میر جعفر اور میر صادق کا کردار اور سعودی کی السیسی کوحمایت

تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے شاہ عبد اللہ نے اپنے خاص ایلچی شہزادہ سلمان بن عبد العزیز نے بنفس نفیس شامل ہوکر بڑے گرم جوشانہ انداز میں کہا کہ ’’ان کا ملک ،حکومت اور پوری قوم خادم الحرمین شریفین کی ہدایت کے مطابق مصری قوم کے ساتھ ہے‘‘اسی کے ساتھ انہوں نے آگے کہا کہ سعودی عرب مصر کو اپنا بھائی سمجھتا ہے اور مشکل وقت میں مصر کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا۔شہزادہ سلمان نے یہ بھی کہا کہ ’’آج کا دن مصر کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے کیوں کہ مصری قوم اپنے مستقبل کا فیصلہ اور اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں سے لکھنے جارہی ہے ‘‘۔
ہمیں یا کسی کو بھی ایسی باتوں سے جسے عام طور پر سفارتی زبان بھی کہتے ہیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے ۔لیکن اگر اس میں جھوٹ کی آمیزش ہو اندھیرے کو اجالا بنا کر باطل کو حق بنا کر پیش کیاجائے ۔ظالم کو مسیحا بتایا جائے ۔تب خاموش رہنا اور اس پر کوئی تبصرہ نہ کرنا بھی ظالم کی مدد اور باطل کے ساتھی ہونے کے برابر ہے ۔شہزادہ سلمان نے جس انتخاب میں السیسی کی جیت پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور اس کو مصری قوم کا فیصلہ بتایا ہے ۔اس کی حقیقت دجالی میڈیا کے جھوٹ کے باوجود چھن چھن کر لوگوں تک پہنچ ہی گئی ۔ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ ووٹنگ کیلئے دو روز کا وقفہ تھا اور اس میں مصر میں عام تعطیل کا اعلان بھی کیا گیا تھا لیکن ان دو دنوں میں بھی ساڑھے سات فیصدی سے زیادہ لوگ ووٹ دینے گھر سے باہر نہیں نکلے تب تیسرے دن الیکشن کو جاری رکھا گیا ۔اور اس کے بعد نتائج کا جھٹ سے اعلان کیا گیا کہ 39% سے 42% ووٹروں نے حق رائے دہی میں حصہ لیا جس میں السیسی 97% ووت لیکر فاتح قرار پائے ۔اس الیکشن کا جس کو منصفانہ اور شفاف ماننے میں بین الاقوامی برادری کے انصاف پسندوں کو تامل تھا جس کا اظہار کئی لوگوں نے کیا بھی تھا ۔یہی سبب ہے کہ اخوان سمیت سبھی اہم سیاسی پارٹیوں نے اس کا بائیکاٹ کیا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ اس انتخاب کو عام طور پر دو گھوڑوں کی ریس قرار دیا گیا ۔موجودہ السیسی کی انتخاب میں کامیابی صرف سات فیصد عوام کا ہی فیصلہ ہے یعنی اکثریت السیسی کو آج بھی باغی ظالم اور یہودی اور صہیونی ایجنٹ کے طور پر ہی دیکھتی ہے ۔جس اسرائیل کو فلسطین کی دو مختلف گروپوں حماس اور الفتح کا اتحاد بھی ایک آنکھ نہیں بھاتا ہو وہ سعودی حمایت یافتہ السیسی کی جیت سے اتنا خوش کہ اس نے فتح کی مبارکباد دیتے ہوئے یہ امید بھی ظاہر کی تھی کہ اسرائیل اور مصر کے اتحاد سے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا نیز نئی حکومت اسرائیل کے ساتھ ماضی کے سمجھوتے پر عمل درآمد کرے گی ۔یہی اسرائیل ہے جس نے اخوان کی حکومت بننے پرنہ صرف یہ کہ سخت تسویش کا اظہار کیا تھا بلکہ وہ اخوان کے عروج سے سخت خائف تھا ۔ایساہونے کی وجہ بھی ہے کہ یہ اخوان وہی ہیں جو 1948 میں اسرائیل کے خلاف راست طور پر جنگ میں حصہ لے چکے ہیں اور اسے ان کی غیرت اور شجاعت کا ادراک ہے ۔عنقریب تھا کہ اسرائیل کا وجود اسی وقت ختم ہو جاتا لیکن عالمی قوتوں کی مبینہ سازشوں اور مسلمانوں میں پل رہے میر جعفروں اور میر صادقوں کی وجہ سے وہ جنگ ختم ہوئی اور اسرائیل مسلم دنیا میں ایک کینسر کی طرح برقرار ہے ۔اسرائیل امریکہ سے بھی نالاں ہے جس کا اظہار زبانی ہی نہیں بلکہ عملی طور پر اوبامہ کے اسرائیل کے دورے کے دوران سرد مہری سے کیا ۔سروے رپورٹ بتارہے ہیں کہ یوروپ اور امریکہ میں اسرائیل کو ایک بوجھ سمجھنے والوں کی تعداد اب بہت تیزی سے بڑھتی جارہی ہے جس سے اسرائیل اور بھی خوف زدہ ہے ۔ایسے وقت میں خادمین حرمین شریفین !کی پشت پناہی اور اسرائیلی منصوبوں سے مرسی کی حکومت کا تختہ پلٹاجانا اور ایک اسرائیل نواز جنرل کو چور دروازے سے مصر کا اقتدار سونپ دینا کیا کہانی بتا رہا ہے ۔ امام ابن تیمیہ ؒ کا ایک قول یاد آرہا ہے کہ ’’اگر حق کو نہیں پہچان سکتے تو باطل کی تیروں پر نظر رکھو وہ جہاں لگ رہے ہوں حق وہیں ہے‘‘۔ایک باغی فوجی سربراہ جس نے ملکی اور بین الاقوامی قوانین کا کھلے عام مذاق اڑایا ہو ۔جس نے حقوق انسانی کی پامالی کی بد ترین مثال پیش کی ہو ۔جس کے حکم پر ہزاروں عورتوں مرد وں بچوں اور ضعیفوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ہو ۔جس کے حکم پر مسجد میں آگ لگا دی گئی ہو اور ہزاروں مساجد میں تالے ڈال دئے گئے ہوں ۔اس کیلئے اسرائیل اور سعودی حکمراں دونوں کی طرف سے مبارکبار ،جوش اور فریفتگی سے کیا ظاہر ہوتا ہے ۔کیا ہم نہیں دیکھ رہے کہ باطل کا تیر کس کی طرف سے اور کس طرف ہے ۔کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ مصر میں اخوان کی قانونی حکومت کا غیر قانونی اور غیر انسانی طریقے سے خاتمہ میں یہود اور سعود کی برابرشراکت ہے ۔اب یہ فیصلہ کرنا عوام کا کام ہے کہ ان حقیقتوں کی روشنی میں آل سعود کو خادمین حرمین شریفین کہنا کہاں تک درست ہے جبکہ ان کے کارنامہ مسلم امہ کو نفاق میں مبتلا کرنے اور قاتل و جابراور غاصب اسرائیل کو قوت فراہم کرنے والا ہی ہے ۔کیا صرف حاجیوں کی مہمان نوازی ان کے پیسوں سے کرنا اور حج کے انتظامات کرنا ہی ساری خامیوں اور اسرائیل نوازی جیسی لعنت کو دھونے کیلئے کافی ہے ۔ 
مسلم امہ کو بیسویں صدی کے آخر میں شاہ فہد اور اکیسویں صدی کی ابتداء میں شاہ عبد اللہ نے جتنا نقصان پہنچایا ہے اتنا نقصان شاید ہی کسی سے پہنچا ہو ۔

«
»

نیپالی زندہ بھگوان کماری جس کے پاؤں زمین پر نہیں پڑتے

کوئی جہاں میں اُردو کو مٹا نہیں سکتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے