آج دنیا میں سرسری نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ جس قدر انسان کے فائدہ کے لئے نئی نئی چیزیں ایجاد ہورہی ہیں اس سے کہیں زیادہ انسان کو صفحہ ء ہستی سے مٹانے کے لئے نئی ٹکنالوجی کے ذریعے نت نئے ہتھیار معرض وجود میں آرہے ہیں جو منٹوں اور سکنڈوں میں پوری دنیا کو خاک وخون میں ملا دینے کے لئے کافی ہے۔ لیکن اس کے برعکس ایک اماراتی نو عمر بچے نے جس کی عمر محض ابھی ۱۳ سال ہے ایک کتابی شکل میں ایسا روبوٹ ایجاد کیا ہے جس سے وہ معذورافراد جن کے ہاتھ نہیں ہیں یا ان کے ہاتھ کسی حادثہ میں کٹ گئے ہیں وہ اس روبوٹ کے ذریعے آرام سے کتاب کے اوراق کو الٹ الٹ کر پڑھ سکتے ہیں۔
چلیں روبوٹ کے موجدکی زبانی ہی ایجادکی اس پوری کہانی کو سنتے ہیں ۔ یہ امارت عربیہ متحدہ کے امارۃ الفجیرہ کا رہنے والاہے اور اس کا نام ہے خلفان سعید المسماری ، اس نوعمر موجدنے جائزہ الشیخہ فاطمہ بنت مبارک للشباب العربی المتمیز (سائنس واختراعات سیکشن) میں اول پوزیشن حاصل کیا ہے ۔
المسماری کہتا ہے کہ میں نے ایک طالبہ کو دیکھا جس کا ہاتھ آگ کے حادثہ میں جل گیا تھا اوروہ اس قابل نہیں تھی کہ کچھ لکھ پڑھ سکے۔ ہاتھ کی معذوری وجہ سے امتحان میں نہیں بیٹھ سکی اور سال برباد ہو گیا۔ میرے ذہن میں ایک بات آئی کہ کیوں نہ اس طرح کاآلہ ایجاد کیا جائے جس سے اس طرح کے ہاتھ سے مجبور لوگوں کے لئے آسانی ہو اور اپنا مستقبل عام آدمی کی طرح پڑھ لکھ کر سنوار سکیں ۔
میں نے ایک روبوٹ کتابی شکل میں بنایا ہے جس میں ایسے حساس چپس لگے ہیں جس پر دباؤ ڈالنے سے ورق کو الٹ دیتا ہے ۔ ہاتھ سے ورق کو الٹنے کی ضرورت نہیں ہے ، میں نے شروع میں جب اسے بنایا تو ہر ۵ منٹ پر ورق کو الٹ سکتا تھا تو مجھے اپنے فیملی کے افراد کے ذریعے اندازہ ہوا کہ ہر شخص کو ایک صفحہ پڑھنے میں الگ الگ وقت لگتا ہے تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس آلہ کے پروگرام کو مزید بہتر بنادوں تاکہ ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق کتا ب کو پڑھے اور جب ضرورت ہو ورق کو پلٹ سکے۔
المسماری نے انٹرنیٹ کے ذریعے ایسے انجینئروں سے مدد لیا جو روبوٹ بنانے میں مہارت رکھتے ہیں ، اس طرح کا روبوٹ بنانے کی سوچ وفکر اپنے والدین کے سامنے رکھا تو وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے میری خو ب حوصلہ افزائی کی ، شروع میں اس نے روبوٹ کے ڈبے سے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ، انجن ،سنسرس ،کتاب تاکہ اس کو شکل دیجائے ،کچھ کاغذات ، قلمیں ، اسکیل وغیرہ سامنے رکھ کر کام شروع کیا ، تاکہ مطلوبہ شکل وصورت اورروبوٹ کو آخری شکل میں تیار کرنے میں آسانی ہو۔ شروع میں کم عمری کی وجہ سے پروگرام بنانے میں مشکلات کا سامنا کرناپڑا ، اور ۱۸ سال سے کم عمر والوں کے لئے ایسے مخترعین و موجدین کی دیکھ بھال اور نگہداشت کے لئے مراکز ومدرسے نہ ہونے کی وجہ سے بھی پریشانی ہوئی ۔
مسماری کو ٹیکنالوجی اورنت نئے ایجادات سے ایک خاص لگاؤ اور دلچسپی ہے ، اس کا کہنا ہے کہ اس کا شوق اس طرح کی کتاب پڑھنے اور اس سلسلے میں ٹی وی پروگرام دیکھنے کے بعد مزید بڑھتا گیا ،اور یہ خواب سا بن گیا کہ میں ایک دن خاص مشین ایجاد کروں گا اور اس جانب کوشش کرتا رہا یہاں تک کہ میں اس قابل ہوگیا کہ میں نے ایک ایسا روبوٹ تیار کرلیا جو صفحات کو صرف چھو کر پلٹ سکے۔
شیخہ فاطمہ بنت مبارک ایوارڈ برائے عربی نوجوان میں حصہ لینے سے شروع میں مجھے تردد تھا، کیونکہ اس ایوارڈ کو حاصل کرنے کے لئے مختلف ممالک اور مختلف عمر کے موجدین اور سائنٹسٹ حضرات حصہ لیتے ہیں ، لیکن الحمدللہ میں اس پروگرام میں پہلے نمبر پر آیا اور اس ایوارڈ کو حاصل کرکے میں فخر محسوس کررہاہوں۔ یہ باتیں روبوٹ کے نوعمر موجد مسماری نے ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد کہیں۔
مسماری کو امید ہے کہ اس کا یہ روبوٹ مزید وسیع پیمانے پر آئیگا ، اور اس پروجیکٹ میں کافی فائنانسنگ کی جائیگی تاکہ یہ روبوٹ ہرمحتاج طلبہ کے ہاتھ تک پہونچ جائے ،اور وہ مستقبل میں مزید نئی چیزیں ایجاد کرنے کی سوچ وفکر میں ہے تاکہ معذور لوگوں کو بہتر طور پر جینے اور کام کرنے میں سہولت ہو ،اور وہ عام لوگوں کی طرح زندگی گزار سکیں دوسرں کے محتاج بن کر نہ رہیں ۔
جواب دیں