آہ! جناب عبد الرحمن صاحب منا تحریر ۔ عبداللہ غازیؔ ندوی (مدیر ماہ نامہ پھول بھٹکل) کرم فرمائےمن جناب مولانا عبدالحسیب صاحب منا ندوی کے والد ماجد جناب عبدالرحمن صاحب منا کی وفات کی خبر موصول ہوئی۔جناب عبدالرحمن صاحب منا عرصے سے مختلف بیماریوں سے جوجھ رہے تھے اور صبر کے پیکر بنے […]
کرم فرمائےمن جناب مولانا عبدالحسیب صاحب منا ندوی کے والد ماجد جناب عبدالرحمن صاحب منا کی وفات کی خبر موصول ہوئی۔جناب عبدالرحمن صاحب منا عرصے سے مختلف بیماریوں سے جوجھ رہے تھے اور صبر کے پیکر بنے اس آزمائشی دور سے گزررہے تھے۔آخر زندگی بھر کی اس بے قراری کو قرار آہی آگیا اور قضا و قدر پر راضی برضا ہوتے تھکا ہارا مسافر اس فانی دنیا سے رخصت ہوگیا۔ موت سے کس کو رستگاری ہے آج وہ کل ہماری باری ہے بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں سیکڑوں صفات ہوتی ہیں وہ گویا کمالات کا مجموعہ ہوتے ہیں لیکن کچھ پردے ان کے درمیان حائل رہتے ہیں جن سے ان کی ستودہ صفات اور ڈھیروں اوصاف کسی پر نہیں کھلتے۔جناب مرحوم عبدالرحمن صاحب کا بھی کچھ یہی حال تھا۔بظاہر وہ سادہ لوح انسان تھے لیکن ان کی زندگی کی داستان دلچسپ اور ان کے اوصاف و کمالات حیرت انگیز ہیں۔بلاشک ان کی حیات مستعار نے ہمیں یہ پیغام دیا کہ نکتہ وروں نے ہم کو سجھایا خاص بنو اور عام رہو محفل محفل صحبت رکھو،دنیا میں گمنام رہو عبادات اور تعلق مع اللہ کے علاوہ ان کا دلچسپ مشغلہ کتب بینی تھا،خصوصا رسائل و جرائد کے وہ جنون کی حد تک شوقین تھے،ایک ایک رسالہ ترتیب کے ساتھ رکھتے تھے،مطالعے کے دوران میں کوئی اہم نکتہ یا واقعہ ملتا تو اپنے گھر والوں کو سنانا ان کا معمول تھا۔بچوں کے رسائل سے ان کی دلچسی کا عجیب عالم تھا،رامپور سے نکلنے والے ماہ نامہ ”ھلال“ اور ”نور“ کے تو رسیااور شیدا تھے،پرانے شمارے مانگ مانگ کر پڑھتے،اپنے پاس رکھے شماروں کو چھونا تو دور قریب تک پھٹکنے نہ دیتے۔حالاں کہ یہ رسائل بچوں کے تھے لیکن ان بچوں کے رسائل کے سب سے بوڑھے قاری یہی تھے۔ھلال سے کہانیاں منتخب کرکے بچوں کے درمیان پڑھنا بھی ان کا خاص معمول تھا۔ جب ادارہ ادب اطفال بھٹکل کی طرف سے چار سال قبل بچوں کے لیے ماہ نامہ ”پھول“ کا آغاز ہوا تو ان کی خوشی کی انتہا نہ تھی،اپنے صاحب زادے مولانا عبدالحسیب صاحب ندوی کے ہمراہ دفتر تشریف لائے،خوب مبارک باد دی اور نسل نو کی تربیت کے اس نئے انداز کو خوب سراہا۔آخری ملاقات تک انھوں نے پھول کے بارے میں پوچھا اور اس سے اپنی دلچسپی کا اظہار کیا۔مسجد نور سے ان کا عجیب لگاٶ تھا،آزادنگر سے مسجد نور کے لیے تن تنہا جاتے،حتی کہ فجر کی نماز بھی مسجد نور میں ادا کرتے۔ بھٹکل کی مساجد کی تاریخ میں ان کا نام جلی حرفوں میں لکھا جائے گا اس لیے کہ مسجد طوبی میں ان کے تینوں بیٹے امامت کے منصب پر فائز رہے اور کئی سال سے اس سنہرے سلسلے کو مولانا صہیب صاحب منا اور مولانا عبدالمقیت صاحب منا کے بعد مولانا عبدالحسیب صاحب بحسن و خوبی سنبھالے ہوئے ہیں b الغرض جناب عبدالرحمن صاحب منا یاد آتے رہیں گے اور دیر تک ہمارے دلوں میں آباد رہیں گے۔ان کی مہمان نوازی،کرم فرمائی اور ان کی بے پناہ محبتوں کی یادیں مایوس زندگیوں میں امید کی کرنیں ثابت ہوں گی۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں