تحریر :انوار الحق قاسمی،نیپالی
یادرہے! کہ ملک ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، یہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کو مکمل آزادی اور اختیارکلی ہے کہ وہ اپنے مذہب کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کریں اور اپنے مذہب کے تمام ہی مقتضیات پر عمل کریں ،کسی کو یہ قطعی اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے مذاہب کی تحقیر یا تذلیل و توہین کرے، اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ قانونا جرم عظیم کا مرتکب سمجھا جاتا ہے، اور اس کے خلاف حکومت ہند سخت ایکشن بھی لیتی رہی ہے؛ مگریہ چند سالوں سے:یعنی جب سے بی جے پی کی حکومت برسراقتدار آئی ہے ،اسی وقت سے اب جمہوریت ختم ہوتی سی معلوم ہورہی ہے، نہ ہی اب ہندوستان میں "اسلام "محفوظ ہے اور نہ ہی مسلمانوں کی "جان و مال" اور" شعائر اللہ"، اب توجو چاہتا ہے بلادریغ مذہب اسلام کی توہین کر ڈالتا ہے اور افسوس کہ موجودہ حکومت یا تو بالکلیہ اس کے خلاف ایکشن ہی نہیں لیتی ہے ،یا لیتی بھی ہے تو بہت کچھ معاملات کےوقوع کےبعد۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی یہ بھی ہے :کہ حال ہی میں ایک ممبر اسمبلی اکھنڈشری نواس مورتی کےبھانجے"نوین" نامی شیطان لعین ،بداقبال وبد نصیب شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں "اہانت آمیز جملہ "سوشل میڈیا :یعنی "فیس بک "پر پوسٹ اور وائرل کیا تھا ،جس سے مسلمانوں کو سخت صدمہ ہوا تھا۔
شان رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں "اہانت آمیز جملہ "سے ہرمرد مومن کارنجیدہ اور ملول ہونا،یہ تو ان کے کامل مومن ہونے کی علامت ہے ؛کیوں کہ ہم اس وقت تک سچے اور پکے بل کہ معمولی بھی مومن نہیں ہوسکتے، جب تک ہمارے افکار و قلبوب میں عظمت رسول اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجزن نہ ہو، جب اس دنیائے فانی کایہ نظام ہے کہ ہرادنی محبوب و معشوق کی تذلیل و تحقیر سے ہرادنی محب وعاشق کارنجیدہ دل اور کبیدہ خاطر ہونا ایک فطری بات ہے،تو جب معمولی محبوب و معشوق کی تذلیل سے معمولی محب وعاشق کا کبیدہ خاطر ہونا ایک فطری بات ہے، تو کیا غیر معمولی اور عظیم محبوب و معشوق کی شان اقدس کی تذلیل وتحقیرسے غیر معمولی اور عظیم محب وعاشق :یعنی ہرفرد مومن کا رنجیدہ دل ہونا یہ ایک فطری بات نہیں ہے؟ بل کہ یہ تو اور فطری بات ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ اگر کسی مرد مومن کو تکلیف نہیں ہوئی ہے تو وہ مومن و مسلم ہی نہیں ہے، اسے چاہئے کہ وہ اپنے ایمان کی تجدید کریں۔
کرناٹک کے شہر بنگلور کے" نوین " نامی ملعون و مردود شخص کے شان رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں "اہانت آمیزجملہ " فیس بک پر وائرل کرتے ہی مسلمانوں میں غم و غصے کا ماحول اوراس خبیث سے انتقام کا جذبہ پیدا ہو گیا، اسی انتقامی کارروائی کے لیے مسلم نوجوانوں نے بہ روز منگل بتاریخ 11/اگست 2020ء کی رات "گستاخ نوین " کے خلاف برہمی وناراضگی اور احتجاج ظاہر کرنے کے لیے رکن اسمبلی کے گھر پہنچے جہاں کافی ہنگامہ ہوا، اور دیکھتے ہی دیکھتے میں ماحول بالکل خراب ہوگیا،تومجبورا( بغیر فائرنگ کے اس مشتعل بھیڑ کو قابو اور کنٹرول میں کرنے کی بظاہر ساری صورتیں مفقود ہونے کی وجہ سے)فائرنگ کردی، جس سے 3افراد کی موت ہو گئی اور کئی افراد زخمی بھی ہوگئے، الغرض سانحہ بنگلور فرقہ وارانہ تشدد کی ایک کھلی تصویر تھی، جس نے بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی مچائی، اس کے ساتھ ہی ساتھ فرقہ وارانہ میل ملا پ کی ایک انوکھی مثال بھی دکھائی دی ،اس حادثے کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ جمہوری ملک ہندوستان میں آئے دن مذہب اسلام اور مسلمانوں کی برملا تذلیل و تحقیر کیوں کی جاتی ہے ؟کیا ہندوستانی اڑتیس کڑوڑمسلمانوں میں اتنی طاقت و قدرت نہیں ہے ،کہ وہ مذہب اسلام کی توہین اور اس کے خاتمے کے خواہاں ملعون ابو جہل کے ذہنی و فکری ہم خیال رفیقوں کی زبان و قلم پر دائمی قدغن لگا سکے؟ یا صرف یہ کہہ کر کہ ہم مسلمان ابھی اقلیت میں ہیں ،سکوت اورخاموشی ہی ہمارے لئے زیادہ موزوں ہے؛ اس لیے ہم اہانت رسول صلی اللہ وسلم اور مسلمانوں کی تذلیل پر خاموش ہو جائیں؟۔
ان سارے سوالات کا جواب بس یہی ہے کہ آج اغیار ہمارے دین اسلام کی تذلیل و تحقیر علانیہ یا خفیہ طور پر صرف اس لئے کر رہا ہے کہ ہماری صفوں میں اتحاد و اتفاق نہیں ہے، ہم اپنی محفلوں اور مجلسوں میں اسلام اور مسلمانوں کے جانی اور مالی دشمنوں کو مدعو کرنا تو پسند کرتے ہیں ،مگر ایک سچے، پکے اور جید عالم دین کو محض مسلکی ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سےپسند نہیں کرتے ہیں، اور دشمنان اسلام ہیں کہ وہ ہماری مجلسوں میں آکر بظاہر ہمارے رنجیدہ اور شکستہ قلوب کو تسلی دے کر ہماری اوقات کو بھانپ لیتے ہیں، پھر یہ ہمارے خاتمے کے لیے طرح طرح کی تدبیریں اختیار کرنے لگتے ہیں، اور افسوس کہ ہمیں اس کا علم تک بھی نہیں ہو پاتا ہے، کہ یہ سب کچھ انہیں مار آستین کی کارستانیوں کا نتیجہ ہے، تو پھر کیا ہماری تذلیل و تحقیر نہیں کی جائے گی؟ تو کیا تعظیم و توقیر کی جائے گی ؟بالکل تذلیل و تحقیرہی کی جائےگی۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ باعزت وپرامن زندگی بسر کریں اور مذہب اسلام ،شعائر اللہ کی پھر کبھی تحقیر و تذلیل نہ ہو ،تو ہمیں جملہ احکامات خداوندی پر عمل کرنے اور مرضیات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق زندگی بسر کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق قائم کرناہوگا، مسلکی اختلافات اور آپسی ناچاقی کو برطرف کرکے ہمیں باہم متحد و متفق ہونا پڑے گا اور بالکل ہی سابقہ جملہ اختلافات کو نسیامنسیا کردیناپڑےگا اور اس طرح ہو جانا پڑے گا کہ کبھی خیال و تصور میں بھی یہ بات نہ آئے کہ زندگی میں کبھی ہمارے مابین کسی طرح کا کوئی اختلاف رہا ہے، تب ہی جاکر ہمیں اپنے مقصد میں کامیابی مل سکتی ہے اور ہم اسلام کی سربلندی کے ساتھ زندگی بسر کر سکتے ہیں،ورنہ ہرگزنہیں!!۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
29اگست2020(فکروخبر)
جواب دیں