موتُ العالِم موت العالَم

                   
  محمد عاکف جامعی ندوی

 

 اک ستارہ تھا میں کہکشاں ہوگیا
 
  استعاره تھا میں داستاں ہوگیا،  

 
کل رات بروز اتوار (24 نومبر 2019) ساڑھے دس بجے  میرے ایک عزیز نے یہ دل دہلانے والی خبر سنائی کہ دار  العلوم ندوۃ العلماء لکھنئو کے  فاضل اور نوجوان استاد، مولانا غفران صاحب ندوی باندوی ایک حادثاتی موت میں خدا کو پیارے ہوگئے۔ ابھی چند ہی لمحہ گزرے نہ تھے کہ اس خبر کی تصدیق ہوگئی اور زبان سے  إنّا لله وإنّا إليه راجعون کا ورد ہونے لگا، خبر یقینا ناقابل یقین اور تکلیف دہ تھی، لیکن قدرت کے فیصلہ سے کسی کو مفر نہیں ہے۔

 إِذَا جَاءَ أَجَلُهُم لَا يَستأخِرُونَ ساعةً وَلَا یَسْتَقدِمُونَ.(الآية) 

 بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی۔ 
 *اِک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا 

 خانودہ اور تعلیم 
مولانا غفران صاحب ندوی مرحوم ، انجینیر قاضی عتیق احمد صاحب کے سب سے چھوٹے فرزند، حضرت مولانا قاری صدیق احمد باندوی کے نواسہ،مولانا قاری حبیب احمد صاحب  ندوی کے بھانجہ، مولانا محمد سلمان سہارنپوری (ناظم مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور) کے چھوٹی بھائی مولانا محمد صاحب استاد مدرسہ مظاہرِ علوم، اور مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی کی چھوٹی بہن کے داماد تھے ۔ 

 مرحوم نے اپنی ابتدائی تعلیم مدرسہ عربیہ ہتھورا باندہ میں حاصل کی، جہاں مرحوم کو اپنے نانا عارف باللہ  مولانا قاری صدیق أحمد  صاحب باندوی(ہندوستان کے جلیل القدر اور مشہور عالم دین ) کے زیرِ تربیت رہنے اور ان سے استفادہ کا موقع نصیب ہوا ۔

اسکے بعد موصوف نے مدرسہ سید احمد شہید میں حفظ اور مدرسہ ضیاء العلوم میدان پور رائے بریلی میں عربی درجات کی تعلیم مکمل کی،  تعلیم کا یہ سلسلہ برابر جاری رہا.

اسی دوران مولانا مرحوم نے عالیہ درجات کی تکمیل کے لئے ہندوستان کی مشہور درسگاہ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے لئے رخت سفر باندھا اور فضیلت اور عالمیت کی تکمیل کرتے ہوئے اپنے سینہ کو علومِ نبوی سے فروزاں کیا ،
چند ہی سالوں میں مولانا مرحوم  اسی گلشن میں بطور استاد مقرر کئے  گئے جسکے بعد موصوف اپنا علمی سرمایہ   طالبانِ علومِ نبّوت پر نچھاور کرنے لگے ۔

 اخلاقِ نبوي كی ایک مثال * 
 
جب اللہ تعالی نے راقم کو دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع عنایت فرمایا تو اسوقت مولانا سے ابتدائی ملاقات ہوئی، انہیں دنوں کی بات ہے جب ہم رفقاء نے مشہور مدارسِ علمِ نبّوت اور مراكزِ رشد و ہدایت کے معائنہ کرنے اور اپنے اکابر علماء سے ملاقات اور استفادہ کے لئے مغربی یوپی کا سفر کیا تو  ہم رفقاء نے مدرسہ مظاہرِ علوم سہارنپور میں  حاضری دی ،
اسوقت شیخ الحدیث، محدث العصر حضرت مولانا  شیخ  یونس صاحب (جو كہ بقید حیات تھے)  سے ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی  تو مولانا مرحوم نے شیخ کے سامنے ہم طلباء کا تعارف اور آنے کا مقصد بیان فرماتے ہوئے شیخ کو اس بات پر آمادہ فرمایا کہ وہ  ہمیں اپنی  اجازت ِسندِحدیث سے نوازیں ۔
اِسوقت مرحوم کی کوششیں اور  کرم فرمائی  رنگ لائی اور شیخ نے ہم  طلباء كو مسلسلات پڑھ کر تمام کتابوں کی اجازت عطا فرمائی ۔ اللہ تعالی دونوں کی بال بال  مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں مقاماتِ عالیہ سے سرفراز فرمائے  آمین۔ 

 خدا رحمت کُند اِیں عاشقانِ پاک طینت را ۔ 
 
 فرشتہ صفت انسان
 
مولانا غفران صاحب مرنجا مرنج طبیعت کے انسان تھے، پاکیزہ اخلاق انکا نمایاں شعار  اور بڑوں کا احترام انکی عادت ثانیہ تھی۔
ان سے ملاقات کرنے والا ہر شخص اس بات کو محسوس کرتا کہ مولانا ایک نشیط اور چاق و چوبند انسان ہیں جو ہر لمحہ اپنے کاموں میں  مشغول اور اپنے مقصد کے لئے سرگرمِ عمل ہیں ۔
 مولانا مرحوم ایک باصلاحیت عالم دین ہونے کے ساتھ ایک کامیاب مدرس بھی تھے، وه اپنے والدین کے لئے ایک سعادت مند اور فرمانبرار فرزند ہونے کے ساتھ اکابر علماء کے محبوب اور  سب كےدلارے تھے،
اپنے رفقاء اور ہم عصروں کے ساتھ رفیقانہ اور برادرانہ تعلقات رکھنا انکا وصف، اور چھوٹوں پر شفقت کرنا انکی  عادت تھی انہیں تمام خوبیوں کی وجہ سے مولانا ہردلعزیز بن چکے تھے ۔
 
 بہت سی خوبیاں تھی مرنے والے میں 

ان تمام خوبیوں سے متصف ہونے اور ایک کامیاب انسان بننے میں مولانا کے خاندانی پس منظر نے بڑا اہم کردار ادا کیا،   اِن سب کے ساتھ  استاذہ اور اکابر علماء کی تربیت نے سونے پر سہاگا کا کام کیاجس نےمولانا کو عالمِ اُفق پر ایک درخشاں ستارہ بن کر چمکایا،جو ہر انسان کے لئے روشنی کا سامان بن چکا تھا ۔

 ضیافت مولانا کا  نمایاں وصف 

مولانا مرحوم بڑے مہمان نواز واقع ہوئے تھے وہ ہمیشہ موقع کی تاک میں رہتے کہ انہیں اپنے رفقاء اور بڑوں کی خدمت کا کوئی موقع ہاتھ آئے اور وہ دل کھول کر مہمانوں کی ضیافت کرتے ہوئے رضائے الٰہی کا  سامان فراہم کریں، دراصل مولانا مرحوم اُس  حدیث نبوی کا صحیح مصداق تھے جس میں  خدا پر ایمان رکھنے والے کو مہمان نوازی کی ترغیب دی گئی ہے ۔
 اگرچہ مولانا موصوف کے ساتھ میرے زیادہ گہرے تعلقات نہیں تھے لیکن  ہمیشہ محبت اور مسکراتے چہرے کے ساتھ ملاقات اور خیریت دریافت کرنا مولانا کا معمول تھا  ، بقر عید کے موقع پر جب راقم تکیہ کلاں رائے بریلی میں مقیم تھا تو اسوقت مرحوم نے  میرے ایک مشفق استاد کے ساتھ مجھے بھی اپنے گھر پر عشائیہ کی دعوت سے نواز کر اپنےتعلق اور محبت کا عملی ثبوت پیش کیا ۔

 چمنساتان علم و ادب کا گہوارہ 

مولانا غفران صاحب علم کے دُھنی اور مطالعہ کا پاکیزہ ذوق رکھنے والے انسان تھے۔
 مولانا نے فضیلت کی تکمیل    کی بعد بھی علمی سلسلہ جاری رکھا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے گریجویشن اور لکھنؤ یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویشن کیا، اسکے بعد ماضی قریب میں ہی اُسي یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ( پی ایچ ڈی)کی تکمیل کرتے ہوئے اپنے خوابوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے میں مصروف تھے لیکن انکا وہ خواب  شرمنده تعبیر نہ ہو سکا 

 وکَانَ أمرُ اللهِ قَدَراًمقدورًا(الآية ) 

 تدریس وتصنیف کی جامعیت  موصوف کا امتیاز
 
مرحوم  نے اپنی گوناگوں خوبیوں کی وجہ سے تدریس کے ساتھ تحقیق کو بھی اپنا میدان بنایا اور اس مختصر سی زندگی میں اصول الشاشی کا حاشیہ زبدة الحواشی، اور مشارق الانوار کو اپنے اعتناء اور تحقیق کے ساتھ شائع کیا ۔

علاوہ ازیں ابھی ماضی قریب  میں مولانا مرحوم  نے علامہ قاضي القضاة  شیخ الإسلام إبن عبد الوھاب گجراتي( المتوفٰي١١٠٩ھ) کی مشہور تفسیر زبدة التفاسير (جسکی پہلی جلد سورہ فاتحة سے سورہ کھف پر مشتمل ہے ) کو مولانا عبد القادر صاحب ندوی گجراتی کے زیرِ نگرانی اپنی تحقیق و ترتیب کے ساتھ شائع کیا، جو اپنی دیدہ زیب طباعت اور معنوی افادات کی وجہ سے علماء اور باذوق لوگوں میں پسند کی گئی ۔

 _زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا*
 
 *تمھیں سو گئے داستاں کہتے کہتے 


 اِک ستارہ تھا میں کہکشاں ہوگیا 

 علم و تحقیق کا یہ مسافر شوق اور لگن کے ساتھ  اپنے  تعلیمی سفر پر رواں دواں تھا کہ منزل  تک رسائی حاصل ہو  اور خوابوں کو تعبیر مل جائے ۔
جسکے لئے وہ اپنے سینے میں جوانی کا جوش اور جذبہ لئے اپنی راہ میں آنے والی ہر مصیبت کا مقابلہ کرتے  ہوئے غیر متزلزل ایمان اور  عزم کا ایک پہاڑ بن  کر خورشید کے لئے سامانِ سفر تیار کر رہا تھا 

 *عزائم جنکے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو 

 تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے_ 

 اِسطرح علم و ادب کے اِس کہکشاں میں وہ  ایک چمکتا ستارہ بن کر  اپنی ضیاپاشیوں سے ایک  عالم کو منور کر رہا تھا کہ اچانک وہ ستارہ  گردشِ دوراں سے الگ ہو کر بکھر گیا اور ایک ٹوٹا ہوا تارہ بن کر کہشاں سے غائب ہو گیا   
اور کچھ اس انداز سے عالمِ افق سے غروب ہوگیا کہ اسکی لَو بجھ گئی ، اور ہر طرف تاریکی کا سماں ہو گیا ۔ 

 اِک ستارہ تھا میں، کہکشاں ہوگیا ،

 حبِّ یزداں کا ایک استعارہ تھا میں* ،

 *داستاں ہوگیا * داستاں ہو گیا 

 قیدِ دنیا سے جب میں نکلنے لگا

 بندگی کا سفر جب میں طے کرچکا

 میں نے دھیرے سے یہ ساتھیوں سے کہا
  
 "میں شہید اب ہوا" 

 *پھر گواہی کا کلمہ ،زباں پر میری  

 لمحئہ واپسیں خود رواں ہوگیا

 اِک ستارہ تھا میں کہکشاں ہوگیا

 *کہکشاں ہوگیا، داستاں ہو گیا    

 محمد عاکف جامعی ندوی 
 مفتی اِلٰہی بخش اکیڈمی

مولویان، کاندھلہ ضلع شاملی
بروز منگل ۔ ۲٦/١١/٢٠١۹

«
»

انصاف اور مساوات ضروری بھی ہے اور ضرورت بھی ہے !

بابری مسجد کے فیصلہ پر ہندوستانی مسلمانوں کا صبر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے