عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
لیل و نہار کی گردشیں، ماہ و سال کے تغیرات اور موسموں کے تبدیلیاں گردوپیش کی ہر چیز پرحتی کہ خود انسانی وجود پر اثر انداز ہوتی ہیں۔چناں چہ سردیوں میں دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہوجاتی ہیں؛جب کہ گرمیوں میں معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے، پھر خزاں میں اشجار پتوں سے خالی ہونے لگتے ہیں اور بہار میں ہر طرف ہریالی نظر آتی ہے۔ اس طرح اہل زمین سال بھر میں چار موسموں گرمی، سردی،بہار اور خزاں سے مستفید ہوتے ہیں۔اگر ہمیشہ ایک ہی موسم اور ایک ہی درجہئ حرارت رہے تو کائنات میں بے رنگی اور بدمزگی پیدا ہو جائے، وقت گزرنے کا احساس ختم ہو جائے اور رنج کی کیفیت کبھی راحت میں بدلنے نہ پائے۔ہم اس اعتبار سے خوش قسمت ہیں کہ ہمیں چار موسموں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے۔تبدیلی موسم کی قدر نہایت ٹھنڈے یا گرم ممالک میں رہنے والوں سے پوچھیں! جہاں سارا سال یا تو سخت سردی اور برف باری رہتی ہے یا پھر تیز دھوپ اور گرمی اوروہاں کے باشندے شدت کے ساتھ تبدیلی موسم کا انتظار کرتے ہیں۔
جس طرح رات آتی ہے توگزرے دن کی کلفتیں راحت و آرام میں بدل جاتی ہیں اورجب رات کی تاریکی ختم ہوتی ہے تو انسان اپنا اگلا دن بتانے کے لیے نیا نشاط اور نئی چستی پا لیتا ہے۔اسی طرح ہر موسم کی تبدیلی پر زندگی بھی نئی انگڑائی لیتی ہے اور ایک نئے جوش و نئی ترنگ کے ساتھ کام کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ ہم اگر انسان کی زندگی کو بھی چار حصوں میں تقسیم کر لیں تو اس کا پہلا حصہ بہار ہوگا، یہ اس حصے میں پرورش پاتا ہے، اس کی جڑیں، تنے، شاخیں، پتے اور پھول نکلتے ہیں یہ مہکتا ہے، لہکتا ہے اور پھل پھول دیتا ہے۔ انسان کی زندگی کا دوسرا حصہ گرم ہوتا ہے،یہ چیلنج کا دور ہوتا ہے یہ وسائل جمع کرتا ہے،اپنے جیسے نئے پودے تیار کرتا ہے ان کی حفاظت کرتا ہے اوریہ خود کو بیماریوں اور قدرتی آفتوں سے بچاتاہے۔ زندگی کا تیسرا موسم خزاں ہوتا ہے تیسرے موسم میں درخت کی طرح انسان کے پھول پتے اور چھال الگ ہو جاتے ہیں، یہ بیمار اداس اور کمزور ہو جاتا ہے، اس کا رنگ روپ اور خوشبو اڑ جاتی ہے،یہ تنہا اور زوال پذیر بھی ہو جاتا ہے۔ اور انسانی زندگی کا آخری موسم سرد ہوتا ہے، اس دور کے آخر میں انسان مٹی میں مل کر مٹی ہو جاتا ہے۔
بارش ایک عظیم نعمتِ خداونددی:
''بارش''خدا کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت، اور اس کی قدرت کی اہم نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔انسانوں کی سیرابی اور بنجر زمینوں کی سرسبز و شادابی کے لیے اللہ تعالیٰ کس طرح پانی کا انتظام کرتا ہے اور کن مراحل سے گزرکرآسمان سے بارش کا نزول ہوتا ہے؟ غور کیا جائے تو ان سب میں دانش مندوں کے لیے عبرت و موعظت کا سامان ہے۔سمندر کا پانی سور ج کی تپش سے بخارات کی صورت میں اُٹھتا ہے جسے ہوائیں اٹھا کر ایک خاص بلندی پر کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں، نہ سورج کی تپش سے پانی خشک ہوتا ہے اور نہ ہی ہوا کی گرفت سے نکل کر پانی نیچے گرتا ہے،بادل وہاں برستا ہے جہاں اسے اللہ تعالیٰ برسنے کا حکم دیتا ہے۔پھر یہی اللہ کا برسایا ہوا پانی زمین کے اندر بہت نیچے تک نہ صرف یہ کہ جذب ہوتا ہے؛بلکہ زمین کے اندر سوتوں او ردریاؤں کی شکل میں رہتا ہے اور کہیں کہیں چشموں اور جھیلوں کی صورت میں زمین کی سطح پر پھوٹ نکلتا ہے، ان سے انسان کو میٹھا اور شفاف پانی میسر آتا ہے۔ یہ سارا وسیع وعریض نظام اس ایک حکیم کی حکمت، حاکم کی حکومت،اور قادر کی قدرت کی کھلی شہادت دے رہاہے۔کارخانہئ قدرت کے وجود و بقا کے لیے خداوند قدوس کی اس عظیم صناعی کو قرآن مجید میں جگہ جگہ بیان کیاگیا،ایک موقع پر انسان کو درس عبرت دیتے ہوئے یوں فرمایا گیا:کیا انسان اس بات پر غور نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح بادلوں کو بناتا اور اٹھاتا ہے پھر ان کو آپس میں جوڑتا ہے۔ اس کے بعد ان کو ایک دوسرے پر تہہ بہ تہہ کر دیتا ہے۔پھر ان سے موسلادار بارش برساتا ہے۔ جو دور سے دیکھنے والے کو پہاڑوں کی مانند نظر آتی ہے۔ کبھی اس میں اولے برستے ہیں۔اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے وہاں اولے برساتا ہے اور جسے چاہتا ہے اولوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہی صورت حال بارش کی ہے جو کہیں برستی ہے اور کہیں سے بادل یوں ہی گزر جاتے ہیں اور بسااوقات بادلوں میں بجلی چمکتی ہے جو آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ رات اور دن کو بدلتا ہے۔بصیرت رکھنے والوں کے لیے اس میں اللہ کی ذات اور اس کی کبریائی کو پہچاننے کے لیے اَن گنت نشانیاں ہیں۔(النور:43)
ایک اور مقام پرانسانوں کو اس طرح توجہ دلائی گئی:”کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ ہی آسمان سے پانی برساتا پھر اس کو سوتوں، چشموں اور دریاؤں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کرتا ہے، پھر اس پانی کے ذریعے طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جن کی مختلف قسمیں ہیں پھر کھیتیاں پک کر سُوکھ جاتی ہیں پھر دیکھتے ہو کہ وہ زرد پڑ جاتی ہیں آخر کار اللہ ان کو بھُس بنا دیتا ہے۔درحقیقت اس میں عقل رکھنے والوں کے لیے نصیحت ہے۔“ (الزمر:21)
اللہ تعالی بارش کی نعمت کو اپنے بندوں پر ان کی حاجت کے بقدر ہی برساتا ہے، اگر بارش سال بھر مستقل برستی رہی تو انسانوں کی زندگی زمین پر مشکل ہوجائے، لیکن اللہ تعالی نے اس پانی کے ٹھہرنے کے لیے زمین میں خزانے بنارکھے ہیں، جس میں سے انسان وقت ضرورت نکالتا ہے، اللہ تعالی نے اس جانب بھی قران میں اشارہ فرمایا: ہم ایک صحیح انداز سے آسمان سے پانی برساتے ہیں، پھر اسے زمین میں ٹھہرا دیتے ہیں، اور ہم اس کے لے جانے پر یقیناً قادر ہیں۔اسی پانی کے ذریعہ سے ہم تمہارے لئے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کردیتے ہیں، کہ تمہارے لئے ان میں بہت سے میوے ہوتے ہیں ان ہی میں سے تم کھاتے بھی ہو- (المؤمنون: 19)
بارش کبھی زحمت ہوجاتی ہے!
آسمان سے نازل ہونے والی بارش جس طرح انسانوں کے حق میں نعمت و رحمت ثابت ہوتی ہے،اسی طرح بعض مرتبہ سزا و عقوبت بھی بن جاتی ہے۔تاریخ امم پر نظر رکھنے والا ہر طالب علم جانتا ہے کہ قوم نوح پر بارش کس طرح عذاب بن کر آئی، یمن میں قوم سبا پر کس طرح سزا بن کر نازل ہوئی اور قوم عاد کو کس طرح تیز وتند ہواؤں نے پچھاڑ کر رکھ دیا۔قرآن مجید میں ان سب کے واقعات تفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺجب بادلوں کو آتا دیکھتے تو بے چین ہوجاتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:جب آسمان تبدیل ہو جاتا،تو آپ ﷺ کے چہرہئ انور کا رنگ بھی متغیر ہوجاتا،ا ور آپ کبھی باہر نکلتے تو کبھی اندر داخل ہوتے، کبھی آگے بڑھتے تو کبھی پیچھے ہٹ جاتے، پس جب بارش برستی، تو آپ کی پریشانی دور ہو جاتی، ایسا میں نے آپ کے روئے مبارک سے پہچانا،حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے آپﷺ سے اس بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:اے عائشہ (مجھے یہ خدشہ ہوتا ہے کہ)شاید یہ ایسا ہی ہو جیسے قوم عاد نے کہا: ”پس جب انہوں نے اس بادل کے ٹکرے کو اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے کہا کہ یہ بادل ہم پر بارش برسنے والا ہے۔۔۔۔الخ(الاحقاف: 24)“(مسلم شریف)
بارش سے متعلق بعض مسنون دعائیں:
1: ہوا کو گالی نہ دیں!سیدنا ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ہوا کو گالی مت دو، اگر اس میں کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھو تو یہ دعا پڑھو:اللَّہُمَّ إِنَّا نَسْاَلُکَ مِنْ خَیْرِ ہَذِہِ الرِّیحِ وَخَیْرِ مَا فِیہَا وَخَیْرِ مَا اُمِرَتْ بِہِ، وَنَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ ہَذِہِ الرِّیحِ وَشَرِّ مَا فِیہَا وَشَرِّ مَا امِرَتْ بِہ (جامع ترمذی)اے اللہ! ہم تجھ سے اس ہوا کی بہتری مانگتے ہیں اور وہ بہتری جو اس میں ہے اور وہ بہتری جس کی یہ مامور ہے، اور تیری پناہ مانگتے ہیں اس ہوا کے شر سے اور اس شر سے جو اس میں ہے اور اس شر سے جس کی یہ مامور ہے۔
2:بارش کی حالت میں اللہ سے ڈریں!سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو کبھی کھل کھلا کر ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کے کوے کو دیکھ سکوں، آپ تو صرف تبسم فرماتے تھے، آپ جب بدلی یا آندھی دیکھتے تو اس کا اثر آپ کے چہرے پر دیکھا جاتا (آپ تردد اور تشویش میں مبتلا ہو جاتے) تو (ایک بار) میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگ تو جب بدلی دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ بارش ہوگی، اور آپ کو دیکھتی ہوں کہ آپ جب بدلی دیکھتے ہیں تو آپ کے چہرے سے ناگواری (گھبراہٹ اور پریشانی) جھلکتی ہے (اس کی وجہ کیا ہے؟) آپ نے فرمایا:اے عائشہ! مجھے یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں اس میں عذاب نہ ہو، کیونکہ ایک قوم (قوم عاد) ہوا کے عذاب سے دو چار ہو چکی ہے۔(سنن ابی داو)
3:جب بجلی کی گرج اور کڑک سنے تو یہ دعا پڑھیں:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب بجلی کی گرج اورکڑک سنتے تو فرماتے: 'اللَّہُمَّ لاَ تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَلاَ تُہْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذَلِکَ'-(جامع ترمذی)ترجمہ:ائے اللہ ہمیں اپنے غصہ سے قتل مت فرمائیے،اپنے عذاب سے ہلاک مت کیجیے اور اس سے پہلے پہلے ہمیں عافیت عطا فرمائیے!
4:جب بارش ہوتی دیکھے تو یہ دعا پڑھیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ ﷺ جب بارش ہوتی دیکھتے تو یہ دعا کرتے''اللَّہُمَّ صَیِّبًا نَافِعًا'' ترجمہ:اے اللہ! نفع بخشنے والی بارش برسا۔
5:زور دار بارش ہو اور خطرے کا خوف ہوتو یہ دعاء پڑھیں:اللَّہُمَّ حَوَالَیْنَا وَلاَ عَلَیْنَا، اللَّہُمَّ عَلَی الآکَامِ وَالظِّرَابِ، وَبُطُونِ الأَوْدِیَۃِ، وَمَنَابِتِ الشَّجَر۔ ترجمہ:اے اللہ! ہمارے اطراف میں بارش برسا ہم پر نہ برسا۔ اے اللہ! ٹیلوں پہاڑیوں وادیوں اور باغوں کو سیراب کر۔
خلاصہئ کلام:
ان دنوں ملک کے طول و عرض میں ایک بار پھر شدید بارشیں ہو رہی ہیں‘شمالی ہند کے کئی علاقے سیلاب کی زد میں ہیں۔ بہار‘ بنگال سمیت ملک کی مختلف ریاستو ں میں تسلسل کے ساتھ طوفانی بارشوں کا قہر جاری ہے۔ سیلاب زدگان سڑکوں، ٹیلوں اور دوسرے محفوظ مقام پر پناہ گزیں ہیں۔ انہیں ایک طرف اپنے قیمتی املاک کے ضائع ہونے کا غم ہے تو دوسری طرف وہ بھوک و پیاس کی شدت سے بے تاب ہیں۔ان کے پاس نہ بارش سے بچنے کے لئے کوئی سائبان ہے نہ فرش پر بچھانے کے لئے کوئی بچھونا، بچے بھوک و پیاس کی شدت سے تلملا رہے ہیں، ماؤں کے سینے میں دودھ خشک ہو چکا ہے، نوجوانوں کی طاقت و قوت جواب دے چکی ہے۔ایسے میں ہماری دینی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم ان پریشان حال انسانوں کی مدد کریں،ان کی طرف دست تعاون دراز کریں اور ان کے لیے محفوظ مقامات پر مکانات کا انتظام کریں!ایسے نامساعد حالات میں مذہب اسلام نے قومی یکجہتی اور رواداری کو آگے بڑھانے اور بلاتفریق مذہب وملت انسانیت کی خدمت کرنے کا حکم فرمایا ہے۔
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
29اگست2020(فکروخبر)
جواب دیں