میڈیا کی توسیع اور مقبولیت میں اُردو زبان کا کردار

عارف عزیز(بھوپال)

 موجودہ عہد کو میڈیا یا اطلاعاتی انقلاب کا دور کہا جاتا ہے، پرنٹ میڈیا ہو، نشریاتی میڈیا، یا نیٹ میڈیا، سب برق رفتار ترقی کے دور سے گزر رہے ہیں اور اُردو کی نمائندگی اِن میں بڑھ رہی ہے، ہندوستان کیونکہ اُردو کی جائے پیدائش ہے یہاں طویل عرصہ تک اُردو ہی رابطے، اطلاعات اور مواصلات کی زبان رہی ہے۔ لہٰذا میڈیا کے مختلف شعبوں پر اِس کے اثرات کو باآسانی دیکھا و پرکھا جاسکتا ہے، خاص طور پر اخبارات و رسائل جو حالاتِ حاضرہ سے باخبر ہونے کا نہایت سستا اور کارآمد ذریعہ ہیں۔ اُن کی وسعت و ہمہ گیری کا یہ عالم ہے کہ گوہاٹی سے کلکتہ، پٹنہ، دہلی، شملہ، چنڈی گڑھ، جموں اور سری نگر تک دوسری طرف ممبئی سے حیدرآباد،بنگلور، چینئی اور کیرل تک تمام بڑے شہروں سے اردو زبان کے اخبارات و رسائل نکل رہے ہیں۔ ہندوستان کی گیارہ اہم ریاستوں سے شائع ہونے والے یہ اخبارات و رسائل جہاں تعداد میں تیسرے نمبر پر شمار ہوتے ہیں، وہیں معیار میں ہم عصر زبانوں کی ہمسری کے دعویدار ہیں، یہ اخبارات کسی خاص فرقے، علاقے یا نظریے کی نمائندگی نہیں کرتے، اِن میں آپ کو ہر مذہب، فرقے اور نظریے کے ترجمان مل جائیں گے، یہاں تک کہ سنگھ پریوار، آریہ سماج، جماعتِ اسلامی، جمعیۃ علماء، اہلِ حدیث، کانگریس، کمیونسٹ پارٹیاں، سناتن دھرم، سکھ ازم، مسیحیت، ترقی پسندی، جدیدیت اور ادبِ اسلامی کے علمبردار اخبار اِن میں شامل ہیں۔ برصغیر ہندوپاک، بنگلہ دیش ہی نہیں، یوروپ، امریکہ، افریقہ اور ایشیاء کے ہرگوشے اور خلیجی ممالک کی اُردو بستیوں تک یہ پھیلے ہوئے ہیں۔ ہمسایہ ملک پاکستان میں اردو اخبارات کے اثرورسوخ کا تو یہ حال ہے کہ وہاں کے حاکم اور سیاست داں اپنی خبریں اور بیانات کی اشاعت کے لیے انگریزی پریس سے زیادہ اُردو اخبارات کو اہمیت دیتے ہیں۔ کراچی کا ’جنگ‘ پاکستان کا سب سے بڑا روزنامہ ہے جو پاکستان کے علاوہ امریکہ، برطانیہ اور کئی شہروں سے شائع ہورہا ہے۔ اِس کا سرکیولیشن ہندوستان کے ہندی و انگریزی اخبارات سے زیادہ ہے۔ برصغیر میں سب سے پہلے ملٹی کلر میں اِس کی اشاعت شروع ہوئی، بعد میں ہندوستان کے اخبارات نے اِس روش کو اپنایا۔
ہم عصر ہندی صحافت پر بھی اردو کے اثراانداز ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ ہندی کے بڑے ادیب اور اخبارنویس اُردو کے غلط ہی سہی الفاظ کا استعمال کرکے خود کو اُردو کا گیانی ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیس سال پہلے کے مقابلہ میں آج ہندی کے قلم کار اور صحافیوں کے زبان و بیان میں اُردو کے الفاظ، محاورے اور اصلاحات کا استعمال بڑھا ہے، یہ عام قاری تک اپنی بات پہونچانے کی لالچ ہی کیوں نہ ہو، کہیں نہ کہیں اِس میں اردو کے لیے نرم گوشے کا اظہار اور ’اُردو کلچر‘ کی بالادستی کا اعتراف موجود ہے۔
دنیا میں ایسے کئی ممالک ہیں،جن کا اردو سے کوئی خاص رشتہ و لگاؤ نہیں ہے لیکن وہاں اُردو کی نئی آبادیاں بس جانے سے اردو اخبار و رسائل کی اشاعت کے ساتھ ریڈیو کی نشریات بھی ہورہی ہیں، جن میں خبروں اور تبصروں کے علاوہ معلوماتی، تعلیمی، ادبی نیز تفریحی پروگرام شامل ہیں، اِن میں ’بی بی سی لندن‘ سرِفہرست ہے، جو ۸۷ سال سے جاری ہے اور ہندوستان و پاکستان میں اِس کا نام خبروں کے آزاد و معتبر ذریعہ کے طور پر لیا جاتا ہے۔ بیرونِ ملک کی دوسری بڑی نشریات میں ’وائس آف امریکہ‘ کا شمار ہوتا ہے، جو آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس کی طرح، جو ۴۲ گھنٹے چلتی ہے، یہ بھی مسلسل بارہ گھنٹے جاری رہتی ہے۔ اِس کو ۶۷ سال ہورہے ہیں اور اپنے متنوع پروگراموں کے باعث دلچسپی سے سنی جاتی ہے، ’صدارنگ‘ اِس کا ادبی رسالہ ہے۔
جرمنی کے شہر بون سے ’ڈوائچے ویلے‘ اردو ریڈیوسروس ۵۵ سال سے نشر ہورہی ہے، جس میں جنوبی ایشیا، یوروپ اور جرمنی سمیت پوری دنیا کی اہم سرگرمیوں کا احاطہ ہوتا ہے۔ ’صدائے روس‘ روس کی اردو نشریات کا نام ہے، اِس کو بھی ریڈیو ماسکو سے نشر ہوتے ۷۷ سال ہوگئے ہیں، پوری دنیا کے اردو جاننے والے اِسے دلچسپی کے ساتھ سنتے ہیں، ٹورنٹو کے اردو ریڈیو پروگرام ہفتے کے مختلف دنوں اور اوقات میں ریلے ہوتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی نشریاتی کارپوریشن ’آئی آر آئی بی‘ کے اُردو پروگرام کو بھی نشر ہوتے چالیس سال ہوگئے ہیں۔ ریڈیو جدہ ایک زمانے سے اردو پروگرام پیش کررہا ہے، اب اُس کا نام’سعودی عرب اردو نشریات‘ ہوگیا ہے، اِسی طرح کویت سے کویت ریڈیو، مصر سے قاہرہ انٹرنیشنل اردو پروگرام ترتیب دیتے ہیں، عمان کے دارالحکومت مسقط سے ریڈیو عمان، قطر کی براڈ کاسٹ سروس سے ریڈیو قطر کا اردو پروگرام دوحہ سے، متحدہ عرب امارات کے ابوظہبی، دوبئی، شارجہ اور راس الخیمہ سے یومیہ ۹ گھنٹے نشر ہوتے ہیں جب کہ ریڈیو ماریشس سے یومیہ اردو پروگرام کے لیے ڈھائی گھنٹہ کا وقت مقرر ہے، علاوہ ازیں کابل ریڈیو، تاشقند ریڈیو اور فلیپائن ریڈیو سے بھی اردو نشریات جاری ہیں، ’این ایچ کے‘ جاپان کا واحد عوامی نشریاتی ادارہ ہے، جسے سیاسی اثر ورسوخ سے آزاد رکھا گیا ہے، اِس کی اردو سروس کو ۵۵ سال اور چین کے ریڈیو بیجنگ کی غیرملکی اردو نشریات کو ۳۵ سال ہورہے ہیں اور اِن میں تازہ خبریں، عالمی حالات پر تبصرے، انٹرویو اور مشاعرے شامل ہوتے ہیں، بنگلہ دیش کی غیرملکی نشریات میں بھی اُردو کو معقول نمائندگی دی گئی ہے، یہ ریڈیو بنگلہ دیش کے علاوہ علاقائی ریڈیو اسٹیشنوں سے بھی ریلے کیے جاتے ہیں۔
