میڈیا کی آزادی پرحکومتوں کی روش

بلاشبہ میڈیا کو یوں ہی جمہوریت کا چوتھا ستون تسلیم نہیں کرلیا گیا ہے بلکہ جمہوریت کے استحکام ، سیکولرزم کے فروغ اور سماج کارخ موڑنے میں اس کا ناقابل فراموش رول ہے ۔ ظاہر ہے وہی میڈیا اپنا فرض منصبی ادا کرسکتاہے ، جو بے باک ہو ، بے لاگ ہو ، بے لو ث ہو اور غیر جانبدار بھی ۔تاہم آج یہ کیسے ممکن ہے کہ میڈیا الزام تراشی سے دامن بچاتے ہوئے حکومت کے کام کاج پر فقط مثبت تنقید ہی کرے ۔ کیوں کہ آ ج شاید ’میڈیا‘ توآزادہے پر’ جرنلسٹ ‘نہیں،’ میڈیاکارخانہ ‘چلانے آزاد ہیں ، پر’ قلم‘ چلانے والے نہیں ۔ 1980سے عالمی میڈیا کی صورتحال پر رپورٹ پیش کرنے والے امریکی فریڈم ہاؤس کی رپورٹ کے مطابق کارپوریٹ میڈیا گھرانے میں جرنلسٹوں کے الجھنے کے معاملے میں انڈیا 78ویں نمبر پرہے ۔ 
2010میں کانگریسی لیڈر راؤ اندر جیت سنگھ (جو اب مرکزی وزیر ہیں)کی قیادت میں میڈیا کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی ، جس میں دیگر پارٹی کے31اراکین پارلیمنٹ شامل تھے ، اس کمیٹی نے 2013میں رپورٹ پیش کی ، رپورٹ کے نکات اور شفارسات کچھ ایسے ہیں ، جن پر اگر عملدرآمد ہوتو میڈیا میں شفافیت آسکتی ہے ۔ کمیٹی نے پیڈ نیوز کے روک تھا م کے تئیں پریس سے متعلق تمام اداروں کو ناکام بتایا تھا ۔ پریس کاؤنسل آف انڈیا ، ایڈیٹر س گلڈ آف انڈیا ، نیوز براڈ کاسٹر آف ایسوسی ایشن ، براڈ کاسٹر نیوز ایڈیٹرس کی ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے ایک مکمل جوابدہ میڈیا کمیشن کی شفارش کی تھی ، ساتھ ہی ساتھ الیکشن کمیشن کو مزید حقوق دیے جاے کی وکالت بھی ۔اسی طرح کانگریس نے 2009-10میں محکمہ اطلاعات ونشریات اور الہ آباد ایڈمنسٹریٹو اسٹاف سے میڈیاگھرانے کے متعلق رپورٹ تیار کروائی تھی ۔ گانگریس کے علاوہ موجودہ وزیر برائے اطلاعات ونشریات پرکاش جاؤڈیکر نے بھی میڈیا کو فعال اور آزاد بنانے کا عندیہ ظاہر کیاتھا ، اب خود وزیر اعظم نریندرمودی اس کی وکالت کررہے ہیں۔
لیکن افسوس کی بات ہے کہ 2014کے الیکشن میں میڈیا کے غلط استعمال کے بعد بھی موجودہ حکومت کا رویہ بدل نہیں رہا ہے ۔ کشمیر میں آئے سیلاب کی رپورٹنگ جس انداز سے کروائی گئی وہ بھی اپنے آپ میں مضحکہ خیز ہے ، کیوں کہ ایک طرف جہاں کشمیر کی(بھولے سے)صحیح رپورٹنگ کرنے والے کئی سرکاری صحافیوں کو سائڈ لائن کردیاگیا ، وہیں سچی تصویر پیش نہ کرنے پر متعدد ٹیوی چینلوں کو مجبور کیا گیا ۔ ساتھ ہی ساؤتھ ایشین میڈیا واچ ڈاگ دی ہاٹ کا انکشاف بھی حیرت ناک ہے کہ پچھلے سال کے تین مہینوں میں میڈیا نشریات کی رکاوٹ کے 52 واقعات پیش آئے ، جب کہ 2013میں اس کی تعداد 45تھی ۔ 
اسی طرح مودی کی اصل طاقت عوامی حمایت سے کہیں زیادہ سرمایہ دار طبقے اورجرائم پیشہ افراد کی کارستانی ہے ۔ نومبر 2013میں ملک کے 100بڑے سرمایہ داروں میں سے 72نے مودی کو ہی وزیر اعظم کے امید وار کے طور پر پسند کیا تھا ۔یہ بھی ظاہر ہے کہ حالیہ عام انتخاب ہندوستانی تاریخ کا سب مہنگا الیکشن تھا ، انہی سرمایہ داروں نے 2014کے عام الیکشن میں میڈیا گھرانے کو ہائی جیک کرکے عوام کا رخ موڑنے میں اہم کردار ادا کیا ،اسی لیے میڈیا مالکان نے ایک کرشماتی رہنماکے طور پر مودی کا تشخص ابھارنے میں اہم کردار اداکیا اور گجرات ماڈل کی حددرجہ تشہیر کی ، آج بھی بیشتر نیوز چینل پر ’’مودی نامہ ‘‘ہی پیش کیا جارہا ہے ۔
لہذا یہ سوال فطری ہے کہ جس حکومت کے افراد میڈیا کے غلط استعمال پر تلے ہوں، اسی حکومت کا سربراہ میڈیا کو مثبت تنقید کی طرف توجہ دلاتے ہوئے الزام تراشی سے باز رہنے کامشورہ دے ، تو کتنا مضحکہ خیز لگتا ہے ۔ یوں تومیڈیا کو جوابدہ اور مفید بنانے کے لیے ہر حکومت نعرے بلند کرتی ہے اور اسے جمہوریت کا چوتھا ستون بھی تسلیم کرتی ہے ، تاہم ان کے نعروں میں تضاد ہوتا ہے ، ان کی نیت میں کھوٹ ہوتی ہے ، ذہنیت سازشوں سے لت پت ہوتی ہے ۔مودی کا میڈیا کے تعلق سے رویہ تو جگ ظاہر ہے ہی پر کانگریس نے بھی میڈیا کی شفافیت کی آڑ میں ہمیشہ الو سیدھا کرنے کی کوشش کی ۔ ایک طرف کانگریس نے راؤ اندر جیت کی قیادت میں اسٹینڈنگ کمیٹی قائم کی ، پیڈ نیوز کی مخالفت کی ، تاہم مہاراشٹر کے کانگریسی سابق وزیر اعلی اشوک چوہان جب پیڈ نیوز کے معاملے میں پھنسے تو کانگریس نے سپریم کورٹ میں رٹ داخل کی تھی کہ الیکشن کمیشن کو پیڈ نیوز اور الیکشن کے خرچ کا غلط حساب دینے کی وجہ سے معطل کرنے کا حق نہیں ہے ۔ میڈیا کے معاملہ میں مودی حکومت کا رویہ بھی بالکل یہی ہے ۔ 
ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب بھی میڈیا کے تعلق سے کوئی رپورٹ پیش ہوتی ہے،تو اس کی مخالفت میڈیا گھرانے کرتے ہیں اور فی الفور ایوان میں بیٹھے افراد بھی ان کے ہی سر میں سرملاتے نظر آتے ہیں ، کیوں انھیں یہ خوف ہوتا ہے کہ رپورٹ کی سفارشوں کی عمل درآمدی کے بعد میڈیا کو کھلونا بنا ناآسان نہیں رہ جائے گا، جس سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ شاید میڈیاکی آزادی سیاستدانوں کی آزادی پر قدغن ہے ۔ 
عمومی تناظر میں دیکھیں تو میڈیا ’آزاد ‘ہے ،اگر نہیں ہے تو جوابدہ نہیں ۔اس لیے میڈیا اسی وقت مثبت تنقید کرسکتا ہے ، جب وہ جوابد ہ ہو ۔ یہ عجب بات ہے کہ میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون تو تسلیم کیا جاتا ہے ، لیکن اس کی اہمیت کے پیش نظر جمہوریت کے استحکام کے لیے کچھ کام نہیں لیا جاتا (مگرذاتی مفاد کے لیے تو خوب) ۔ہندوستان میں میڈیا کے ذریعہ جمہوریت کو مفید بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ماضی میں پیش کی گئیں رپورٹس پر عملدرآمد کیا جائے ۔ یہ الگ بات ہے جس حکومت میں یہ رپورٹ پیش ہوئی ، وہ اب نہیں ہے۔ مودی جی اگر واقعی میڈیا کو مثبت دیکھنا چاہتے ہیں تو اس رپورٹ کے مدنظر ہی کچھ کریں ، جو کانگریس کے زمانہ میں راؤ اندر جیت کے ذریعہ میڈیا میں شفافیت لا نے کے لیے تیار کی گئی تھی ۔ 
کانگریس اور بی جے پی کے ذریعہ میڈیا کے ساتھ کھلواڑ کے باوجود بھی ہم مایوس نہیں ہیں ،اس لیے وزیر اعظم نریند د مودی اور ان کے وزراء سے یہی امید کرتے ہیں کہ وہ ماضی میں قائم دوکمیشنوں کے علاوہ اب تیسرا مستقل کمیشن تشکیل دے کر میڈیا میں شفافیت پید اکرنے کے لیے عملی قدم اٹھائیں گے۔ورنہ مسلسل میڈیا کے غلط استعمال کی صورت میں ملک کے عوام کو انگریزوں کی’’ورنا کولر ایکٹ‘‘کااحساس ہوگا ، یعنی لوگ یہ محسوس کریں گے کہ پریس کی آزادی بالکل ختم ہوگئی ہے ، میڈیا ملک کی بھلائی کے لیے کچھ نہیں کرپارہا ہے ، بلکہ وہی چیزیں فروغ دے رہاہے جو موجودہ حکومت کے مفاد میں ہے ، ان کی ذہنیت کو فروغ دینے میں معاون ہے ، حالانکہ انگریزو ں نے ورناکولر ایکٹ لاکر عوام کے ساتھ ساتھ صحافیوں اور صحافت سے جڑے گھرانے کو قید کرنے کی کوشش کی ، مگر میڈیاآج جس راہ پر گامزن ہے ، اس میں عوام کا نقصان ہے او رجمہوریت کا بھی ، کیوں کہ میڈیا کو جس طرح پالیسی میکروں سے جوڑنا چاہئے ، اس میں کامیابی نہیں مل پارہی ہے اور نہ ہی صحافی مثبت تنقید کرپارہے ہیں ، چنانچہ آجصرف فائدہ میں ہیں تو میڈیا گھرانے اور میڈیا کے سہارے عیش پرست سیاسی لیڈران ۔ اس لیے صحافیوں کی تنقید سے جمہوریت کو مفید بنانے کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا گھرانے سے میڈیا کو آزاد کرانے کی کامیاب کوشش کی جائے ۔ کیوں کہ جرنلسٹ کا خمیر درا صل جواں مردی ، بلندی حوصلگی اور بے باکی سے تیار ہونا چاہے ،مگرمالکان کی مفاد پرستی سے صحافیوں کا جوش وجذبہ سرد پڑجاتا ہے ۔ اگرگہرائی سے دیکھیں تو مفاد پرستی اور مصلحت پسندی کے بوجھ تلے میڈیاکراہ رہا ہے اور میڈیا کے لئے سب سے بڑا المیہ سیاست بن کر رہ گی ہے۔فی الوقت میرے نظریہ سے میڈیا کو میڈیا سے ہی جنگ درپیش ہے ،یعنی اس دور میں میڈیا کو میڈیا کی آزادی کے لئے میڈیا گھرانے سے ہی جنگ کرنی ہوگی ۔صحافت/میڈیا نے آزادی کی جنگ جیتی ہے ۔ صحافت /میڈیانے غریبوں کی جنگ جیتی ہے ۔کیا اب میڈیا ،میڈیا گھرانے سے میڈیا کی آزادی کی جنگ جیت پائے گا ؟اگر اس جنگ میں میڈیا کو کامیابی نہیں ملتی ہے توسیکولرزم اور جمہوریت کمزور ہوجائے گی۔ میڈیا کی آزادی کے پس منظر میں حکومت کے علاوہ صحافیوں کو بھی میرا پیغام ہے پنڈت رام پرشاد بسمل کا یہ شعر:’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ،دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے ‘۔

«
»

پیرس میں جمع ہونے والے عالمی راہنما

بعثت رسول سے قبل عرب کے حالات کا اجمالی جائزہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے