُن کی مخالفت میں مظاہرہ بھی ہوا جس میں سکھ بھی تھے اور مسلمان بھی مظاہرین کے ہاتھوں میں پوسٹر بھی تھے اور بینر بھی جن پر لکھا تھا کہ مودی قاتل ہیں فاشسٹ ہیں۔ گجرات میں 2002 ء کے مقتولوں کو ابھی تک انصاف نہیں ملا اور یہ بھی لکھا تھا کہ ہندوستان میں اقلیتوں کا وجود خطرہ میں ہے۔ مظاہرہ کرنے والوں کو شاید اس خبر سے اور زیادہ صدمہ پہونچا ہوگا کہ جن شریف اور ایماندار افسروں کی فرض شناسی کی وجہ سے بابو بجرنگی اور ایک ڈائن سابق وزیر کو 28 سال اور تاحیات عمرقید کی سزا ہوسکی تھی ان کو ناجائز اولاد کی طرح گجرات سے اتنی دور پھینکوادیا گیا کہ وہ برسوں رُخ بھی نہ کرسکیں گے اور اُن کے چلے جانے کے بعد دونوں کی ضمانت ہوگئی اور اب وہ بھی امت شاہ کی طرح شاہانہ زندگی گذاریں گے۔
آپ جب یہ سطریں پڑھ رہے ہوں گے مودی جی امریکہ فتح کرکے واپس آچکے ہوں گے اور اب آپ کا دماغ اچھے دنوں کی طرف سے ہٹانے کے لئے انہوں نے اس آشرم اور مندر کو اپنا موضوع بنا لیا ہوگا جہاں 1940 ء میں مہاتما گاندھی نے آکر قیام کیا تھا۔ وہاں اعلان کردیا تھا کہ کوئی صفائی کرمچاری نہیں رکھا جائے گا اور آنے والے یا آکر رہنے والے اپنی جگہ کی صفائی خود کریں گے۔ مودی جی یہیں سے آج صفائی مہم شروع کریں گے۔ یوں تو 25 ستمبر سے تمام وزراء اپنی صلاحیت اور طاقت کے اعتبار سے صفائی میں لگے ہیں لیکن گاندھی جی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے آج مودی جی خود جھاڑو ہاتھ میں لیں گے جس کا اعلان وہ امریکہ میں بھی کر آئے ہیں اور وہاں کے بھارتیوں کو یقین دلا آئے ہیں کہ بھارت ماں کو گندگی سے صاف کرکے دم لیں گے۔
مودی جی نے امریکہ کے صنعت کاروں سے جب بات کی تو بے ضرورت کہہ دیا کہ ہندوستان کے مسلمانوں پر کبھی شک نہیں کیا جاسکتا وہ شاید اُن کا یہ خوف دور کرنا چاہ رہے تھے کہ وہ اربوں ڈالر لگاکر صنعت قائم کریں اور مسلمان دہشت گرد بموں سے اُڑا دیں تو کیا ہوگا؟ شاید اُن کے اس خوف کو دور کرنے کے لئے انہوں نے وہ کہہ دیا جو اُن کی اب تک کی ساری زندگی اور کارکردگی کے بالکل برعکس ہے۔ بے شک مسلمان ہندوستان کا ہندوؤں سے زیادہ وفادار ہے اس لئے کہ یہ ملک ہی مسلمانوں کا ہے یہ الگ بات ہے کہ یہاں حکومت ہندوؤں کی ہے۔
بہرحال مودی جی کو اب مہاراشٹر اور ہریانہ میں ووٹوں کی ضرورت ہے اور وہ دہلی میں تقریریں کرنے سے پہلے ماحول بنا رہے ہیں کہ ووٹ دینے سے پہلے کسی کے دماغ میں مارچ اپریل میں کئے ہوئے وعدے نہ کھلبلائیں وہ جھاڑو کو دیکھیں گاندھی جی کے بار بار تذکرہ کو سنیں مسلمانوں کی وفاداری اور ان پر شک کرنے کے مسئلہ پر بحث کریں اور کمل کے نشان کو بقول امت شاہ اتنی زور سے دبائیں کہ اٹلی میں آواز جائے۔ لیکن امت شاہ اور مودی جی کو اس وقت بہت دُکھ ہوگا جب نتیجہ آئے گا اس لئے کہ جھاڑو امریکہ اور مسلمان یہ زبان کے چٹخارے ہیں اور حقیقت وہ ہے جس کا تعلق پیٹ سے ہے یعنی روٹی اور سبزی پیٹ اسی سے بھرتا ہے اور اس کے بعد ہی آدمی ووٹ کے متعلق سوچتا ہے اور مودی جی باتوں سے پیٹ بھرکر ووٹ لینا چاہتے ہیں اس میں کسی کو کامیابی نہیں ملی ہے تو اُنہیں کیسے مل جائے گی وہ بھی اس خبر کے بعد کہ رعایتی گیس سلنڈر سال میں 12 کے بجائے 9 دیئے جائیں گے۔

«
»

نظر کی کمزوری سے بچاؤ کے فطری طریقے

نریندر مودی کا دورہ امریکہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے