میرا پیغام محبت ہے……

محمد سمعان خلیفہ ندوی

ہمارے مولانا عبد الباری ندویؒ کو ہم سے جدا ہوئے تین سال کا عرصہ ہونے کو ہے، اس دوران میں مولانا کی یادیں دل کے نہاں خانوں میں اس قدر تابندہ رہیں (اور رہیں گی) کہ ہر وقت ایسا محسوس ہوا کہ ؂
وہ کب کے آئے بھی اور گئے بھی، نظر میں اب تک سمارہے ہیں
یہ چل رہے ہیں ، وہ پھر رہے ہیں، یہ آرہے ہیں وہ جارہے ہیں
اس احساس میں مولانا کے تمام منتسبین ومحبین شریک ہیں؛ اور یہ درحقیقت مولاناؒ کے مشن کی کامیابی کی دلیل ہے کہ آپ کا کام وپیام زندہ ہے اور راہِ عمل میں فروزاں کی ہوئی آپ کی شمعیں اور قندیلیں روشن اور تابناک ہیں اور رہیں گی۔
مولاناؒ کی مقبولیت ومحبوبیت اور ہر دلعزیزی کا ثبوت اس ’’عاشق‘‘ کا وہ جنازہ تھا جو بڑی دھوم سے نکلا ، شریک ہونے والی ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل سوگوار ہوا، اور آج تک گنجِ شہیداں پر حاضر ہوکر اپنی محبت کا ثبوت دے رہا ہے؛ خود مولاناؒ نے بھی تو محبت کے جذبات سے بھرپور اور معمور دل پایا تھا؛ یہ محبت آپ نے ’’ربّ ودود‘‘ سے کی، اور اس رب کے کنبے سے بھی (الخلق عیال اﷲ) ، مولانا کی تگ وتاز اور جہد مسلسل کا خلاصہ بس اسی ایک نکتۂ محبت کی تفسیر ہے: محبت خالق سے ، محبت اس کی خلق سے۔
خالق سے محبت کی راہِ عزیمت کا راہی بن کر، لشکر ایمان کا سپاہی بن کر ، لذتِ آشنائی جو دل میں پائی تو دو عالم سے دل کو بیگانہ کردیاکہ رب سے وفاداری اور اس سے کیے گئے پیمانِ وفا کو نباہنے میں اور اپنے فرائض منصبی کی ادائی میں نہ زمانے کی طغیانی آپ کے پائے ناز میں جنبش لاسکی اور نہ وقت کی آندھیاں آپ کی عزیمت کے سفر میں آڑے آسکیں ؂
کیا لوگ تھے جو راہِ وفا سے گذر گئے
دل چاہتا ہے نقش قدم چومتا رہوں
خالق سے محبت کی اس کے دیے ہوئے قانون اور نظامِ زندگی کو سینے سے لگاکر، زندگی بھر اس کو پڑھ پڑھا کر، اسی کی تعلیم وتعلم کے حلقے لگا لگا کر، عمر بھرراہِ وفا کی طرف لوگوں کو بلا بلا کر،پیمانِ وفا کو نباہنے کی فکریں دلا دلا کر،پیروجواں حلقۂ نسواں ہر ایک کو خدا کی ذات کے عرفان اور محبوبِ خدا کی اداؤں کی پہچان کا سبق سکھا سکھا کر ۔
خالق سے محبت کی اس کی رضا کی جستجو لے کر، اس کے دین کی سرفرازی کی آرزو اور اس کی راہ میں سرفروشی کی تمنا لے کر، احیائے اسلام کے خواب آنکھوں میں سجا کر، نسل نو کے ایمان اور عقیدے کے تحفظ کی فکریں لے کر، ملت اسلامیہ کی سربلندی کا عزمِ جواں اور اس کے لیے اپنے اندرون میں سوزِ پنہاں لے کر۔
خالق سے محبت کی وادیِ محبت میں پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے، دل کے آئینہ خانے کو ادنیٰ کسی بال سے پاک رکھتے ہوئے، تواضع وخاکساری کا پیکر اور فنائیت کا عکس جمیل بن کر، اخلاص وللہیت کے نغمے سازِ دل پر چھیڑچھیڑ کر، نام ونمود اور ریا وشہرت طلبی کی آلودگی سے بربطِ دل کو بچا بچا کر، خالق کی پسند وناپسند کے مستقل استحضار کے ساتھ، پسند پر قربان ہوکر، ناپسند سے بچ بچا کر، خود بھی رک کر، اوروں کو روک کر، شانِ استغنائی کے حامل بن کر اور دوسروں کو بنا کر۔
پھر خود بھی’’درِمحبوب‘‘ پر پڑے، اوروں کو بھی توفیق خدا سے ڈالا، ’’محبوب اکبر‘‘ نے ’’راز ونیاز‘‘ کے جو لمحے دیے ان کی بڑی قدر کی، ’’کلامِ محبوب‘‘ کے طویل طویل حصے زبان سے دہرائے،’’محبوب‘‘ کے سامنے راتیں گذاریں اس کے لیے سجدہائے نیاز گذار کر، اور دن گذارے ’’رازہائے درسِ محبت‘‘ کی شرح عام کرتے ہوئے، خمخانۂ سنت سے جام کے جام بھرتے ہوئے اور اس ’’جامِ محبت‘‘ کی سبیلیں عام کرتے ہوئے، سینوں میں دل رکھنے والوں کو ’’محبوب‘‘ کا پتہ بتاتے ہوئے، دل کی نگری ویران رکھنے والوں کو ’’نورِمحبوب‘‘ کے جلوؤں سے آباد کرنے کا قرینہ سکھاتے ہوئے۔ 
خالق سے محبت کے ساتھ ساتھ اس کے کنبے یعنی خلق خدا سے بھی محبت کی۔
خلق خدا میں حسن سلوک کے جو سب سے مستحق ہیں اور خالق نے اپنی بندگی کے حکم سے جوڑ کر جن کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت دو چند کردی، ان کی دل وجان سے خدمت اور ان سے بے پایاں محبت کی، لمحہ لمحہ ان کی راحت وآرام کی فکر کی، اپنے آرامِ جاں کو اس کے لیے تج دیا، اپنی خواہشات کو قربان کیا، اپنی ضرورتوں پر ان کی ضرورتوں کو ترجیح دی ، اور ایک مثالی فرزند بن کر جیے۔
مثالی فرزندبھی، مثالی باپ بھی، مثالی شوہر بھی، مثالی رفیق بھی، مثالی شاگرد بھی، مثالی استاد بھی، مثالی مہتمم بھی، مثالی منتظم بھی، مثالی خطیب بھی، مثالی امام بھی، مثالی مربی بھی، مثالی اتالیق بھی؛ الغرض مثالی ‘ پاکیزہ زندگی اور مثالی ‘قابل رشک موت پائی۔
محبت کے پیغام کو عام کرتے رہے؛ اپنے قول سے، اپنے عمل سے، اپنی گفتار سے، اپنے کردار سے، اپنے اخلاق سے، اپنے اطوار سے۔ محبت سے اپنوں کو قریب کیا، غیروں کو مانوس کیا، بڑوں کا اعتماد بلکہ دل جیتا، خوردوں کے سر پر ہاتھ بلکہ کلاہ رکھی، محبت سے دلوں کو جوڑا، منتشر فکروں کی شیرازہ بندی کی، بے چین روحوں کی تسکین کی، محبت سے عقدے حل کیے، محبت سے گتھیاں سلجھائیں،محبت سے بند دروازوں کو کھولا اور کھلے دروازوں سے دلوں میں دستک دی، اپنی ادائے دلبرانہ اور نوائے عاشقانہ سے انیسِ دوستاں بنے، جانِ عزیزاں بنے، رونقِ محفل بنے، شمعِ انجمنِ دل بنے۔
بڑوں کی قدر کی، چھوٹوں کی فکر کی، رفیقوں کا خیال رکھا، وضع داری کو برتا، محسنوں کی احسان شناسی کی،اصحاب مرتبہ کی قدر دانی کی، ذمہ داروں کا لحاظ رکھا، ماتحتوں کی دلجوئی کی، اپنوں کی خاطر کی، غیروں کی مداراتیں کیں، اپنے چمن کے گلوں کو نوازا، خاروں کو دل سے لگایا، اپنے پرائے سب ان کی نگاہِ ناز میں جچتے رہے بلکہ صحیح معنوں میں وہ جچے، انگوٹھی کا نگینہ بن کر، گلے کا ہار بن کر، بڑوں کی آنکھوں کا تارا بن کر ، چھوٹوں کی امیدوں کا مرکز بن کر۔
خلق خدا کو صحیح راستے پر ڈالنے کی فکریں کیں، انسانیت کی صلاح وفلاح کی ترکیبیں سوچیں، نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو رہے، رزم وبزم میں پاک دل وپاک باز بن رہے، طلبہ کو سمجھایا اور ان کی تعلیم وتربیت کے لیے شفیق باپ سے بڑھ کر فکرمند رہے، علماء کو ذمہ داری کا احساس دلایا اور ملک وملت کے مسائل کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنے کی دعوت دی، نوجوانوں کی بے راہ روی اور بے مقصد زندگی پر کڑھتے رہے اور ان کی اصلاح کے جتن کیے، خواتین کی دینی تربیت پر زور دیا، اصلاح معاشرہ، نہی عن المنکر، نوجوانوں کے لیے درس قرآن کی مجلسیں اور عورتوں کے لیے فہم قرآن کی محفلیں، دور افتادہ بستیوں کی فکر، اپنی بستی کو صحیح اسلامی خدوخال پر تشکیل دینے کی جستجو، منکرات کی روک تھام کی جدو جہد، نیکیوں اور خوبیوں کو رواج دینے کی پیہم سعی، نفس وشیطان کے حملوں سے بچ کر سفرِ سعادت میں تیز رو‘ تیز گام چل کر اسی راہ میں مر مٹنے کی دعوت اور راہِ عزیمت پر ثبات و استقامت آپ کی کتاب زندگی کے جلی عناوین ہیں۔
رب کریم سے دعا ہے کہ اپنی رضا ورحمت کا پروانہ آپ اور ہم سب کو عطا فرمائے اور آپ کانعم البدل امت کو عطا فرمائے اور آپ کے مشن کو کامیابی سے ہمکنار فرمائے، آمین۔

«
»

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے، جنگ کیا مسئلوں کا حل دیگی

آتنکی حملے کیوں ہوتے ہیں؟!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے