عبدالعزیز
عام طور پر بی جے پی اور اس کے لیڈران مسلمانوں کے ووٹوں سے بے نیاز ہوتے ہیں اسی لئے وہ ہندو اور مسلمان اور پاکستان جیسی باتیں بیان کر کے ملک کو بانٹنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ 2014ء کے الیکشن میں ہر طرح سے پولرائزیشن کی کوشش کی گئی جس میں بی جے پی کو 31فیصد ووٹ ملے اور وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ 2019ء کے الیکشن میں بھی شروعات اسی طرح ہوئی، کئی حربے استعمال کئے جاچکے ہیں اور کئی حربے استعمال ہورہے ہیں اور بہت سے حربے استعمال کئے جائیں گے۔
گزشتہ روز محترمہ مینکا گاندھی اور ساکچھی مہاراج نے ڈر اور دھمکی کی سیاست کا آغاز کرکے ساری اخلاقی حدیں توڑ دیں۔ نہ انسانیت کا خیال رکھا اور نہ ہی الیکشن کمیشن کے قاعدے اور قانون کا پاس و لحاظ کیا۔ محترمہ مینکا گاندھی نے مسلمانوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہاکہ اگر مسلمان ہمیں ووٹ نہیں دیتے تو انھیں ملازمت کیلئے میرے پاس نہیں آنا چاہئے۔ ہمارا رشتہ آپسی تال میل پر مبنی ہوتا ہے یعنی کچھ لو اور کچھ دو۔ انھوں نے مزید کہاکہ میں حق پر ہوں یا نہیں مگر ضرور کہوں گی کہ میں مہاتما گاندھی کی چوتھی اولاد نہیں ہوں۔ انھوں نے یہ بھی کہاکہ وہ مسلمانوں کے ووٹوں کے بغیر الیکشن میں کامیاب ہوجائیں گی وہ جو کچھ کہہ رہی ہیں وہ مسلمانوں کے بھلا کیلئے کہہ رہی ہیں۔ محترمہ مینکا گاندھی کو لگتا ہے خوف ہوگیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے ووٹ کے بغیر سلطان پور لوک سبھا حلقہ میں الیکشن میں کامیاب نہیں ہوں گی۔ اسی گھبراہٹ میں وہ جو کچھ کہہ رہی ہیں کچھ اس طرح ہے ’’بک رہا ہوں جنوں میں۔ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘ ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ بی جے پی میں رہ کر مسلمانوں کے ووٹ کی خواہشمند کیوں ہیں جبکہ ان کی پارٹی اوپر سے نیچے تک سب ہی کھلم کھلا مسلمانوں کے خلاف نفرت اور دہشت کی سیاست پورے ملک میں کر رہی ہے۔ گؤکشی، گھر واپسی، لو جہاد، ہجومی تشدد وغیرہ کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ سب کچھ روا رکھا ہے۔
دو روز پہلے مغربی بنگال کے ایک انتخابی جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے کہاکہ وہ شہریت کا بل (NRC) کو قانون بناکر پورے ملک میں نافذ کریں گے اور کسی بھی درانداز کو ہندو، بدھ اور سکھ کے علاوہ ملک میں رہنے نہیں دیں گے یعنی آسام جیسی صورت حال ملک بھر میں پیدا کردیں گے۔ مغربی بنگال میں مینکا گاندھی کی پارٹی کے صدر مسلمانوں سے بے نیازی دکھا رہے ہیں اور ان کو ملک بدر کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ محترمہ مینکا گاندھی سلطان پور میں دھمکی بھی دے رہی ہیں اور سودے بازی بھی کر رہی ہیں۔ محترمہ سے اگر کوئی پوچھ بیٹھے کہ مسلمانوں کو تو چھوڑئیے ہندوؤں کو کتنی نوکریاں دی ہیں تو معلوم ہوگا کہ صفر کے برابر ہے۔ ان کی حکومت دو کروڑ ہر سال نوکریاں دینے کے بجائے ایسے فیصلے کئے ہیں کہ کروڑوں لوگ بے روزگار ہوگئے۔ ایسی بے روزگاری بڑھی کہ گزشتہ 45سال میں پہلی بار ایسی بے روزگاری ہندستان میں دیکھنے میں آئی۔
2009ء میں مینکا گاندھی کے اکلوتے بیٹے ورون گاندھی نے ایک انتخابی مہم کے دوران انتہائی گھٹیا قسم کا بیان دیا تھا کہ جس کی وجہ سے بہت شور شرابہ ہوا تھا۔ ورون گاندھی نے کہا تھا کہ اگر کوئی ہندو کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے یا سوچتا ہے کہ ہندو قیادت سے محروم ہیں تو میں گیتا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا۔ اس بیان پر الیکشن کمیشن نے نوٹس لیا تھا جس پر انھیں معافی مانگنی پڑی تھی۔ ورون گاندھی کے بارے میں یہ بھی چند مہینے پہلے افواہ تھی کہ وہ کانگریس میں شامل ہونے والے ہیں۔ وہ شامل تو نہیں ہوئے مگر ان کا لہجہ پہلے سے کانگریس اور مسلمانوں کیلئے نرم ہوگیا ہے مگر ماں کا لہجہ تلخ و تند ہوگیا ہے۔
ایک اور زعفرانی لیڈر اور شعلہ بیان بی جے پی رہنما ساکچھی مہاراج نے گزشتہ جمعہ کو مسلمانوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہاکہ وہ روحانی طاقت رکھتے ہیں۔ اگر وہ ان کی حمایت نہیں کریں گے تو میں ان کی تمام نیکیوں کو برباد کردوں گا اور اپنے گناہوں کا سارا بوجھ ان کی طرف منتقل کر دوں گا۔ یہ بات انھوں نے اپنے پارلیمانی حلقہ اُناؤ میں کہی۔ ان بیانوں سے صاف پتہ چل رہا ہے کہ بی جے پی کے لیڈران گھبرائے ہوئے ہیں اور مسلمانوں سے پیار اور محبت کے بجائے ڈر ، دہشت اور دھمکی دکھاکر ووٹ لینا چاہتے ہیں۔
بی جے پی کے لیڈران ویویکانند، سبھاش چندر بوس اور مہاتما گاندھی جیسے بڑے ہندو رہنماؤں کا نام لیتے ہیں مگر سارا کام ان کے علی الرغم کرتے ہیں۔ ویویکانند نے کہا تھا کہ ’’مجھے فخر ہے کہ میں ایک ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہوں جہاں ہر قوم اور ہر مذہب کے لوگ رہتے ہیں اور ایک دوسرے میل ملاپ رکھتے ہیں‘‘ (شکاگو:11ستمبر 1893)۔ سبھاش چندر بوس نے کہا تھا کہ ’’آج کل میں بہت کچھ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان فرق کی بات سنتا ہوں مگر یہ سب مصنوعی طور پر ایجاد کردہ ہیں جیسے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ (عیسائی) کے اندر متنازعہ باتیں ہوتی ہیں یہ سب ہمارے انگریز حکمرانوں کے پیدا کردہ ہیں‘‘ (ان کی آپ بیتی)۔ مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ ’’آج ہندو مسلم کی باتیں بہت سنتا ہوں۔ اگر متنازعہ قسم کی باتیں نہیں روکی گئیں تو ان کا نتیجہ خون خرابہ ہوسکتا ہے۔ انھیں جلد روکنے کی ضرورت ہے۔ خدا ہم پر رحم کرے‘‘ (دہلی: 24جولائی 1947ء)۔
بی جے پی کے لوگ اپنے بڑے بزرگوں کی روایت اور تہذیب کی بحالی کی بات کرتے ہیں مگر کام بالکل برخلاف کرتے ہیں۔ لیتے ہیں رام کا نام اور کام کرتے ہیں راون کا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ ’’رام کے نام پر ناتھو رام کی راہ پر گامزن ہیں‘‘۔
جواب دیں