ریڈیو کی طرح ٹیلی ویژن بھی ۱۲ویں صدی کا مقبول عام میڈیا ہے، جس میں اردو زبان کا اثرورسوخ دن بدن بڑھ رہا ہے، سرکاری طور پر تو ضرور اردو کا واقعی حق ادا کرنے میں کوتاہی ہورہی ہے لیکن عام میڈیا ہاؤسوں میں تجارتی مصالح سے اردو کی نمائندگی بڑھ رہی ہے، اِسی لیے آج ٹی وی کی خبروں، مباحثوں، سیریلوں میں اردو زبان کا بول بالا نظر آتا ہے۔ ملک کی آزادی کے بعد ریڈیو اور اخبارات کی زبان کو شعوری طور پر سنسکرت آمیز بنایا گیا، نتیجہ میں ہندی زبان کو نقصان پہونچا تو ریڈیو اور اخبارات میں اردو آمیز آسان زبان کو اپنایا گیا ہے۔ تجارتی مقاصد سے ڈی ڈی اردو، ای ٹی وی اردو، عالمی سہارا، منصف اور زی سلام جیسے اردو کے کئی چینل شروع ہوگئے ہیں، جن کو غیر اردو داں بھی دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔ پاکستان کے ٹی وی سیریل اور مباحثوں کو ہندوستان میں اردو زبان کی شیرینی کے باعث دیکھا جاتا رہا ہے۔ لیکن جب سے ہندوستان کے ٹی وی پروگراموں میں اردو کی پوچھ پرکھ بڑھی ہے، پاکستان کے پروگراموں کی ہندوستان میں مقبولیت کم ہوگئی ہے، سیاست دانوں کا پیغام پہونچانے کے لیے اردو زبان، اخبارات اور اشعار شروع سے بڑا وسیلہ رہے ہیں، ہندی اخباروں میں جو کالم اردو زبان لیکن دیوناگری رسم الخط (لیپی) میں لکھے جارہے ہیں، اُن کی مقبولیت کا راز بھی اردو کی چاشنی ہے، جس کا جادو الیکٹرانک میڈیا سے فلموں کے پردہ تک سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ 
آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نئی نئی شکلیں سامنے آرہی ہیں، جن کو اپناکر اردو زبان سوشل میڈیا، بلاگ میڈیا، یوٹیوب میڈیا اور موبائل میڈیا کے ذریعے نئے نئے جہانوں کی سیر کررہی ہے، اِس طرح بیشتر سیاسی و سماجی انقلابات میں اُردو کی نمائندگی بڑھ رہی ہے، خاص طور پر سیٹیلائٹ چینلوں، یوٹیوب اور دوسری ویب سائٹوں کی بدولت لوگ جہاں اپنے علم و معلومات میں اضافہ کررہے ہیں، وہیں اردو کے ادیبوں اور شاعروں کو ایک لامحدود پلیٹ فارم مل گیا ہے، ریختہ جیسی ویب سائٹ نے تو اردو کی ہزاروں کتابوں تک ہماری پہونچ کو آسان کردیا ہے۔ بحیثیت مجموعی اردو ایک زندہ، متحرک اور عوامی زبان ہے، جس کا پورا پورا عکس آج کے میڈیا یعنی اخبارات، رسائل، ریڈیو، ٹی وی، فلم اور سوشل میڈیا پردیکھا اور پرکھا جاسکتا ہے، جس میں وقت کے ساتھ اضافہ ہی ہوتا جائے گا۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

24اگست2019(فکروخبر)
 

«
»

عاشورہ کا روزہ پچھلے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام !!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے