سزائے موت کے تعلق سے اس فیصلہ پر بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے نتیجہ میں ایسے مجرم بڑی تعداد میں چھوٹ جائیں گے، جو اپنے جرم کی سنگینی کے باعث سزا کے مستحق ہوچکے تھے۔ دوسری طرف حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والے کارکنوں کو خوشی ہے کہ اس فیصلہ کے بعد قتل اور عصمت دری جیسے جرائم میں سزائے موت پانے والے نوے فیصد مجرموں کی جان بخشی کی راہ ہموار ہوجائے گی کیونکہ عدالت نے ایسے واضح ضابطے مقرر کردیئے ہیں جن سے رحم کی درخواستوں پر حکومت کی طرف سے تعطل برتنے یا منمانی کرنے کا رویہ اپنانے پر قابو پایا جاسکے گا۔
چیف جسٹس پی سداشیوم کی صدارت والی تین رکنی بینچ کے اس فیصلہ میں دیگر اہم نکات یہ ہیں کہ رحم کی درخواست پر فیصلہ کرنے میں بغیر کسی وجہ کے تاخیر برتنے پر سزائے موت عمر قید میں بدلی جاسکتی ہے ۔ اسی طرح سی جی فرینا جیسے ذہنی امراض کو سزا کم کرنے کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے، پھانسی کی سزا سنائے گئے کسی مجرم کو قید تنہائی میں نہیں رکھا جاسکے گاکیونکہ یہ عمل غیر آئینی ہے اور پھانسی دینے کے پہلے مجرم کو اپنے خاندان والوں سے ملاقات کا موقع ضرور ملنا چاہئے۔
اس فیصلہ کے مذکورہ پہلوؤں سے واضح ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ نے سزائے موت کے بارے میں کافی فراخ دلی کا نظریہ اپنایا ہے، جس کا مقصد بدلا لینا نہیں بلکہ اصلاح اور معاملہ کو نمٹانے کی مثال قائم کرنا ہے، اس لحاظ سے عدالت عالیہ کا پھانسی کے بعد ہر مجرم کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے کا حکم دینا بھی اہمیت کا حامل ہے، جس سے یہ اندازہ لگانے میں مدد ملے گی کہ کیا پھانسی دینا سزائے موت کا سب سے کم تکلیف دہ طریقہ ہے ؟ اس کے ساتھ یہ انتظام بھی نہایت اہم ہے کہ موت کی سزا سنانے کے بعد متعلقہ مجرموں کی طرف سے رحم کی درخواست دائر کرنے کیلئے یقینی طو رسے قانونی امداد فراہم کرائی جائے اور رحم کی درخواست خارج ہوتے ہی اس کے گھر والوں کو مطلع کیا جائے کیونکہ ایک مناسب وقت کے اندر اطلاع دیئے بغیر پارلیمنٹ پر حملے کے مجرم محمد افضل کو پھانسی پر لٹکا دینے کی بہت زیادہ مذمت ہوئی ہے۔ موجودہ دور میں سزا کے طو رطریقے بھی سماج کی تہذیب وشائستگی کا اندازہ لگانے کی اہم کسوٹی بن گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کی مذکورہ بینچ نے اپنے اس فیصلہ میں خاص طور پر اس کا لحاظ وخیال رکھا ہے۔ یہ فیصلہ سبھی ان عدالتوں پر نافذ ہوگا، جہاں رحم کی درخواستیں زیر سماعت ہیں، ان میں سابق وزیر اعظم راجیوگاندھی کے قتل کے چاروں ملزم بھی شامل ہیں۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ اسی طرح دہشت گردی کے بے بنیاد الزامات میں گرفتار مسلم نوجوانوں کے انسانی حقوق پر بھی توجہ دیکر عدالت عالیہ کا کوئی ہمدردانہ رخ سامنے آتا، جس کے لئے مسلم جماعتوں اور طبقوں کی طرف سے اب تک پہل نہ ہونا جہاں افسوسناک ہے وہیں مستقبل کے لئے یہ راہ کھل گئی ہے کہ مظلوم مسلمان بھی عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹائیں، لیکن اس کے لئے پہلی شرط یہی ہے کہ جماعتی گروہ بندی اور نظریاتی اختلافات سے اوپر اٹھ کر غور وفکرکے ساتھ کارگر اقدام کئے جائیں، صرف پروپیگنڈہ کا وسیلہ اسے نہ بنایا جائے۔
جواب دیں