میڈیکل ٹورزم کا خواب ،اسلامو فوبیا اور ڈاکٹر چندانی!

   حکیم نازش احتشام اعظمی

ہندوستان میں جس طرح تمام شعبہ ہائے زندگی کو سرمایہ داروں اور کارپوریٹ نامی جانوروں نے کاروباری بنادیا ہے ، اسی طرح خالص خدمت خلق کاامین اور محافظ باور کیا جانے والا شعبہ طب بھی ان کے خونیں پنجوں سے محفوظ نہیں رہ سکا اور وہاں بھی ان ساہوں کاروں اور ان کے پروردہ آلہ (stethoscope) براداروں نے ڈیرے ڈال دیے ۔آج شعبہ صحت کی حالت یہاں تک خراب ہوچکی ہے کہ آپ کسی بھی نرسنگ ہوم ، میٹرنٹی سینٹراور بڑے ڈاکٹر وں کے شاہی ٹھاٹ باٹ سے مزین شفاخانوں میں علاج کی غرض سے داخل ہوں تو بیماری سے زیادہ یہ آپ کو یہ فکر بھنبھوڑنے لگے گی کہ اتنا بڑا اور عالی شان اسپتال ہے ،پتہ نہیں معالج صاحب کتنے کا بل بنائیں گے ،شاید ایسا نہ ہو کہ ڈاکٹر کے ریسپشن پر بیٹھی حسینہ مسکراتے لبوں سے آپ کو اتنابھاری بھرکم بل تھمادے یا اسٹیٹمنٹ بتادے،جسے سن کر آپ خود بے ہوش ہوجائیں اور علاج کے بجائے بیمار رہتے ہوئے موت کو گلے لگالینے کا فیصلہ کرلیں۔یہ کوئی ہوا ہوائی لفاظی نہیں ہے، بلکہ معالجات کی موجودہ حالات کا آنکھوں دیکھا مشاہدہ ہے، جس سے رات دن ہم سب کا سابقہ پڑتا رہتا ہے۔اب یہ سارے میٹھے اور دلکش لگنے والے موہنے الفاظ صرف’’ جملہ‘‘ تک محدود ہوکر رہ گیے ہیںکہ’’ ڈاکٹر روئے زمین پر بھگوان کا اوتار یا مسیحا ‘‘ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔یہ تو رہی شعبہ صحت کی عام سی بات جسے لگ بھگ ہم لوگوں نے ذہن و دل سے قبول بھی کرلیا ہے کہ ڈاکٹر ہوگا تو معالج سے زیادہ بنیا اور ساہوکار ہوگا۔آپ کی اقتصادی کنڈیشن سے اسے کوئی سرو کار نہیں ہوگا ، بلکہ علاج کے بدلے اس کو بھاری بھرکم فیس چاہیے، اوپر سے پیتھولوجی، لیباریٹری اور دوا کمپنیوں سے کمیشن چاہیے ،یعنی وہ آپ کو چاروں جانب سے لوٹے گا، یہی اس کا پیشہ ہے اور اسی تگ ودو میں اس کی زندگی کے شب وروز گزرتے ہیں۔ اب اس بات کو جانے دیجیے کہ طبی اخلاقیات بھی اس معالج کے نصاب کا خاص چیپٹر رہاہوگا اور ڈگری ہاتھ میں لیتے وقت اس نے جو قسم کھائی ہوگی یا حلف اٹھایا ہوگا کہ وہ : مال و دولت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے امیرو غریب سب کے علاج کو اپنا فرض منصبی تصور کرے گا۔پیسے کی کمی کی وجہ سےکسی کواپنی کلینک کی سیڑھیوں سے اتر تا ہوا دیکھ کر اس کا کلیجہ منہ کو آجائے گا اور ایسا کرنا کسی بھی قیمت پر وہ گوارا نہیں کرے گا۔ یہ طب کی اعلیٰ اخلاقیات ہیں ،جس کا تقاضہ اس کا یہ فن زندگی کے ہر موڑ پر اس سے کرتی ہے ۔مگر آج کا طبیب ہر لمحہ اس طرح کےخیالات کو تھوکتا اور پیروں تلے مسلتا رہتا ہے۔
امید ہے میرے اطبا احباب اس بات کو میری جانب سے تعمیری تنقید ہی سمجھیں گے کہ اب وطن عزیز ہندوستان میں اطباء خصوصاً تجربہ کار اور مصروف معالجین جدید طبی اخلاقیات سے قطعاً ناواقف نظر آتے ہیں اور نو آموز ڈاکٹروں کے لئے کوئی ایسی عملی مثال بن کر سامنے نہیں آتے، جس کی تقلید کی جاسکے۔ گو مخلص اور ایماندار اطباء اب بھی موجود ہیں، لیکن شاید آٹے میں نمک کے برابر۔ آپ اس کے سامنے اپنی غریبی، محتاجی اور لاچاری کا لاکھ رونا روتے رہیں ، اس کے سر پر آپ کی حالت زار کو دیکھ اور سن کر جوں تک نہیں رینگے گی، بلکہ اسے آپ سے جتنا وصول کرنا ہے وہ اتنا اتار کرہی دم لے گا ۔
کیا میں یہ کہنے کی جسارت کرسکتا ہوں کہ پیشۂ طب روبہ زوال ہے اور اس کے عزت و وقار میں بتدریج کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ اور یہ سب خود جدید میڈیکل سائنس کے اعلیٰ تعلیم یافتہ مخلوق کی سیہ کاریوں کی وجہ سے ہورہا ہے۔ اس کی وجوہات میں ریاست کا عوام کی صحت سے مجرمانہ اور دانستہ غفلت کا رویہ، پرائیویٹ میڈیکل تعلیم میں مسلسل اضافہ، غیر معیاری طبی تعلیم، بین الاقوامی فارما سیو ٹیکل کمپنیوں کی ڈاکٹروں پر سرمایہ کاری اور ایک کمزور انڈین میڈیکلکونسل سب سے نمایاں ہیں۔ ہم اس وقت صرف طبی اخلاقیات پر بحث کریں گے۔غریب مریضوں کے ساتھ جانوروں سابرتاؤ کرنے والے بیشتر معالجین کی بات کریں گے جن میں سے زیادہ ترکی تعلیم ڈکیتی اور سوداگری سکھانے والےپرائیویٹ میڈیکل کالج سے ہی ملی ہے۔
واضح رہے کہ حیاتیاتی اخلاقیات کا دائرہ اسپتالوں یا شفاخانوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ یہ مضمون طب اور صحت کے شعبوں میں خدمات فراہم کرنے والے تمام اداروں، ان کے طبّی اور نیم طبّی عملے، اس شعبے میں تعلیم، تحقیق اور تجربات کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ لہٰذا اس میں تمام متعلقہ افراد کے حقوق اور فرائض بھی آجاتے ہیں۔ کمیونٹی ہیلتھ سائنسز کی ایک ماہر کے بقول ’طبی اخلاقیات‘ (medical ethics) اپنے آپ میںبہت وسیع مضمون ہے، جس کا تعلق بنیادی طور پر انسانی اخلاقیات سے ہے۔
یہ ہمیشہ یاد رکھیے کہ فرد کی اخلاقی تربیت کی ابتداء گھر سے ہوتی ہے۔ زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح طب اور صحت کے شعبوں میں بھی آج بہت سے اخلاقی مسائل در آئے ہیں۔ مثلاً غلط طریقوں سے دولت کمانا، تحقیقی کام کی چوری یا نقّالی اور اسپتالوں و شفا خانوں وغیرہ میں کام کرنے والے طبّی اور نیم طبّی عملے کی جانب سے لوگوں یا مریضوں کے ساتھ غلط رویہ اختیار کرنا، مریضوں کے ساتھ نا انصافی کرنا وغیرہ۔یہ رہی طبی اخلاقیات(medical ethics) کی بات۔ مگر اس پر اگر مذہب کی افیم چڑھی ہو تو اس کے ہر قدم سےصحیح معنی میں طب کے معزز پیشے کی توہین ہوگی۔
دراصل گزشتہ یکم جون2020 کواین ڈی ٹی وی کی انگریزی سائٹ پر ایک ہیبت ناک خبر شائع ہوئی ہے، جس نے میڈیکل کے معزز پیشہ کو شرمسارکرکے رکھ دیا ہے اور آن واحد میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل گئی، این ڈی ٹی کی رپورٹ کے مطابق کسی مقامی جرنلسٹ نے جی ایس وی ایم میڈیکل کالج کان پورکی پرنسپل اور ریاست کی معروف لیڈی ڈاکٹر لال چندانی کا ایک ویڈیو وائرل کیاہے، جس میں ڈاکٹر لال چندانی اسپتال میں کووڈ19-کے لیے زیر علاج تبلیغی جماعت کے لوگوں کو دہشت گرد قرادیتے ہوئے کہتی ہے کہ تم لوگوں کا ٹھکانہ جیل یا جنگل یا کسی تہ خانے میں ہونا چاہئے اور فوراً اسپتال سے باہر پھینک دینا چاہئے۔خیال رہے کہ یہ وائرل ویڈیو دوماہ پرانا یعنی ماہ اپریل 2020 کا ہے، جب سے چندانی کی حیوانیت کا پرچار سوشل میڈیا کے ذریعہ ساری دنیا میں ہورہا ہے۔
’’A top Uttar Pradesh doctor

«
»

حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کا حکومت ملنے پر لوگوں سے خطاب

منصبِ افتاء مقامِ حزم واحتیاط ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے