ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
11جنوری کو انٹرنیشنل اردو فاؤنڈیشن ممبئی اور ”تریاق نامہ“ نے قومی صحافت اور صحافی کی معاشرتی ذمہ داریوں کے موضوع پر خاکسار کا ایک ورچوول لیکچر کا اہتمام کیا تھا۔ اس موقع کو غنیمت جان کر احقر نے کوشش کی یہ بتانے کی کہ دنیا جس طرح 2020 میں بالکل ہی بدل گئی‘ اُس کے اثرات سب سے زیادہ میڈیا پر مرتب ہوئے ہیں۔ اور میڈیا میں پرنٹ، الکٹرانک اور سوشیل میڈیا شامل ہیں۔ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا اور ویسے کسی نے کہا بھی ہے کہ اب جو بھی تاریخ ہم بیان کریں گے وہ یا تو کووڈ سے پہلے کی ہوگی یا کووڈ کے بعد کی۔ میڈیا کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ایک سال بلکہ چند مہینوں میں پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا جس بحران سے گذرے ہیں‘ اُسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اس بحران کے لئے خود میڈیا بھی بڑی حد تک ذمہ دار ہے۔ کرونا وائرس جس طرح سے پھیلا اس کے اثرات سے اتنی اموات نہیں ہوئیں جتنی کہ اس کے خوف سے ہوئیں۔ اخبارات چاہے وہ کسی بھی زبان کے ہو‘ اپنی تعداد اشاعت اور الکٹرانک میڈیا نے ٹی آر پی کے چکر میں جو خوف کا ماحول پیدا کیا وہ خود اس کا شکار ہوگیا۔ اخبارات کی تعداد اشاعت گھٹ گئی۔ اسٹاف میں کمی کردی گئی۔ گھر سے کام کرنے کی روایت کی شروعات ہوئیں۔ جو اسٹاف رہ گیا اس کی تنخواہیں کم کردی گئیں۔ اس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ اخبارات اور ٹی وی چیانلس کو اشتہارات سے حاصل ہونے والا روینیو کم ہوگیا۔ اخبارات کی سپلائی چین متاثر ہوئی۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہاکرس کو اخبارات گھر گھر پہنچانے میں مشکلات تھیں۔ اگر وہ پہنچا بھی سکتے تو اسے قبول کرنے والا کوئی نہیں تھا کیوں کہ باہر سے آنے والے ہر فرد کو ملک الموت سمجھا جارہا تھا۔ قارئین کے اس نادانستہ بائیکاٹ کو دیکھتے ہوئے ہندوستان کے بعض قومی اخبارات کو الکٹرانی میڈیا کے ذریعہ بار باریہ وضاحت کرنی پڑی کہ مشین سے چھپ کر نکلنے والا ہر اخبا ر سینیٹائزڈ کیا جارہا ہے اس کے باوجود اخبارات پڑھنے والے بہت کم رہ گئے تھے۔ 30-32صفحات کے اخبارات 8صفحات پر محدود ہوگئے تھے۔ اشتہارات کی شرحیں گھٹادی گئیں۔ ٹی وی چیانل سے بھی عوام کو گھن آنے لگی تھی، کیوں کہ بیشتر ٹی وی چیانلس کرونا کے اثرات اور اس کے بچاؤ کے طریقو ں سے واقف کروانے کی بجائے ایک مخصوص فرقہ کو کرونا کا ذمہ دار قرار دینے کی گھناؤنی کوشش میں مصروف تھے۔ انہیں بہت جلد اس کی سزا عوام نے بھی دی‘ پولیس نے بھی اور بعض ریاستوں کے حکومتوں نے بھی دی۔ جن اخبارات کے فری آن لائن ایڈیشن ہیں‘ ان کا قاری مطالعہ ضرور کرتے رہے‘ جنہوں نے پے وال Pay Wall ایڈیشن شروع کئے (یعنی آن لائن ایڈیشن کی قیمت کی ادائیگی کے بعد اس کا مطالعہ ممکن ہے)۔ ایسے اخبارات کو بھی مایوسی کا شکار ہونا پڑا کیوں کہ کرونا لاک ڈاؤن کا اثر ہر فرد کی جیب پر بھی پڑا تھا۔ اور قاری کے ذہن میں یہ بات آگئی تھی کہ یہ قومی اخبارات اس بحران کا بھی استحصال کررہے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ 20فیصد قارئین نے بھی پے وال ایڈیشن سے استفادہ نہیں کیا۔ وہ اخبارات جنہوں نے وقت کی رفتار سے خود کو ہم آہنگ رکھا تھا۔ جنہیں مستقبل کے ٹکنالوجی کا اندازہ تھا‘ وہ کامیاب رہے۔ جن میں ”ملیالم منورما“ قابل ذکر ہے‘ جس نے دوسال پہلے ہی وال ایڈیشن شروع کیا تھا۔ کرونا بحران کے دوران گھروں میں محدود لوگوں نے انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال کیا۔ سوشیل میڈیا کا استعمال بہت زیادہ ہوا۔ اور یہی وہ وقت تھا جب سوشیل میڈیا کی اہمیت کا احساس ہوا۔ یوں تو بیشتر اخبارات کے ساتھ ساتھ ٹی وی چیانل بھی بہت پہلے سے ٹوئیٹر، فیس بک، واٹس اَیپ وغیرہ کا استعمال کررہے ہیں‘ مگر کرونا بحران کے دوران انہیں بھی اس کا سہارا لینا پڑا کیوں کہ سوشیل میڈیا جسے اب جمہوریت کا پانچواں ستون تسلیم کرلیا گیا ہے۔ بڑی تیزی سے اخبار اور ٹیلی ویژن چیانلس کی مقبولیت کو متاثر کرنے لگا تھا۔ کرونا جسے کووڈ19کا نام دیا گیا‘ اس سے مقابلہ کرنے والوں میں ہیلتھ ورکرس، پولیس، لازمی خدمات کے ملازمین‘ این جی اوز والینٹرس‘ بالخصوص وہ لوگ جو کرونا سے ہونے والے اموات کی آخری رسومات انجام دے رہے تھے۔ کیوں کہ یہ ایسا بدترین دور تھا جب باپ کی آخری رسومات انجام دینے کے لئے اولاد تیار نہیں تھی۔ بھائی کو کاندھا دینے کے لئے بھائی آمادہ نہیں تھا۔ این جی اوز کے والینٹرس اور مختلف محلوں کے جانباز نوجوان ہی تھے جنہوں نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مرنے والے بدنصیبوں کو یا تو دفن کرنے میں یا پھر انہیں سپرد آتش کرنے میں مدد کی۔ ان سب میں زیادہ اہم رول ڈاکٹرس اور میڈیکل اسٹاف کا تھا جنہوں نے دوسروں کی جان بچاتے بچاتے خود اپنی جان دے دی اور ان کے ساتھ ساتھ صحافی شامل ہیں‘ ان میں ہر دو طرح کے صحافی ہیں‘ ایک خوف کا ماحول پیدا کرنے والے دوسرا صحیح صورت حال سے واقف کرواتے ہوئے عوام کو حوصلہ دلانے اور ارباب اقتدار کی آنکھیں کھولنے والے صحافی۔ لاک ڈاؤن کے دوران بے روزگاری اور بھوک سے بے چین‘ پریشان حال لاکھوں مزدور اپنے معصوم بچوں کو کندھوں پر اٹھائے اپنے ضعیف والدین کو پشت پر لادے بے یار و مددگار ہزاروں میل دور اپنے وطن واپس ہونے کے لئے نکل پڑے تو اس صورتحال کو پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر لانے والے کم از کم 60صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔اس کے باوجود صحافیوں نے اپنے مشن کو ترک نہیں کیا۔
دراصل ان ہزاروں مزدوروں کو میڈیا نے ہمیشہ نظر انداز کیاتھا۔ کیوں کہ ان کے مسائل پر کسی نے نہ تو قلم چلایا تھا نہ اس کے تاثرات کو ریکارڈ کرکے میڈیا کے ذریعہ پیش کیا گ یا تھا۔ پی سائی ناتھ بانی ایڈیٹر پیپلز آرکائی آف رورل انڈیا (PARI) نے Media next 2020 وے بی نار میں ان تارکین وطن مزدورں سے متعلق یہ انکشاف کیا کہ اپنے گذر بسر کے لئے اپنے گاؤں کو چھوڑ کر شہروں کا رخ کرنے والے 454ملین نقل مقام کرنے والے محنت کشوں کو 2011ء کی مردم شماری میں تک نظر انداز کردیا گیا تھا جب مزدور سڑکوں پر نکلے تو میڈیا بھی حیران تھا اور ارباب اقتدار بھی پریشان۔
