معصوم مرادآبادی
(آج سے 27سال پہلے 6دسمبر 1992کو سنگھ پریوار نے بابری مسجدکووحشیانہ طور پرشہید کردیا تھا۔اس شہادت کی بنیاد 22اور 23دسمبر1949 کی درمیانی شب میں وہاں زبردستی مورتیاں رکھ کر ڈالی گئی تھی۔انتظامیہ نے مسجد کا تقدس بحال کرنے اور وہاں سے مورتیاں ہٹانے کی بجائے مسجد میں تالا ڈال دیا۔80 کی دہائی کے شروع میں وشو ہندو پریشد نے سیاسی مقاصد کے تحت آرایس ایس کے اشارے پر’رام جنم بھومی مکتی آندولن‘کے نام سے انتہائی اشتعال انگیز تحریک شروع کی جس کے نتیجے میں یکم فروری 1986کو مسجد کے دروازے کھول کر وہاں عام پوجا پاٹ کی اجازت دے دی گئی۔با بر ی مسجد کا تالا کھلنے کے بعد سینئر صحافی معصوم مرادآبادی نے حالات کا جائزہ لینے کے لئے ایودھیا کا سفر کیا اور تقریباً ایک گھنٹہ با بری مسجد میں گذار ا۔اب جبکہ سپریم کورٹ نے با بری مسجد کی اراضی رام مندر کی تعمیر کے لئے ہندوؤں کو دینے کا فیصلہ کیا ہے تو 32برس پرانی اس چشم دید رپورٹ کو قارئین کی دلچسپی کے لئے شائع کیا جارہا ہے۔ملاحظہ کیجئے۔ایڈیٹر)
اترپردیش کے ضلع فیض آباد سے صرف 6کلو میٹر کے فاصلے پر واقع اجودھیا قصبہ کی کل آبادی 35ہزار ہے جن میں تقریباً ایک ہزار مسلمان ہیں۔یہاں آبادی کی اکثریت پنڈتوں،سادھوؤں اوربیر اگیوں پر مشتمل ہے جن کی مجموعی تعداد 32ہزار ہے۔یہاں چارہزار نئے وپرانے مندر ہیں اور تقریباً 100قدیم مسجدیں بھی ہیں جن میں چاربڑی مساجد بابر،شاہجہاں،عالمگیر اور شاہ عالم کے نام سے منسوب ہیں۔72قبرستان سرکاری اندراج میں ہیں جن میں صرف 6قبرستانوں میں مردے دفن کرنے کی اجازت ہے۔یہاں کی زیادہ تر مساجد قدیم وخستہ حالت میں ہیں‘جن کی مرمت اور تعمیر کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی یہاں کو ئینئی مسجد تعمیر کی جا سکتی ہے جبکہ مندروں کی تعمیر اور مرمت پر کوئی پابندی نہیں ہے۔اجودھیا میں ہی ایک 9گز لمبی قبر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت شیث علیہ السلام کی قبر ہے۔سکندر لودھی کے زمانے سے اس کی حفاطت اور انتظام کے لئے اسے وقف کر دیا گیا تھا‘سرکاری کاغذات میں بھی اسے حضرت شیث علیہ السلام کی قبر لکھا گیا ہے۔ بعض معتبر تاریخی کتابوں سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔اجودھیا میں 1954سے آج تک دفعہ 144نافذ ہے اور اسی وقت سے اجودھیا سے 15کلو میٹر کے ایریا میں گوشت کی دوکان کھولنے پر بھی پابندی ہے۔ بابری مسجد سے 500میٹر کے رقبہ میں مسلمانوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ حالانکہ اس سلسلے میں عدالت کا کوئی حکم موجود نہیں ہے۔
با بری مسجد
با بری مسجد کے صدر دروازے تک جانے والی سڑک کے دونوں طرف بڑی بڑی مندر نما عمارتیں نظر آتی ہیں جنہیں مانس بھون کہا جاتا ہے۔یہ عمارتیں 1949میں مسجد میں مورتیاں رکھے جانے کے بعد تعمیر ہوئی ہیں اور ان میں درشن کے لئے آنے والوں کے ٹھہرنے کا انتظام کیا جاتا ہے۔با بری مسجد کے تین جانب صرف شمال کو چھوڑ کر 7بیگھہ قبرستان کی اراضی ہے۔یہ عمارتیں بھی قبرستان پر ہی تعمیر ہوئی ہیں۔ان عمارتوں کے ختم ہونے کے بعد بائیں جانب اونچائی پر ایک چھوٹا راستہ بابری مسجد کے صدردروازہ تک جاتا ہے۔اس راستہ کے بائیں جانب دوکانوں پر عقیدتمندوں کی دلچسپی کی اشیا فروخت ہوتی ہیں اور دائیں جانب پولیس چوکی قائم ہے۔صدر دروازے سے متصل مٹھائی کی کئی دوکانیں بنی ہوئی ہیں۔ یہ مٹھائی اصلی گھی اور ماوے سے تیار کی جاتی ہے۔ عقیدت مند اسے اندر لے جا کر چڑھاتے ہیں۔دوکانوں سے پہلے ہی ایک مقام پر جوتے اتارنے پڑتے ہیں۔مسجد کے صدر دروازے کے عین سامنے گیندے کے ہار فروخت ہوتے ہیں اور پرساد بٹتا ہے۔گیندے کے ہار اندر چڑھا وے کے بعد دوبارہ فروخت ہونے کے لئے آجاتے ہیں۔صدر دروازے کے ہی بائیں جانب تھوڑے سے فاصلے پر وشو ہندو پریشد کا بورڈ لگا ہوا ہے جہاں بھجن کیرتن ہوتا ہے۔یہ سلسلہ یکم فروری 86 کو تالا کھلنے کے بعد شروع ہوا ہے۔وشو ہندو پریشد نے یہاں ایک عالی شان مندر تعمیر کرنے کے لئے 25کروڑ روپے کا سرمایہ فراہم کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔یہ لوگ رام جنم بھومی کی مکتی کی خوشی میں یہاں ہر روز لنگر بھی بانٹتے ہیں۔وشو ہندو پریشد کے تنخواہ دار پنڈے یہاں سیٹھوں کو پھنسا کر لاتے ہیں اور ان سے مندر کی تعمیر اور لنگر کے نام پر رقوم وصول کرتے ہیں۔مسجد کے صدر دروازے پر ہندی میں ”رام جنم بھومی“تحریر ہے اور یہیں سی آرپی کے تین مسلح جوان اندر جانے والوں کی تلاشی لیتے ہیں۔صدر دروازہ کے اوپر ہی ہیڈ پجاری لال داس کی جانب سے ہندی میں یہ وارننگ تحریر ہے ”فوٹو لینا سخت منع ہے“عقید ت مند لائن بنا کر ہاتھ جوڑتے ہوئے مسجد کے اندر داخل ہوتے ہیں۔صدر دروازہ پر دوجگہ لفظ ”اللہ“نمایاں انداز میں کندہ ہے۔
چبوترے کا حصہ
صدر دروازے سے اندر داخل ہونے کے بعد بائیں ہاتھ کو تقریباً چھ فٹ اونچا ایک پختہ چبوترہ ہے جس کے مختلف گہرے خانوں میں پتھر کی چھوٹی چھوٹی مورتیاں نصب ہیں۔ یہ چبوترہ ہی تنازعہ کا اصل سبب ہے۔1885ء میں رگھوبرداس نامی ایک شخص نے جو خود کو رام جنم استھا ن کا مہنت کہتا تھا 7×25فٹ سائز کے اس چبوترے کو رام جنم استھان بتاتے ہوئے سب جج فیض آباد کی عدالت میں ایک مقدمہ دائر کیا تھا اور اس چبوترے پر مندر تعمیر کرنے کی اجازت چاہی تھی‘ جسے سب جج پنڈت ہری کشن نے مسترد کردیا تھا۔1885ء سے قبل ہی اس چبوترے کو مسجد سے علیحدہ کرنے کے لئے ایک دیوار اٹھا دی گئی تھی۔اس دیوار میں عین صدر دروازے کے سامنے داخلہ کے لئے ایک دروازہ بنادیا گیا تھا جس میں یکم فروری 86ء سے قبل تک تالا پڑا ہوا تھا۔ دروازے کے نزدیک ہی ایک چھوٹا راستہ کھلا ہوا تھاجس کے ذریعہ صرف پجاری کو اندر جانے کی اجازت
تھی۔21/22دسمبر 1949ء کی درمیانی شب میں مسجد کے اندرونی حصہ میں مورتیاں رکھ دیئے جانے کے بعد ہی اڈیشنل سٹی مجسٹریٹ کے حکم پر یہ تالا لگایا گیا تھا اور اس کی چابی عدالت کے مقرر کردہ ریسور کے پاس رہتی تھی۔
چبوترے کا حصہ 1949ء سے ہی تالا لگنے کے بعد مندر کے طورپر استعمال ہوتا رہا ہے اور عقیدت مند یہیں سے لوہے کی سلاخوں سے مسجد کے اندر رکھی مورتیوں کا درشن کرتے تھے۔ہر چند کہ چھوٹے دروازے سے صرف پجاری کو مسجد کے اندرونی حصہ میں رکھی مورتیوں تک جانے کی اجازت تھی لیکن بعض اطلاعات کے مطابق اثر ورسوخ اور پیسے کے بل پر دیگر عقیدت مند بھی اس حصہ تک جاتے تھے جہاں عدالت کی طرف سے سوائے پجاری کے کسی کو جانے کا اجازت نہیں تھی۔
چبوترے پر اور اس کے آس پاس سینکڑوں چھوٹے چھوٹے پتھر مختلف ناموں کے نصب ہیں۔یہ ان دولت مند لوگوں کی طرف سے بطور یاد گار لگائے گئے ہیں جو 1949ء کے بعد یہاں درشن کرنے کے لئے آئے اور جنہوں نے مقدمہ لڑنے اور مندر بنانے کے لئے کثیر رقمیں فراہم کیں۔ چبوترے کے پیچھے کی جانب دیوار کے دونوں کونوں میں پتھر کی کئی مورتیاں نصب ہیں۔لیکن عقیدت مندوں کی دلچسپی کا اصل مرکز مسجد کے اندرونی حصہ میں رکھی ہوئی مورتیاں ہیں اور وہیں درشن کرنے والوں کا تانتابندھارہتا ہے۔چبوترے اور دیوار پر نصب مورتیوں کا درشن لوگ کم ہی کرتے ہیں۔ اسی احاطہ میں صدر دروازے کی دیوار سے لگی لکڑی کی ایک لمبی کوٹھری ہے جس میں پجاریوں سے متعلق سامان اور گنگا جل رکھا رہتا ہے۔اسی احاطے کے دائیں جانب مسجد کے صحن سے متصل ایک اور مقام پر چند فریم کی ہوئی مورتیاں رکھی ہوئی ہیں۔ اس مقام کو سیتا کی رسوئی کہا جاتا ہے اور یہاں پر مسجد میں داخلہ کے لئے ایک اور دروازہ ہے۔
مسجد کے دروازے پر کیرتن
چبوترے کی حدود میں ہی مسجد کے صحن میں داخل ہونے والے دروازے کے بائیں جانب ایک تخت پر پانچ چھ لوگ بیٹھ کر اکھنڈکیرتن کرتے ہیں اور ان لوگوں نے دروازے سے متصل مورتیاں بھی نصب کی ہیں۔یہ اکھنڈ کیرتن مقامی لوگوں کے بقول 27دسمبر 1949ء سے رات و دن ہورہا ہے۔کیرتن کرنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ جب تک یہاں اس مسجد کو توڑ کر مندر نہیں بنا یا جاتا اس وقت تک چلتا رہے گا۔24گھنٹوں کی چار شفٹوں میں چھ چھ آدمی یہاں بیٹھ کر کیرتن کرتے ہیں اور دان وصول کرنے کے لئے ایک اپیل لوگوں کو بانٹتے ہیں۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے یہ اکھنڈ کیرتن بند کردیا تو مسلمان یہاں حملہ کرکے اپنا قبضہ کرلیں گے۔رام جنم بھومی مکتی سیوا سمیتی کے پاس کل 45ملازم ہیں جن میں 24آدمی اکھنڈ کیرتن کے لئے ہیں اور باقی لوگ ڈاک خانے سے رام جنم بھومی سیوا سمیتی کے نام آنے والے منی آرڈر وصول کرتے ہیں اور کچھ لوگ دان منگانے کے لئے درشن کرنے والوں سے ان کے پتے حاصل کرکے مزید عطیات منگانے کے لئے ان سے خط و کتابت کرتے ہیں۔سیوا سمیتی کے پاس جو دولت ہے اس کا حساب کتاب کسی کو معلوم نہیں۔ یہ امر بالکل واضح ہے کہ ان لوگوں کا اصل مقصد بھولے بھالے ہندوؤں کواپنے جال میں پھنسا کر رقم وصول کرنا ہے۔مندرتعمیر کرنے کے لئے اب تک سوا کروڑ روپے کا سرمایہ اکٹھا کر لیا گیا ہے۔یہ پوچھے جانے پر کہ مندر کی تعمیر میں کیا مشکلات حائل ہیں‘اس پر بیراگی نے کہا کہ ابھی اس کا تنازعہ بھی چل رہا ہے اور پورے دیش میں مسلمانوں نے کتنا شور مچا رکھا ہے۔حکومت مسلمانوں کو چھوٹ دے رہی ہے۔مندر بنانا اتنا آسان نہیں ہے۔
مسجد کا صحن
مسجد کے صحن میں داخلہ کے اس دروازے پر بھی سی آرپی کا ایک مسلح جوان تعینات ہے۔صحن میں داخل ہوتے ہی تین گنبدوں پر مشتمل مسجد کے اندرونی حصہ کی پیشانی پر عربی رسم الخط میں تین فارسی اشعار کندہ ہیں جن میں مسجد کی تعمیر کی تاریخ درج ہے۔ ان اشعار کے دونوں جانب ابھرے ہوئے الفاظ میں گول دائرے کے اندر لفظ ”اللہ“کندہ ہے۔یہ تحریر گنجلک اور خستہ حالت میں ہے۔صحن کے بائیں جانب گنبدوں تک پہنچنے کے لئے ایک خستہ حال زینہ ہے‘ جسے لکڑی کے تختے لگا کر بند کردیا گیا ہے۔مسجد کی پیشانی اور آگے کی دیوار بھی خستہ حالت میں ہے۔خستہ دیوار کے اندر سے بر آمد ہونے والے پودوں نے جو عام طور پر قدیم عمارتوں پر اُگ آتے ہیں‘اب چھوٹے درختوں کی شکل اختیار کرلی ہے اور عمارت کو کمزور کررہے ہیں۔
مسجد کا اندرونی حصہ
تین گنبدوں پر مشتمل مسجد کے اندرونی حصہ میں تین صفیں ہیں اور اس کی ہر صف میں 120آدمی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اسی طرح مسجد کے صحن میں اتنی ہی بڑی چار صفیں ہیں اس حساب سے مسجد کے اندرونی حصہ اور صحن میں کل ملا کر 700افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔اندرونی حصہ میں سفید پتھر کی جا نماز یں بنی ہوئی ہیں۔بیچ والے گنبدکے عین نیچے لکڑیوں کی مدد سے اسٹیج نماتین فریم بنائے گئے ہیں جن میں پتھر کی صرف ایک مورتی رکھی ہوئی ہے اور باقی تصویریں شیشے کے فریموں میں رکھی ہیں۔ان میں رام چندر جی ہنومان جی اور گنیش جی اور گوروبند سنگھ کی وغیرہ کی تصویر ہیں۔تین سیڑھیوں پر مشتمل مسجد کے منبر کی سب سے اوپر والی سیڑھی پر بھی ہنومان جی کا مجسمہ نصب کیا گیا ہے۔اس درمیانی گنبد کے اندرونی حصہ کو جس کے نیچے یہ تصویریں اور پتھر کی مورتیاں ہیں لال کپڑے سے ڈھک دیا گیا ہے۔عقیدتمند سات فٹ کی دوری سے ہاتھ جوڑ کر اور سر جھکا کر ان مورتیوں کے درشن کرتے ہیں۔حد بندی کرنے کے لئے ایک لکڑی کا حالہ بنا یا گیا ہے۔یہیں لکڑی کی تقریباًچار فٹ لمبی ایک گولک رکھی ہوئی ہے جس میں دان ڈالا جاتا ہے۔اس گولک کے دائیں جانب ایک پجاری بیٹھا ہوا ہے جو درشن کرنے والوں کو ایک چھوٹے سے چمچے میں گنگا جل دیتاہے جسے لوگ بڑی عقیدت سے اپنی ہتھیلی میں لیتے ہیں۔ یہاں بھی سی آر پی کا ایک مسلح جوان تعینات ہے۔اندرونی حصہ میں مسجد کی بے حرمتی کے اس منظر کو دیکھ کر ایک مسلمان کی حیثیت سے مجھ پر جو کیفیت گذری‘اس کا اندازہ قارئین بخوبی لگا سکتے ہیں۔ لیکن اگلے ہی لمحے میں نے موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اپنے مضمحل جذبات کو قابو میں کر لیا۔میں یہاں اپنے قارئین کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ بابری مسجد کا یہ سفر نامہ پوری صحافتی دیا نتداری سے لکھا ہے۔ کہیں آپ یہ نہ سمجھ لیں کہ میں نے اپنے جذبات سے مغلوب ہو کر مبالغہ آرائی سے کام لیا ہو۔ اگر میں اس صورتحال کو محض ایک مسلمان کی حیثیت سے قلم بند کرتا تو شاید اس کیفیت کو بیان کرنا نہ تو میرے بس میں تھا اور نہ ہی اسے بیان کرنے میں قلم اورجذبات کے مابین تو ازن بر قرار رہ پاتا۔
درمیانی گنبد کے حصہ میں داخل ہوتے ہی بائیں جانب دیوار پر ہنومان جی کی ایک تصویر پینٹ کی گئی ہے۔ اسی طرح بائیں گنبد کی دو دیواروں پر شہید بھگت سنگھ اور چندر شیکھر آزاد کی تصویر یں کس مقصد سے پینٹ کی گئی ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا۔اندر ونی حصہ کی دیواروں پر کوئلے اورچاک سے کچھ لکھا گیا تھا جسے کسی قدر صاف کردیا گیا ہے۔دائیں جانب تیسرے گنبد کے نیچے بھی فریم کی ہوئی چند تصویریں رکھی گئی ہیں۔مسجد کے صحن میں بندر آزادانہ ا چھلتے کودتے نظر آتے ہیں۔
درشن کرنے کے لئے آنے والے عقید ت مندو ں کی اکثریت سیدھے سادے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ان میں عورتیں اور بچے بھی بڑی تعداد میں ہوتے ہیں۔یہ لوگ ہندوستان کے مختلف حصوں سے یہاں درشن کرنے آتے ہیں۔زیادہ تر عمر دارز ہوتے ہیں۔عقیدت مندوں کی آمد کی روزانہ تعداد پانچ سو سے ایک ہزار کے درمیان ہے۔
مسجد کے پیچھے کی دیوار بھی خستہ حالت میں ہے۔پیچھے کی جانب بھی دیواروں میں پیڑاُگ آئے ہیں۔مسجد کی پشت سے متصل ایک پرانی دیوار تعمیر ہے جس کے ارد گرد سی آرپی کے مسلح جوان پہرہ دیتے ہیں۔ہر چند کہ مسجد کے اندرونی حصہ کی عمارت میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے تاہم سالہاسال سے مرمت نہ ہونے کی وجہ سے مسجد کی عمارت خستہ حالت میں ہے۔ اگر اس کی مرمت نہ کی گئی تو مسجد کے کسی بھی حصہ کے گرجانے کا امکان ہے۔مسجد کے تین جانب صوبائی حکومت کی جانب سے سیمنٹ کے پلروں اورلو ہے کے پائپوں کی مدد سے ایک باؤنڈری بنائی جارہی ہے جو اس کا م کی نگرانی کرنے والوں کے بقول مسجد کو کسی بھی امکانی خطرے یا حملے سے محفوظ رکھے گی۔عجیب وغریب بات یہ ہے کہ مسجد کی حفاظت کے لئے لاکھوں روپئے خرچ کرکے باؤنڈری تو بنائی جارہی ہے مگر خستہ مسجد کی مرمت کا کوئی اقدام زیر غور نہیں ہے۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ صوبائی حکومت نے اجودھیا کو خوبصورت بنانے اور اسے ہندو ؤں کا سب سے مقدس مذہبی مقام بنانے کا پروگرام بنایا ہے اور اس کے لئے50کروڑ روپئے کی رقم مخصوص کی گئی ہے۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ باؤنڈری کی تعمیر کے کام کے لئے صوبائی حکومت کے متعلقہ محکمہ کی جانب سے یہاں جو بورڈ آویزاں کیا گیا تھا۔اس پر اسے رام جنم استھان تحریر کیا گیا تھا جسے بعد ازاں با بری مسجد ایکشن کمیٹی کے احتجاج کے بعد وہاں سے ہٹالیا گیا ہے۔
حکومت کی سازش
با بری مسجد کو عملی طورپر مندر بنائے جانے کی سازش میں صوبائی حکومت کی شرکت کی بات روز اوّل سے کی جارہی ہے۔اس سلسلے میں اجودھیا کے مسلمانوں نے ہمیں کئی اہم باتیں بتائیں۔ فیض آباد سے کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ نرمل کمار کھتری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے علاقے کے ہندوؤں سے کھلے عام یہ کہا تھا کہ اگر وہ پارلیمنٹ کا الیکشن جیت گئے تو جنم بھومی کا تالا کھلوا دیں گے۔ اسی موضوع پر وہ پارلیمنٹ کے الیکشن میں کامیاب ہوئے تھے۔نرمل کمار کھتری کے والد نرائن داس کھتری با بری مسجد کے مقدمے میں سرکاری وکیل ہیں۔ان کا کردار بھی اس سلسلے میں واضح نہیں ہے۔کہا جا تا ہے کہ مسٹر کھتری نے بظاہر امیش چند پانڈے کی اس درخواست کی مخالفت کی تھی جس پر عدالت نے بابری مسجد کا تالا کھولنے کی اجازت دی مگر بالواسطہ طو پر مسٹر کھتری نے امیش چند پانڈے کی درخواست کی تائید کی اور کیس کی صحیح نوعیت عدالت کے سامنے پیش نہیں کی۔بعض کاغذات جو اپنی درخواست کے ساتھ مسٹر پانڈے داخل نہیں کرسکے تھے‘وہ مسٹر کھتری نے سرکاری وکیل کی حیثیت سے داخل کئیاوراس کا مقصد امیش چند کی درخواست کی تردید بتا یا جبکہ ان کا غذات سے امیش چند کو فائد ہ پہنچا اور عدالت نے آسانی سے تالا کھولنے کا فیصلہ صادر کردیا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وشو ہندو پریشد،بجرنگ دل،جنم بھومی مکتی سیوا سمیتی اور ریسیور کھلے عام یہ کہتے ہیں کہ یہ کامیابی ہمیں کانگریس کی حمایت سے ملی ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یوپی کے سابق وزیر اعلیٰ شری پت مصرا نے اپنی اجودھیا آمد پر تالا کھولنے کی مانگ کرنے والوں سے اسٹیج سے یہ بات کہی تھی کہ کوئی چیز مانگنے سے نہیں ملتی۔ لینا ہے تو ہاتھ بڑھا کر لے لو۔چنانچہ اس حقیقت کو تسلیم کرلینے کے وافر ثبوت موجود ہیں کہ وہ حکومت جو فی الوقت اس مسئلے کو عدالت کا معاملہ قرار دے کر اپنا دامن بچا رہی ہے‘تالا کھلوانے میں برابر کی شریک تھی۔
با بری مسجد کے امام سے ملاقات
ہم نے اجودھیا کے محلہ قضیانہ میں رہائش پذیر 80سالہ حاجی عبدالغفارسے بھی ملا قات کی جنہوں نے 1930 سے 1949 تک بابری مسجد میں بحیثیت امام ذمہ داریاں انجام دی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ 1901سے 1930ء تک ان کے والد مولوی عبدالقادر نے بابری مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیئے تھے جبکہ 1870 سے 1900کے درمیان ان کے ماموں حاجی عبدالرشید بابری مسجد کے امام تھے۔حاجی عبدالغفار کی پیدائش اجودھیامیں ہی ہوئی۔ انہوں نے”گم کشتہ حالات اجودھیا اودھ“کے نام سے ایک کتاب بھی ترتیب دی ہے جس میں اجودھیا کے بزرگوں اور یہاں کی مسجدوں اور مقبروں کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
سازش در سازش
اجودھیا کا دورہ کرنے کے بعد اور وہاں کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ بآسانی لگا یا جا سکتا ہے کہ ہندو احیا پرست تنظیموں کی طرف سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ چونکہ اجودھیا میں ہندوؤں کی قدیم ترین تہذیب کے نشانات موجود ہیں۔ اسی لئے با بری مسجد کو رام جنم بھومی ثابت کرنے کے لئے تاریخ کو مسخ بھی کیا گیا ہے اور انتہائی درجہ کے ظلم کو قانونی شکل بھی دی گئی ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ نے 1978سے 1980 کے درمیان با بری مسجد کی بنیادوں اور اجودھیا کے دوسرے مقامات کی کھدائی کا کام کیا تاکہ اسے زمین کے اندر سے رام چندر جی کے عہدکے کچھ آثار بر آمد ہوجائیں مگر انہیں اس وقت سخت مایوسی ہوئی جبیہاں مسلمانوں کی قدیم ترین آبادی کے نشانات ملنے شروع ہوئے۔ان نشانات کو انتہائی خاموشی کے ساتھ نظروں سے غائب کردیا گیا۔یہاں اس بات کے وافر ثبوت موجود ہیں کہ اجودھیا قدیم ترین زمانے سے مسلمانوں کا مرکز رہا ہے۔یہاں سینکڑوں ایسے بزرگ آسودہ خواب ہیں جنہوں نے تبلیغ اسلام کے لئے اپنی زندگیاں وقف کیں۔ یہاں حضرت آدم ؑکے بیٹے حضرت شیث ؑ کی قبر بھی ہے۔ اسی طرح حضرت نوحؑ کے زمانے کی ایک اور قبر بھی اجودھیا میں موجود ہے۔اس پس منظر میں دیکھا جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ مسئلہ صرف ایک مسجد کی بازیابی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی لاکھوں سال پرانی تاریخ ان کی تہذیب اور ان کے تشخص کی بقا ء کا مسئلہ ہے۔
جواب دیں