جی ہاں! یہ وہی معراج فیض آبادی تھے جن پر’’اودھ نامہ‘‘ نے اتوار 11اگست کو 4صفحات پر مشتمل ایک خصوصی شمارہ نکالا تھا۔ اس بیچ انہوں نے بھی ان سے رابطہ کیا، ان کے درِ دولت پہ پہونچے کہ جنھوں نے پہلے کبھی ان سے براہِ راست ملنے کی ضرورت محسوس نہ کی تھی۔توقع سے کہیں بہتر آراء سامنے آئیں تو وہ بیحد مسرور ہوئے۔ جس کا انہوں نے برابر اظہار بھی کیا ۔ ہر دفعہ راقم نے اُن سے وعدہ کیا کہ بہت جلد شرفِ نیاز حاصل کرے گا مگر افسوس کہ اگست سے اب تک میں ان سے ملاقات نہ کرسکا۔گزشتہ ماہ 5نومبر کو ممبئی کے مشہور قلمکار ندیم صدیقی لکھنؤ تشریف لائے تھے۔ معراج صاحب سے نہ صرف خصوصی ملاقات کی بلکہ ان کی خرابئ صحت سے مضطرب ہو اُٹھے۔ بس کیا تھا یک مختصر مگر متاثرکن مضمون لکھ بیٹھے۔ مضمون کے لفظ لفظ سے دردمندی اور قرب وانس کے والہانہ جذبات مترشح تھے۔ مضمون میں کینسر کے مرض میں مبتلا دوسرے اصحاب قلم کا ذکر بھی تھا جو کہ اس مہلک مرض میں مبتلا ہو کر یکے بعد دیگرے دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ مضمون کا’’اردو ٹائمز‘‘ ممبئی میں چھپنا تھا کہ فون کرنے والوں کا تانتا بند ھ گیا۔ ڈاکٹروں اور اطبّانے بھی دریافت حال کے ساتھ اپنی خدمات پیش کیں۔ کسی نے مفت روحانی علاج کی پیش کش بھی کی۔ یہ سب کچھ ایک روز خود معراج صاحب نے مجھے فون پر بتایا۔ تب سے اب تک ان کی خیر خبر نہ تھی۔ فون سے رابطہ بھی نہ ہو سکاکہ وقت موعود آگیا۔ 30نومبر کو صبح 8بجے عارضی رشتوں کے سارے سلسلے ہمیشہ کے لیے منقطع ہوگئے اور چہار سمت دیکھتے ہی دیکھتے رنج و غم کا کُہرا سا چھا گیا۔
راقم الحروف نے ان کی حیات میں’’اودھ نامہ‘‘ کے اوراق میں جو خصوصی نمبر نکالا تھا۔ اُس میں پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے انہیں شہر ادب کا البیلا شاعر قرار دیا تھا۔رفعت شیدا صدیقی نے عظیم شاعر نفیس انسان ،چودھری شرف الدین نے ’’زندگی کی حقیقتوں کا سچا ترجمان‘‘ شاہد جمال نے’’رشتوں کو برتنے کا ہنر جاننے والا‘‘ احسن اعظی نے ’وہبی شاعر، واصف فاروقی نے آسمان ادب کا درخشندہ ستارہ۔ لکھا تو ڈاکٹر پیکر جعفری کو ان کی شاعری میں میرؔ کا انداز اور غالبؔ و داغؔ کا رنگ نظرآیا۔ ڈاکٹر منصور کو لہجہ کی انفرادیت، بشیر فاروقی کو سچائی اور لطافت کے نمونے ملے اور شکیل گیاوی انہیں نئے ادب کا محافظ لکھنے پر مجبور نظرآئے………نیز ان سب کو سندملی احمد ابراہیم علوی اور ڈاکٹر حضور نواب کے تائیدی مضامین سے!
40برس قبل جب معراج فیض آبادی مشاعروں میں داخل ہوئے تو شعراء کی خاص وضع تھی، سنجیدگی او رمتانت کا غلبہ تھا۔ بعد میں نہ صرف لباس بدلا بلکہ متانت و سنجیدگی کو ہی عجیب سمجھ لیا گیا۔ اب چٹکلے بازی اور کلام سے قبل خطاب کا دور شروع ہو چکاتھا۔ معراج صاحب نے دونوں دور دیکھے، ماضی و حال کا جائزہ لے کر مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کی، عوام کی ضرورتوں، خواہشوں اور امنگوں پر نظر رکھی اور بہت سوچ سمجھ کر ایسا ادب تخلیق کیا جو کہ خواص کی علمی کسوٹی پر کھڑا اُترے تو عوام کو اس کلام سے اکتاہٹ نہ ہو۔ نتیجہ توقع کے مطابق رہا۔ وہ اسٹیج کی ضرورت بن گئے۔کہا اور لکھا جا سکتا ہے کہ معراج صاحب نے محض تفننِ طبع کے لیے شاعری کی ہوتی تو وہ ہر گز بامقصد شاعری نہ کرپاتے۔انہوں نے مشاعروں کی ضرورت ،عوام کی پسند اور کنوینر کی مجبوریوں کو پیش نظر رکھا تو ادبی معیارات کو بھی برقرار رکھا……آسان زبان اور روز مرّہ کے استعمال سے ایسے اشعار بنائے جو سماعت سے ٹکراکر سیدھے دل میں اتر گئے………ہر چند کہ انہوں نے نظامت پر کچھ خاص توجہ نہ دی مگر بوقت ضرورت نظامت و خطابت کے جوہر دکھائے تو اچھے اچھوں کی چھٹی ہوتی نظرآئی۔نثر کا بھی کچھ یہی حال تھا…….دعوے کی دلیل کے طورپر’’ناموس کے ابتدائی اوراق کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے……..نہ جانے کیوں انہوں نے شاعری اور مشاعروں کے حصول پر ہی ساری توجہ مرکوز رکھی۔
مقام مسرت ہے کہ معراج فیض آبادی نے اسٹیج کی کامیابی کے لیے خود کو ہلکا، سستایا بازاری نہیں کیا۔ بلکہ سامعین کو اپنی سطح سے اوپر اٹھنے پر مجبور کیا۔ ضمیر بیدار ہواتا ہے، تجربے اور مشاہدے کی توفیق ہوتی ہے تو حقیقت کی آنچ سے کاغذ کا سینہ جل اٹھتا ہے اور اس طرح کی شاعری وجود پاتی ہے
اب اُس قلم سے قصیدے لکھائے جاتے ہیں
وہی قلم جو کبھی انقلاب لکھتا تھا
تیور:
تخت شاہی کی ہوس کیایہ گدائی ہے بہت
ہم فقیروں کے لیے ایک چٹائی ہے بہت
ہو مبارک تمہیں دنیا کے خزانے لوگو!
ہم کو محنت کی یہ تھوڑی سی کمائی ہے بہت
تاریخ:
سربرہنہ ریگزاروں پر چلائے جائیں گے
ایسا لگتا ہے کہ ہم پھر آزمائے جائیں گے
دعائیہ لہجہ:
مرے کریم مجھے بھی قلندری دے دے
زمانہ میری ضرورت پہ طنز کرتا ہے
سرفروشوں کی قدر اور سربلندی کی خواہش یہ شعر کہلواتی ہے
ہمارے عہد میں قدریں بدل گئیں معراجؔ
عظیم ہیں وہی چہرے جو سراٹھا کے چلیں
شاعر کے لہجہ میں عجب تاثیر اور بانکپن ہے۔ظلم وجبر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا حوصلہ اور جذبہ ہے مگر سپاٹ انداز، کھردرا لہجہ اور غیر معیاری الفاظ کا استعمال اُسے کسی ازم کے نام پر گوارہ نہ تھا۔ ایسے ہی جذبات اس طرح کے اشعار کو وجود بخشتے ہیں
زندہ رہنا ہے تو حالات سے ڈرنا کیسا
جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے
*
ہر طرف جھوٹ کے چہرے پہ ضرورت کی نقاب
اب یہاں سچ کو دماغوں کا خلل کہتے ہیں
*
آئینہ جھوٹ بھی بولے تو کہاں تک بولے
لوگ اب عکس یہاں قد سے بڑا مانگتے ہیں
نفرت و تعصب کی کھیتی کرنے والوں کو شاعر کا انتباہ
ہماری نفرتوں کی آگ میں سب کچھ نہ جل جائے
کہ اس بستی میں ہم دونوں کو آئندہ بھی رہنا ہے
عصری موضوعات کو بھی شاعر نے پُروقار انداز میں پیش کیا ہے
دیکھی محلوں کی چمک اپنا کھنڈر بھول گیا
اب کے پردیس سے لوٹا تو وہ گھر بھول گیا
*
خون کی ہر بوند جیسے خود کشی کرنے لگے
کتنا مشکل ہے بزرگوں کی نشانی بیچنا
*
یہ خوف کی فضا یہ اذیت پسندلوگ
جانے کہاں چلے گئے وہ دردمند لوگ
معراج فیض آبادی کو ماضی پرست یا قدامت پسند سمجھنا درست نہیں ہے۔ ہاں ماضی کی درخشندہ روایات کے تحفظ کے ہر عمل سے انہیں سکون قلب ضرور ملتا تھا۔اسی لیے ان کی شاعری میں آپ کو جابجا فکر وعمل کے چراغ روشن نظرآئیں گے
نہ وہ لباس، نہ وہ گفتگو، نہ وہ انداز
مٹادئیے ہیں بزرگوں کے سب نشاں ہم نے
*
اس حویلی کے شکستہ بام و در ہونے کے بعد
لوگ پوجیں گے اسے لیکن کھنڈر ہونے کے بعد
*
بڑھا رہا ہے فصلیں وہ قصرِ شاہی کی
سوال یہ ہے ہمارا کھنڈر کہاں جائے
جدید انداز
لہجہ لہجہ یہ سلگتے ہوئے ماحول کی آگ
چیختے ہیں جو مرے لفظ خطا کس کی ہے
معراج فیض آبادی کی نگہہ حقیقت شعار سے یہ تلخ سچائی کیسے چھپی رہتی
سزاملی ہے بزرگوں سے بے نیازی کی
کہ آج اپنے ہی بچوں سے ڈر رہے ہیں ہم
اور کہیں وہ اس طرح گویا ہوتے ہیں
ہمیں پڑھاؤ نہ رشتوں کی کوئی اور کتاب
پڑھی ہیں باپ کے چہرے کی جھرّیاں ہم نے
محترم معراج فیض آبادی سے میرا قریبی تعلق کبھی نہ رہا۔ زیادہ ترملاقاتیں سرِراہے گاہے یامحترم سعید اختر نظامی کے قائم کردہ ادبی چوپا ل(نخاس) میں ہوئیں۔ جہاں کبھی حیات وارثی،تسنیم فاروقی، میکش یوسفی، رئیس انصاری، بشر فردوسی، نسیم اختر صدیقی، کیف صدیقی وغیرہ کی مستقل بیٹھک تھی۔ شروع میں تسنیم فاروقی صاحب سے ملاقات کی غرض سے میرا وہاں جانا ہوتاتھا۔ پھر دوسرے شعراء سے راہ ورسم بڑھی اور آنے جانے کی مستقل راہ نکل آئی۔محترم معراج فیض آبادی صاحب بھی ان بے تکلف ادبی نشستوں کا حصہ رہے مگر ہمیشہ وہ پر وقار انداز میں نظر آئے۔ گفتگو ٹھہری ہوئی، جس سے اردو کے ساتھ دوسری زبانوں کا علم عیاں۔لہجہ میں نہ علمی تفاخر نہ ہی ضرورت سے زیادہ انکسار بلکہ حسب ضرورت لچک، خود داری کی حد تک انا، مراتب کا کما حقہٗ خیال ولحاظ!
عمر میں تفاوت کے باوجود وہ جب کبھی مجھے ملے ہمیشہ اسکوٹر روک کر دریافت حال کوضروری جاناسدا ان کے لبوں پر ایک سوال رہتا۔ آپ کا اخبار کیسا چل رہا ہے؟ میں اثبات میں سرہلاتا کہ بہتر ہے۔ دوسرے ہی لمحہ وہ کہتے اخبار کا زرِ سالانہ کیا ہے؟…….یعنی مفت اخبار پڑھنا انہیں پسند نہ تھا۔
درحقیقت میں اُس وقت’’اردو میڈیا‘‘نامی ایک ہفتہ وار اخبار کا مدیر تھا۔ لکھنؤ میں زمین پر پاؤں جمانے کے لیے اخبار کے پروپرائٹر کو کسی مضبوط کندھے کی ضرورت تھی۔ جب تک ضرورت برقرار رہی تعلق بھی برقرار رہا۔ بعد میں اخبار روزنامہ ہوگیامگر آج اتنی بھی حیثیت نہیں ہے جتنی کہ ہفتہ وار کی تھی۔ معراج صاحب کی ذہانت اس امر سے بھی عیاں ہے کہ انھوں نے پھر کبھی مجھ سے اس اخبار کی بابت دریافت نہیں کیا۔اس قدر حسّاس اور زمانہ شناس شاعر کو اسٹیج پر کامیاب ہوناچاہئے تھا سووہ ہوئے۔ خوب مشاعرے پڑھے، بلندیاں چھوئیں۔ بڑے لوگوں میں بیٹھے اٹھے لیکن گردن ٹیڑھی کرکے یا اکڑ کے نہ چلے۔ مشاعروں میں کامیابی کے لیے جو خوبیاں شاعر میں چاہیے وہ ان میں وقت کے ساتھ پیدا ہوتی چلی گئیں۔ وہ شروع میں ترنم سے غزل پڑھتے تھے اور جنہوں نے انہیں اُس دور میں دیکھا اور سنا اُن کا کہنا ہے کہ ان کا ترنم بھی قابلِ ذکر تھا مگر انہوں نے بہت جلد اس رسم کہنہ کو ترک کر دیا۔ آنجہانی کرشن بہاری نور، اور پروفیسر وسیم بریلوی کے ہمراہ رہ کر اسٹیج کے گُرسیکھے۔ ہمیشہ کسی بڑے گروپ کا حصہ رہے۔ تیسرا بڑا نام ان کے ہمراہ منورراناؔ کا جڑا۔ منوررانا اور رئیس انصاری کے ہمراہ بھی انہوں نے اچھا وقت گزارا۔منورؔ اینڈ کمپنی سے قبل وہ ڈاکٹر ساغر اعظمی اور راحت اندوری کے ہمراہ دیکھے گئے۔ اس دوران وہ مشاعروں میں چھائے رہے۔ آخری پاری وہ پھر وسیم بریلوی کے پلیٹ فارم سے کھیلنا چاہتے تھے کہ صحت نے جواب دے دیا۔
خوش بختی یہ ہے کہ ان کے چاروں بیٹے نیک ہیں۔ صاحبِ روزگار ہیں جبکہ شعراء عموماً اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا خیال نہیں رکھتے مگر معراج صاحب کے بچے تعلیم یافتہ ہیں،لائق ہیں۔ ان کے اشارے اور مرضی و منشاء کو خوب سمجھتے ہیں۔ حیدر گنج قدیم کے جس محلہ میں وہ مقیم ہیں وہ چوراہے سے بہت دور نہیں ہے لیکن جب کبھی کوئی نیا آدمی، شاعر یا ادیب ان سے ملاقات کی غرض سے پہونچتا ہے تو ان کے بیٹوں میں سے کوئی ایک حیدر گنج چوراہے پر آنے والے مہمان کا منتظر رہتا ہے۔ آج کے دور میں نوجوان نسل اگرباپ کے اشارے پر اتناکر رہی ہے تو شاعری اور شاعر سے کسی کو پر ہیز یا نفرت نہ ہونا چاہیے۔
مہینوں کوئی باقاعدہ ملاقات نہ ہو پانے کے باوجود روزنامہ ’’آگ‘‘ میں جب کبھی میرا کوئی مراسلہ یا مضمون شائع ہوا۔ معراج صاحب نے فوری فون کیا۔ تحسینی کلمات کے ساتھ بہت سے ایسے واقعات اور شعراء کے اسماء بتائے کہ جو اس سے قبل میری معلومات میں نہ تھے۔ گفتگو کا یہ سلسلہ کبھی 45منٹ یا ایک گھنٹہ سے قبل ختم نہیں ہوا۔ ’’آگ ‘‘ کے مدیر احمد ابراہیم علوی صاحب ان کے یونیورسٹی کے ساتھی بھی ہیں مگر نہ جانے کیوں فرزانہ اعجاز صاحبہ کے مضامین کی یلغار کا معراج صاحب کی اخبار بینی پر منفی اثر پڑا۔ بالآخر انہوں نے اخبار کا مطالعہ بند کر دیا۔پھر وہ’’سہارا‘‘ پڑھنے لگے ہیں اورمیں’’اودھ نامہ‘‘ سے منسلک ہوگیا۔ لہٰذا فون کے ذریعہ ان کے قیمتی مشوروں سے محروم ہوگیا۔
شاعر کی ایک ادا اور بھی قابلِ ذکر ہے وہ یہ کہ وہ مفت کتاب حاصل کرنے کی قطعاً کوشش نہیں کرتے بلکہ اس فعل کو ادبی جرم تصور کرتے ہیں۔ جس شخص کو چھپنے چھپانے کا کوئی شوق نہیں وہ کتابوں کا ایسا شائق ہوگا۔ ملاقات سے قبل مجھے اس کا قطعاً اندازہ نہ تھا۔ممبئی میں 35برسوں سے مقیم لکھنؤہی کے ایک شاعر بدرؔ وارثی ،جن کی نہ کوئی شہرت نہ مقبولیت، کتاب شائع ہوئی ۔ احمد ابراہیم علوی صاحب نے چند سطروں میں تبصرہ فرمایا۔ تبصرہ پڑھ کر معراج صاحب کا دوسرے ہی روز فون آیا کہ موصوف کون ہیں اور کتاب کہاں دستیاب ہے؟ قیمتاً چاہیے۔ مجھے لگایہ کتاب مفت حاصل کرنے کا حسین انداز ہے ۔ مگر خیال تب باطل ثابت ہوا جب کہ یکے بعد دیگرے میری دونوں کتابوں کی اشاعت کی خبریں اور تبصرہ پڑھ کر، حسب عادت ان کافون آیا۔ بہت سی مبارکبادیں۔ہمیشہ یوں ہی لکھتے رہنے کا مشورہ اور کتاب کی دسیتابی کی صورت قیمت ادا کرنے کی خواہش ۔ پھر مجھے وہی احساس کہ یہ شخص پیشہ ورانہ انداز سے ڈیل کر رہا ہے ۔ مگریقین جانئے جب راقم پہلی مرتبہ قریب ڈیڑھ برس قبل ان کے دولت کدے پر پہونچا تو علالت کے باوجود وہ خندہ پیشانی سے ملے۔ گفتگو ایسی سجی ہوئی کہ وقت کا احساس ہی نہ ہو سکا۔ اسی دوران میں نے اپنی دونوں کتابیں’’تانا بانا فکروں کا‘‘ اور ’’لکھنؤ کچھ ماضی کچھ حال‘‘ باقاعدہ آداب و القاب کی پھلجھڑی لگا کر پیش کیں۔ انہوں نے کتابوں کو اُلٹا پُلٹا ۔ قیمت کوبغور پڑھا۔ اپنا پرس ٹٹولا۔ پھر بیٹے ندیم کو اشارہ کیا ۔دوسرے ہی لمحہ کتابوں کی اجرت میرے ہاتھ میں تھی۔ مجھ پر جیسے گھڑوں پانی ڈال دیا گیا ہو۔ مگر پیسے کسے کاٹتے ہیں؟ لہٰذا قدرے توقف کے بعد وہ میری جیب میں تھے۔ کئی گھنٹے گزرجانے کے بعد ان کا اصرار تھا کہ کھانا کھالیا جائے۔ میرا خیال تھا یہ اصرار بھی ظاہری تکلف کا حصہ ہوگا۔ توقع کے برخلاف کچھ ہی دیر میں گھریلو کھانے کے ساتھ شیر مال کباب دسترخوان پر سجے تھے۔ بس اسی دن سے ان کی شبیہ میری نظر میں عام شعراء والی نہ رہی۔
شعراء عموماًدوسرے شعراء کے متعلق اچھی رائے نہیں رکھتے۔ وہ بھی نشستوں کے شعراء کہ جن کے نام سے ہی اسٹیج کے کامیاب شعراء کا منھ بن جاتا ہے مگر معراج صاحب نے ایک روز اپنے ہم نامی معراج ساحل اور دوسرے پختہ کار شاعر سعید اختر نظامی کے متعلق تفصیلی گفتگو کی۔ انہیں اردو کا خاموش خدمت گار و مخلص بتایا اور زور دے کر کہا۔ اگرآپ ان دونوں شخصیات پر کچھ لکھیں گے تو میں ذاتی طورپراحسان مند رہوں گا۔ بعد میں ان دونوں پر میں نے مضامین لکھے بھی مگر عزیز نبیل پہ مضمون لکھنے کی خواہش کو میں پورا نہ کر سکا۔
شہرِ ادب کے ایک شاعر کاشف لکھنوی کا انتقال ہوا۔ کہیں کوئی خبر شائع نہ ہوئی۔ راقم الحروف نے ’’آگ ‘‘ میں تفصیلی مضمون لکھا۔ اخبار پڑھتے ہی معراج ؔ صاحب کا فون آیا۔ کاشف صاحب سے وابستہ بہت سے اہم واقعات سے انہوں نے آگاہ کیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ان کے شعری اثاثہ کی اشاعت میں میرے لائق جو خدمت ہوبتائیے۔ تاکہ میں بھی حصہ لے سکوں۔درحقیقت یہی وہ خوبیاں ہیں جو معراج صاحب کو ادبی برادری سے بہت ممتاز اور منفرد بناتی ہیں۔
جواب دیں