یہ اَن پڑھ مزدور جن میں سے بیشتر کے پاس موبائل فون تھے۔ انہوں نے سیلفیز کے ذریعہ اور اپنے بیانات اور پیغامات ریکارڈ کرکے اسے دنیا تک پہنچایا تھا۔ کرونا بحران سے بہت پہلے سے اگرچہ کہ بعض دور اندیش میڈیا اداروں نے وقت کے ساتھ چلتے ہوئے انتہائی جدید ٹکنالوجی کے کا استعمال شروع کردیا تھا جس میں ڈیجی ٹیلائزیشن مشن لرننگ ML، آرٹیفیشیل انٹلیجنس IA، ڈرون جرنلزم قابل ذکر ہیں۔جو اخبارات وقت کے ساتھ نہیں چل سکے وہ یا تو پیچھے رہ گئے یا قاری نے انہیں فراموش کردیا۔ جن ٹی وی چیانلس نے حقائق کی بجائے محض اپنی ٹی آرپی کے لئے نفرت اور بین فرقہ جاتی دشمنی پیدا کرنے کی کوشش کی‘ وہ راتوں رات آسمان سے زمین کی تہوں میں چلے گئے۔ اردو اخبارات کا جہاں تک تعلق ہے یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ بعض اخبارات اسٹاف کی کمی اور تنخواہوں کی تخفیف میں تو دوسری زبان کے اخبارات کے شانہ بہ شانہ رہے۔ اپنے قاری کی صحیح رہنمائی میں وہ میلوں پیچھے رہ گئے۔ وہی گھسے پیٹے موضوعات پر وہ لکھتے رہے۔ اور خوف کاماحول پیدا کرنے والی خبروں کو نمایاں کرتے رہے۔ 2020کے بعد ہر زبان کی صحافت کے لئے چاہے وہ پرنٹ ہو یا الکٹرانک اُسے اپنے آپ کو عصری سانچے میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ ان میں مشین لرننگ سے واقفیت، آرٹی فیشیل انٹلی جنس سے استفادہ قابل ذکر ہیں۔ جو نئی اور نوجوان نسل اس پیشہ کو اختیار کرنا چاہتی ہے‘ اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے وہ اس پیشہ کی اہمیت کو سمجھے۔ ہر دور میں ترقی ہوگی اور ٹکنالوجی بدلتی جائے گی مگر صحافت کی جو تعریف اور تشریح ہے وہ ایک ہی رہے گی۔اپنے قاری اور ناظرین کو اُن حقائق سے واقف کروانا جس سے وہ لاعلم ہیں۔ سورہ الحجرات کی آیت جس کا مفہوم ”جب کوئی جھوٹی خبر تم تک پہنچائے تو اس کی تصدیق کرلیا کرو“۔
دو ا حادیث کو ہمیشہ مشعل راہ بنائے رکھنے کی ضرورت ہے۔ تم دوسروں کی عیب جوئی مت کرو اللہ تمہارے عیب چھپائے گا۔ اور کسی جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی خبر دوسروں تک پہنچا دے۔آج ایک خاندان کے انتشار سے لے کر عالمی سطح کا خلفشار جھوٹی خبروں، سنی سنائی باتوں کو بلاتحقیق دوسروں تک پہنچادینے اور ایک دوسرے کی عیب جوئی کی وجہ سے ہے۔ صحافی کے بے باک، نڈر، حق پسند ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس میں خوف خدا ہو۔کیوں کہ جو صرف خدا سے ڈرتاہے دنیا اس سے خوفزدہ رہتی ہے۔اسے اپنی زبان کے علاوہ کم از کم دو اور زبانوں پر عبور ہو‘ جس موضوع پر قلم یا زبان چلاناہے اس سے متعلق مکمل معلومات حاصل ہوں۔ وہ عصری ٹکنالوجی‘جدید مشنری کا استعمال ضرور کریں مگر خود مشین کی طرح انسانی جذبات سے بے حس نہ ہوجائے۔ جو مسائل کو سمجھے اور اُسے پوری دیانتداری کے ساتھ اس انداز میں پیش کرے کہ اس کی یکسوئی کا رستہ نکل سکے۔جس کا قلم اور زبان خود اس کی اپنی کمیونٹی میں اتحاد، اتفاق کاذریعہ بنے ساتھ ہی بین فرقہ جاتی غلط فہمیوں کو دور کرنے میں اہم رول ادا کرسکے۔ سماجی مسائل کو اُچھال کر پیش کرنے کے بجائے اس کا حل پیش کرے۔ اپنے قلم سے کسی کو نہ آسمان پر چڑھا دے نہ کسی کو خاک میں ملادے۔ بلکہ اعتدال کا راستہ اختیار کرے۔ سنسنی خیز خبروں کا اثر وقتی ہوتا ہے‘ سنسنی اور خوف پیدا کرنے کے بجائے اپنے قاری اور ناظرین کو خوف کے ماحول سے باہر نکالے، اس میں جینے اور حالات سے لڑنے کا حوصلہ پیدا کرے۔اور بھی بہت کچھ ہے‘ انشاء اللہ۔ یار زندہ صحبت باقی
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروی نہیں ہے
جواب دیں