موت سے ڈرنے والے کھلے عام ریلیاں کیسے کر سکتے ہیں!!! کرونا نئی دنیا کا رموٹ کنٹرول

 

     ذوالقرنین احمد

 

لاک ڈاؤن کی مخالفت کرنے پر کچھ لوگ میڈیکل سائنس پڑھانا شروع کردیتے ہیں، جبکہ انہیں یہ بات پتہ ہونی چاہیے کہ انڈین امریکن مسلم کونسل نے تقریباً ایک سال قبل یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ہندوستان میں 10 لاکھ مسلمانوں کی نسل کشی کی تیاری ہوچکی ہے۔ ہم کرونا کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے نہیں روک رہے ہیں تمام احتیاط اختیار کی جانی چاہیے لیکن یہ بات دھیان میں رکھیے حکومت کی نیت صاف نہیں ہے جو حکومت این آر سی، مسلم پرسنل لاء میں مداخلت، مسلمانوں کی ماب لینچنگ، بےجا گرفتاریاں، انکاونٹر، اینٹی نیشنل جیسی چیزوں کو پروموٹ کرتی ہیں تو وہ عوام کی جانوں کے تحفظ کیلئے سنجیدہ کیسے ہوسکتی ہے۔ جب حکومت کے پاس گزشتہ سال کرونا پر قابو پانے کیلئے کوئی حل نہیں تھا  ایسا جواز دیں کر حکومت نے پورے ملک میں لاک ڈاؤن لگا کر عوام کی کمر توڑ دی تھی، اور اب ویکسین بھی دستیاب ہے لیکن پھر سے لاک ڈاؤن لگانے کا کیا مطلب ہے، ویکسین کا ٹرائل عوام پر کیا جارہا ہے خوف پیدا کرکے ویکسین کا کاروبار کیا جارہا ہے۔ ویکسینیشن کے باوجود بھی لوگ مر رہے ہیں،  اگر ویکسین کے باوجود بھی حکومت کرونا وائرس پر قابو پانے سے قاصر ہیں تو پھر کیا ملک میں اگلے لوک سبھا انتخابات تک لاک ڈاؤن نافذ کردینا چاہیے۔ کیونکہ حکومت اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے اس کرونا وبا کا بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اور وہ اسے 2024 کے انتخابات تک استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب حکومت کے پاس عوام کی جان کی حفاظت کیلئے کوئی پلاننگ نہیں ہے اور ناہی اتنے اسباب حکومت کے پاس ہیں نا ہی ہاسپٹل میں آکسیجن بیڈ اتنی تعداد میں ہے کہ سبھی مریضوں کو ایڈمٹ کیا جاسکے۔ ناہی ڈاکٹرز، میڈیسن،  اور نا ہی حکومت لاک ڈاؤن لگانے کے بعد غریب مزدور عام عوام کی روز مرہ زندگی کی ضروریات کو پورا کر رہی ہیں۔ صرف لاک ڈاؤن لگا کر عوام کو اپنے حال پر مرنے کیلئے چھوڑ دیا جارہا ہے۔ اسپتالوں کا حال یہ ہے کہ وہاں کرونا متاثر مریضوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا جارہا ہے۔ کووڈ سینٹرس کی حالت یہ ہے کہ وہاں مریضوں کی ضروریات کیلئے پانی بھی نہیں ہے ہر طرف گندگی کے ڈھیر ہیں، مردہ لاشوں کے بیچ زندہ مریضوں کو رکھا جارہا ہے۔ کسی قسم کا کوئی ٹریٹمنٹ نہیں دیا جا رہا ہے۔ بلکہ انہیں کھانا بھی دروازے کے باہر سے دیا جاتا ہے۔ جو پرائیویٹ ہاسپٹل ہیں وہاں مالدار امیر مریضوں کو لوٹا جارہا ہیں۔ ایک دن کے ۲۵ ہزار روپے بیڈ کے حساب سے وصول کیے جارہے ہیں اور پھر مرنے کے بعد مریض کے رشتے داروں کو پوچھا جاتا ہے کہ کرونا رپورٹ نیگیٹیو چاہیے یا پازیٹیو اور پھر لاکھوں روپیے ادا کرنے کے بعد مریض کی لاش حوالے کی جاتی ہے۔ 

ہر طرح سے عام عوام کی جان کو خطرہ لاحق ہے کرونا سے مرے یا نا مرے لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھوک سے ڈپریشن سے ضرور اموات ہورہی ہے۔ اور مزید اگر ایک بار پھر سے پورے ملک میں ظالمانہ طور پر حکومت کے طرف سے لاک ڈاؤن لگایا جاتا ہے تو اس کی وجہ سے ملک ایک بڑی تباہی کا شکار ہوگا، ملک کی معیشت تباہ ہوجائے گی، غریب مزدور کاروپوریٹ گھرانوں کے محتاج ہوکر رہ جائیں گے، فرقہ پرست حکومت کالے قانون نافذ کرکے اقلیتی برادریوں خاص طور سے مسلمانوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہری جیسا سلوک برتےگی، مذہبی آزادی پر پابندیاں عائد کردی جائے گی۔ لوگوں کے دلوں میں وائرس اور حکومت کا ڈر و خوف اس قدر بھر دیا جائے گا کے کوئی احتجاج کرنے کی ہمت نہیں کرسکے گا، حکومت کے خلاف بولنے لکھنے والوں کو پابند سلاسل کردیا جائے گا۔

 ملک کو ہندو راشٹر بنانے کیلئے پوری طرح سے زمین ہموار کی جارہی ہے۔ حکومت پر تنقیدوں کی بوچھاڑ ہورہی ہے لیکن حکومت بےشرم کی طرح تمام الزامات کو سن کر پڑھ کر جان کر انجان بن رہی ہے۔ لیکن اپنے ایجنڈے پر کام کرنے میں پوری طرح مصروف ہے۔ کرونا کے بعد کا منظر نامہ ملک میں سیاہ ترین باب میں شمار ہوگا ۔ پھر بھی جو لوگ سائنس پر ایمان لاکر اپنے ذہنوں کو عالمی پیمانے کی سازش کرنے والوں کا غلام بنارہے ہیں انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہم جانتے ہیں کہ حکومت کے ایجنڈوں کے خلاف بولنا اس وقت اینٹی نیشنل ہونے کی طرح ہیں کیونکہ بی جے پی اپنی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے اور جو لوگ انکی ناکامیوں کا پردہ فاش کرتے ہیں ایسے افراد پر اینٹی نیشنل کا ٹھپہ لگا دیتی ہیں اور اپنے آپ کو سچا دیش بھکت قرار دیتی ہیں۔ چاہے پھر وہ اس اندھ بھکتی کے پردے کے پیچھے ملک کو غلامی میں کیوں نہ دھکیل دے۔ اندھ بھکت پھر بھی حکومت کے گن گاتے رہیں گے۔ مان بھی لیا جائے کے کرونا وائرس ہے اور اسکی وجہ سے اموات ہورہی ہے تو اتنا خطرناک نہیں ہے جتنا بتایا جارہا ہے اور جتنا خوف عوام کے دلوں میں بیٹھایا جارہا ہے۔ 

اسی وائرس کا سہارا لے کر گزشتہ سال مسلمانوں کو بدنام کیا گیا، ان پر کرونا وائرس پھیلانے کا جھوٹا الزام لگایا گیا۔ لیکن اب آنکھیں کھول کر دیکھیے جو قوم موت سے اس قدر ڈرتی ہے  روزانہ لاکھوں کی تعداد میں کرونا مثبت مریضوں کے پائے جانے کے باوجود وہ کنبھ میلے میں لاکھوں کی تعداد میں اسنان کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال جس فرقہ پرست حکومت نے جبراً عوام پر لاک ڈاؤن نافذ کیا تھا اسکے حکمران بنگال انتخابات میں ریلیوں پر ریلیاں کر رہے ہیں جبکہ مردوں کو جلانے کیلئے شمشان گھاٹ کی زمینیں تنگ پڑ رہی ہیں۔ ہر طرف موت کا شور ہیں ۔ ٹی وی، سوشل میڈیا، اخبارات کرونا وائرس، موت، لاک ڈاؤن جیسی خوف و ہراس پیدا کرنی والی خبروں سے بھرے پڑے ہیں لیکن مودی اور امیت شاہ کی ریلیاں ختم نہیں ہورہی ہیں۔ کرونا گائیڈ لائن کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہے، لاکھوں کی عوام جمع کرکے روڑ شو کیے جارہے ہیں۔ الیکشن میں پارٹی کا پرچار کیا جارہا ہے۔ وزیر اعظم عوام کو زیادہ زیادہ تعداد میں باہر نکل کر ووٹ دینے کی اپیل کر رہے ہیں امیت شاہ ممتا بنرجی سے لڑنے میں مصروف ہیں اور پھر وزیر اعظم رات میں کرونا وائرس ویکسینیشن پر چرچا بھی کرتے ہیں عوام کو گائیڈ لائن پر عمل کرنے کیلئے بھی کہتے ہیں۔ کس قدر عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ جب یہ لوگ موت سے اسقدر ڈرتے ہیں کے لاک ڈاؤن لگا رہے ہیں تو پھر الیکشن کے پرچار میں بغیر ماسک اور کرونا کی گائیڈ لائن کو توڑ کر ریلیاں کیوں کر رہے ہیں انہوں نے تو انڈر گراؤنڈ ہوجانا چاہیے تھا اپنی سرکشا اور بڑھا لینی چاہیے تھی۔ ملک کی عوام کی لاشوں پر اپنی کرسیاں محفوظ کی جارہی ہیں ۔ ہوش میں آنے کی ضرورت ہے ۔ اس سے پہلے کے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا جائے۔ ایک بڑی تباہی سے بچنے کیلئے مسلمانوں کو اپنے تحفظ کیلئے اپنے دفاع کیلئے اپنے مذہبی شعائر کی حفاظت کیلئے اپنی نسلوں کی بقاء کیلئے ملک کی حفاظت کیلئے لائحہ عمل تیار کرنا ضروری ہے اور اس پر فوراً عمل آوری شروع کرنی چاہیے۔ ورنہ حالات سنبھلنے کا موقع بھی نہیں دے گے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

موت کا ایک دن متعین ہے

آ خر بار بار شان رسالت میں گستاخی کیوں اور گستاخوں کے سروں پر کس کا ہاتھ؟؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے