کوئی ایک کائی کی وجہ سے پھسل کر گرنے لگتا ہے تو اسے بچانے کیلئے اکثر ایسے لوگ بھی پورے جوش کے ساتھ پانی میں کود پڑتے ہیں جو خود بھی تیرنا نہیں جانتے اور ایک نہ شد دو شد کے مصداق دونوں ڈوب جاتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ پیراک بھی اُس وقت بے بس ہوجاتا ہے جب ڈوبنے والا اسے ڈوبنے سے بچنے کی خاطر پوری طاقت سے اپنے گرفت میں لے لیتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہاتھ پیر نہیں مار سکتا۔ محبوب نگر کے واقعہ میں شاید ایسا ہی کچھ ہوا ہوگا۔ بہرحال جو کچھ ہوا افسوسناک ہے۔ کئی برس پہلے اکبر باغ کے جناب عبدالعلیم انجینئر صاحب کے 6ارکان خاندان بھی ناگرجنا ساگر میں غرقاب ہوئے تھے۔ گذشتہ سال آندھراپردیش کے ایک انجینئرنگ کالج کے 24 طلباء و طالبات یاس ندی (ہماچل پردیش) میں اس وقت بہہ گئے تھے جب اس ندی کے دروازے اچانک کھول دےئے گئے تھے۔ گذشتہ ہفتہ بنگلور کے پانچ طلبہ بھی ایسے ہی غرقاب ہوئے ہیں۔
آئے دن کسی جھیل، کنویں، تالاب میں غرقابی کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ عثمان ساگر، حمایت ساگر اور حسین ساگر تو نوجوانوں کے لئے آبی قبرستان بن گئے ہیں۔ کالجس کے طلبہ ان تالابوں کے منڈیروں پر بیٹھتے ہیں اور بے خیالی میں پھسل جاتے ہیں یا ہنسی مذاق میں گرجاتے ہیں۔ اکثر غرقابی پیراکی سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ان خطرناک مقامات پر بچاؤ کے انتظامات نہ ہونے کے برابر ہے۔ صرف حسین ساگر کی لیک پولیس کے بارے میں اکثر خبر آتی ہے کہ وہ چھلانگ لگاکر خودکشی کی کوشش کرنے والے افراد جن میں اکثریت خواتین کی ہوتی ہے‘ انہیں بچا لیتی ہے۔ اکثر ان خبروں کے پڑھنے کے بعد یہ خیال بھی آتا ہے کہ اس علاقے میں اقدام خودکشی اسی لئے کیا جاتا ہے کہ انہیں بچالیا جائے۔ بہرحال تالابوں اور جھیلوں کے علاوہ قدیم دور کی باؤلیوں کے پاس ناتجربہ کار تیراکوں کو تیراکی سے روکنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں ہیں جس کی وجہ سے آئے دن یہ حادثات پیش آتے ہیں۔ اس کے علاوہ جب کبھی تعلیمی تفریح یا خاندانی تفریح کے لئے گروپس نکلتے ہیں تو پہلے ہی سے وہ اس بات کا فیصلے نہیں کرتے کہ انہیں یا گروپ کے تیرنے سے ناواقف افراد بالخصوص بچوں کو پانی سے دور رکھا جانا چاہئے۔ ایک کو بچانے کے لئے کئی کئی افراد غرق ہوجاتے ہیں۔ یقیناًوہ وقت سوچنے سمجھنے کا نہیں ہوتا اور ہیبت و بوکھلاہٹ میں قوت فیصلہ باقی نہیں رہتی اسی لئے یہ طئے نہیں کیا جاسکتا کہ اگر کوئی کسی وجہ سے ڈوب رہا ہو تو گروپ کے کس فرد کو بچانے کے لئے آگے بڑھنا چاہئے۔ اگر کوئی بھی فرد تیرنے سے واقف نہ ہونے کی صورت میں کیا حکمت عملی اختیار کی جانی چاہئے۔
پانی میں ڈوبنے کے واقعات اس قدر زیادہ ہیں کہ اعداد و شمار کے مطابق 7فیصد غیر طبعی اموات غرقابی کے نتیجہ میں ہوتی ہے۔ عالمی سطح پر اگر جائزہ لیا جائے تو 2012کی ایک رپورٹ کے مطابق 3لاکھ 72ہزار افراد محض غرقابی سے فوت ہوئے ہیں۔ غرقابی کے کوئی وجوہات ہیں‘ بحری سفر کے دوران کشتی، سمندری جہاز کو حادثہ پیش آسکتا ہے۔ چند دن پہلے اٹلی کے ایک سمندر میں تارکین وطن کو لے جانے والی کشتی کے ڈوب جانے سے 800 افراد غرقاب ہوئے ہیں۔ تیراکی کے دوران ہارٹ اٹیک، دمے کا حملہ، مرگی کے علاوہ حالت نشہ بھی غرقابی کا سبب ہوتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن WHO کی رپورٹ کے مطابق 85ممالک میں سے 48ممالک میں پانچ سال سے 14سال کی عمر کے بچے زیادہ غرقاب ہوتے ہیں۔ ایک دلچسپ اعداد و شمار کے مطابق غرقاب ہونے والوں میں مردوں کا تناسب خواتین سے زیادہ ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق غرقابی کے واقعات اس وقت میں کم ہوسکتے ہیں جب نہ صرف عوام میں شعور بیدار کیا جائے تعلیم سے آراستہ کیا جائے بلکہ شہری ماحول کو فروغ دیا جائے۔ چین نے یہ کامیاب تجربہ کیا۔ جس کی بدولت غرقابی سے جو اموات 1990ء میں ایک لاکھ نوے ہزار تک پہنچ گئی تھی‘ وہ 2013 تک گھٹ کر 64ہزار ہوگئی ہے۔ ہندوستان میں اتنے ہی عرصہ میں اموات کی تعداد 91ہزار سے گھٹ کر 88ہزار تک ہوگئی ہے۔
موت برحق ہے اسے بہانے کی ضرورت ہے‘ لاکھ احتیاطی اقدامات کے باوجود جس کو جس حال میں جہاں کہیں موت لکھی ہے وہاں مرنا ہی ہے۔ اس کے باوجود بچپن سے ہی بچوں کو تیرنے کے فن سے واقف کروانے کی ضرورت ہے۔ پہلے پیراکی درخت پر چڑھنا اور لاٹھی کا فن جاننا ضروری ہوتا تھا۔ معاشرہ جس قدر ترقی یافتہ ہوتا جارہا ہے مردانہ شوق ختم ہونے لگے‘ موٹر سائیکل، کار ریسنگ کے شوق پروان چڑھنے لگے جس کے نتیجہ میں اکثر نوجوان لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ تیرنے کا فن ہر حال میں نہ صرف بچوں کو بلکہ بچیوں کو بھی سکھانا چاہئے۔ اس سے سبھی کی سلامتی ہے۔ مگر یہ بات بھی بچوں کے ذہن نشین کردینی چاہئے کہ آگ، پانی اور سواری سے کبھی جوکھم نہ مول لیں۔ تیرنے کا فن جاننے والے جہاں صحت مند رہتے ہیں ‘ مختلف امراض سے محفوظ رہتے ہیں‘ وہیں ناسازگار حالات میں وہ دوسروں کے لئے سہارا بن سکتے ہیں۔ جب کبھی کوئی سانحہ پیش آتے ہیں تو وہ دوسروں کی جان بچانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔
جواب دیں