گورنر رام نائک صاحب بی جے پی کی پوری حکومت میں اہم وزیر رہے ہیں۔ وہ اپنی ذہنیت کے اعتبار سے وہ تھے جو اب تک نظر آتے تھے یا پارٹی کے دباؤ کی وجہ سے تھے اسے تو وہی بتلا سکتے ہیں؟ لیکن اب جو وہ کہہ رہے ہیں یہ وہ آواز ہے جس کے سر میں سر ملاکر سب کو تائید کرنا پڑے گا۔ لیکن کوئی اس وقت تک نہیں بولے گا جب تک اسے بھی یہ یقین نہیں ہوجائے گا اسے اب اسے سرگرم سیاست میں جگہ نہیں ملے گی۔ گورنر صاحب جانتے ہیں کہ گورنر آخری سیڑھی ہے اوپر جانے کے راستے بند ہیں اور نیچے پاتال ہے۔ اس لئے اب وہ کہہ دینا چاہئے جو سچ ہے۔
گورنر صاحب کو تو یہ بھی یاد ہوگا کہ ابتدا میں گاندھی جی اور نہرو تقسیم کے بدترین مخالف تھے اور مولانا آزاد اکیلے تھے جو سردار پٹیل سے دو دو گھنٹہ بحث کیا کرتے تھے۔ انہیں یاد ہوگا کہ کانگریس اور مسلم لیگ کا اختلاف ہی اس پر تھا کہ ہندوستان میں دو قومیں رہتی ہیں یا ایک؟ جناح صاحب دو قومیں ہندو اور مسلمان مانتے تھے اور پوری کانگریس ایک قوم۔ کیا گورنر صاحب کو یاد نہیں کہ مولانا آزاد کے دل پر سب سے بڑی چوٹ تو اس وقت پڑی تھی جب سردار پٹیل نے کہہ دیا تھا کہ ’’خواہ آپ پسند کریں یا نہ کریں ہندوستان میں دو قومیں آباد ہیں۔‘‘ مولانا آزاد چھ سال کانگریس کے صدر رہے اور ایک قوم پوری کانگریس کا ایمان تھا۔ لیکن ان کی کمر تو سردار پٹیل نے توڑ دی کیونکہ وہ بھی مسٹر جناح کی بولی بولنے لگے۔
مولانا آزاد نے صرف اتحاد کا پیغام ہی نہیں دیا تھا۔ انہوں نے پروردگار کی دی ہوئی بصیرت سے دیکھ لیا تھا اور اسی بنیاد پر سردار پٹیل نہرو جی اور گاندھی جی سے دردبھرے لہجے میں کہا تھا کہ ’’اگر ہم نے تقسیم کو تسلیم کرلیا تو ہم ہندوستان کے لئے ایک مستقل مسئلہ پیدا کردیں گے۔‘‘ تقسیم سے فرقہ وارانہ مسئلہ حل نہ ہوگا بلکہ یہ ملک کے لئے ایک مستقل مسئلہ بن جائے گا۔ آج گورنر صاحب ہی نہیں پورا ملک دیکھ رہا ہے کہ بچا ہوا آدھا پاکستان ہی ہندوستان کے لئے ایسا مسئلہ بنا ہوا ہے جو ہر حکومت کے سامنے آنے والے مسائل میں سب سے اہم مسئلہ ہوتا ہے۔ ہم اپنے محترم گورنر صاحب اور ہر ہندو دوست سے معذرت کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ہر ہندو لیڈر جب ہندو بن کر اور مسلمان لیڈر مسلمان بن کر سوچتا ہے تو اسے ہرا ہرا ہی نظر آتا ہے۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ انگریز گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن تقسیم کے حق میں نہیں تھا۔ انہوں نے جناح صاحب کو ہر طرح سمجھانے کی کوشش کی اور یہ آخری چوٹ ماری تھی کہ کانگریسی لیڈر اس شرط پر تقسیم پر تیار ہیں کہ بنگال اور پنجاب بھی تقسیم ہوں گے۔ جناح صاحب نے پاکستان کو مسلمانوں کے لئے مکہ مدینہ جیسا مقدس بنا دیا تھا اور وہ ایسے قائد اعظم نہیں رہ گئے تھے کہ کٹا پھٹا پاکستان لینے کے بجائے معتمد رہنے کی شرطیں پیش کردیں وہ جانتے تھے کہ اگر انہوں نے قدم پیچھے ہٹائے تو مسلمان ہی انہیں ختم کردیں گے۔ یہ بات مولانا آزاد سمجھ رہے تھے۔ لیکن وہ اپنی پوری کانگریس میں اکیلے رہ گئے تھے اور وہ گاندھی جی اور پنڈت نہرو کو بھی نہ سمجھا سکے کہ کٹا پٹھا پاکستان بھی منظور نہ کیا جائے۔ مولانا آزاد عرب میں پیدا ہوئے تھے ان کے تعلقات پورے عالم اسلام سے تھے اور وہ جانتے تھے کہ کٹا پھٹا کرم خوردہ اور کمزور پاکستان بھی عالم اسلام کا حصہ بن کر کمزور نہیں رہے گا۔ اور یہی ہوا کہ جب عرب دنیا میں تیل کے دریا بہنے لگے تو ہر کسی نے اس کٹے پھٹے پاکستان کو اس لئے پیٹرول میں نہلا دیا کہ وقت پڑنے پر ہمارے کام آئے گا۔ اس وقت اگر سردار پٹیل مولانا کی بات پر ان کے نقطۂ نظر سے غور کرتے تو اسلام آباد سے یہ آواز نہ آتی کہ ہم نے ایٹم بم آتش بازی کے لئے نہیں بنائے ہیں۔
اور اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ عربی النسل مولانا ابوالکلام آزاد اتحاد کے جیسے علمبردار تھے اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ہے۔ انہوں نے جنوری 1922 ء کو علی پور سینٹرل جیل کلکتہ میں انگریز مجسٹریٹ کے سامنے جو تاریخی بیان دیا تھا اس میں کہا تھا کہ
’’میں نے آج سے 12 سال پہلے الہلال کے ذریعہ مسلمانوں کو یاد دلایا تھا کہ آزادی کی راہ میں قربانی و جاں فروشی ان کا قدیمی اسلامی ورثہ ہے۔ان کا اسلامی فرض ہے کہ ہندوستان کی تمام جماعتوں کو اس رام میں پیچھے چھوڑ دیں۔ میری صدائیں بیکار نہ گئیں۔ مسلمانوں نے اب آخری فیصلہ کرلیا ہے کہ اپنے ہندو سکھ عیسائی اور پارسی بھائیوں کے ساتھ مل کر اپنے ملک کو غلامی سے نجات دلائیں گے۔
آگرہ میں خلافت کانفرنس کے خطبۂ صدارت میں 1921 ء میں فرمایا کہ
’’ہندوستان کے سات کروڑ مسلمان ہندوستان کے 22 کروڑ ہندوؤں کے ساتھ مل کر ایسے ہوجائیں کہ دونوں ہندوستان کی ایک قوم اور فیشن بن جائیں۔ اب میں مسلمان بھائیوں کو سنانا چاہتا ہوں کہ خدا کی آواز کے بعد سب سے بڑی آواز جو ہوسکتی ہے وہ محمد مصطفےٰؐ کی آواز تھی اس وجود مقدس نے عہدنامہ لکھا۔ ہم ان قبیلوں سے جو جو مدینہ کے اطراف میں بستے ہیں صلح کرتے ہیں اور ہم سب مل کر ایک ’’امت واحدہ‘‘ بننا چاہتے ہیں۔‘‘
مولانا آزاد ہندوؤں کے ساتھ مسلمانوں کو ’’امت واحدہ‘‘ کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ یہی وہ آواز ہے جس کا ذکر مہامہم رام نائک صاحب نے کہہ کر ہمیں یہ لکھنے پر مجبور کیا ہے کہ ’’تیری آواز مکہ اور مدینہ‘‘ بات صرف مولانا کی ہی نہیں۔ آزادی کے بعد تو کانگریس کا ہندو بھی بھول گیا تھا کہ مولانا حسین احمد مدنی کون تھے مولانا عبیداللہ سندھی کیا تھے مولانا فضل حق کیا تھے؟ یا مولانا حسرت موہانی کیا تھے؟ ہر کانگریسی نے یہ سمجھ لیا کہ ان سب نے جتنی قربانیاں دیں وہ پاکستان کے لئے دی تھیں اور پاکستان انہیں مبارک ہو اور ہندوستان ہمیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ کسی کو اچھا نہیں لگے گا کہ پنڈت نہرو یا ان کی کابینہ کے وزیر کامیاب حکمراں نہیں تھے اور یہ دنیا میں ہر جگہ ہوا ہے کہ ملک کو آزاد کرانے والے دوسری صلاحیتوں کے ہوتے ہیں اور ملک کو چلانے والے دوسرے۔ برطانیہ جب دوسری جنگ عظیم سے کامیاب و کامران نکلا تو وزیر اعظم مسٹر چرچل تھے اور جب الیکشن ہوا تو قوم نے انہیں اس لئے ہرا دیا کہ وہ جنگ کے زمانہ کے اچھے ہیں لیکن عام حالات میں وہ کامیاب وزیر اعظم ثابت نہیں ہوں گے۔ ہم نے انگریزوں سے آج تک یہ سبق نہ سیکھا۔ مولانا آزاد نے جس انداز اور جیسے الفاظ میں مسلمانوں کو آواز دی ہمیں نہرو جی کی ایسی آواز ملی نہیں ہوسکتا ہے یہ ہماری کم علمی یا بے خبری ہو۔
مولانا نے آزادی کے بعد صاف صاف الفاظ میں مسلمانوں سے کہا تھا کہ
’’آپ یہ فیصلہ کریں کہ فرقہ وارانہ سیاسی جماعتیں ختم کردی جائیں اور آئندہ کوئی فرقہ وارانہ سیاسی جماعت نہ بنائیں۔ رہی یہ بات کہ پھر کیا کریں؟ مسلمان ایسی جماعتوں میں شامل ہوں جو فرقہ وارانہ نہ ہوں۔ کسی بھی ایسی سیاسی جماعت سے تعلق قائم کرلیں جس میں یہ تفریق نہ ہو کہ یہ مسلمان ہے یہ ہندو ہے یہ سکھ ہے یہ عیسائی ہے اور یہ پارسی ہے۔ بلکہ اس جماعت کا دروازہ ہر ہندوستانی پر کھلا ہو۔‘‘
یہ حقیقت ہے کہ مولانا کی اس بات کو سب نے تسلیم کیا جمعیۃ علماء نے بھی سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا۔ لیکن تالی ایک ہاتھ سے کب بجتی ہے؟ پھر جب ہندو پارٹیوں کی باڑھ آگئی اور ہر کوئی اپنی پارٹی بنانے لگا تو مسلمان بھی اس اکھاڑے میں کود پڑے۔
مولانا آزاد بہت بڑے گھرانے کے فرزند تھے۔ انہوں نے جب اپنی قوم کو آواز دینے کے لئے الہلال نکالا تو صرف ان کی ہی اکیلی آواز تھی جسے ملک کا ہر مسلمان غور سے سن رہا تھا۔ انہوں نے 1912 ء سے لے کر 1947 ء تک ایک دن چین سے نہیں گذارا۔ پھر جب وہ ملک کے پہلے وزیر تعلیم بنائے گئے تب بھی وہ کیا وہ ذاتی زندگی میں کیا رہے۔ اس کا سب سے خوبصورت خاکہ آزاد ہند کے ایڈیٹر احمد سعید ملیح آبادی نے لکھ دیا۔
’’اور مولانا نے تن من دھن سے ملک کی خدمت کی وہ سچے عاشق وطن اور جانباز سپاہی تھے۔ وطن کی راہ میں گھر بار لٹا بیٹھے اور کوڑی نہ رہی کفن کو۔ ہندوستان آزاد ہوا تو مولانا وزیر تعلیم مقرر ہوئے۔ اس وقت بھی وہ مقروض تھے وفات کے وقت بھی نہ کوئی بینک بیلنس چھوڑا نہ کہیں منقولہ اور غیرمنقولہ جائیداد تھی۔ برلا کمپنی سے ’’اسٹیڈ بیکر‘‘ نامی کار خریدی تھی۔ اس کی قسطیں پابندی سے ادا کرتے تھے۔ پوری قیمت ادا نہیں ہوسکی تھی ان کے پرسنل اسسٹنٹ سردار کلونت سنگھ نے بازار میں کار کی نیلامی کرکے بقیہ رقم ادا کی۔ دورِ وزارت کے دس گیارہ سال میں تین شیروانیاں سلوائی تھیں۔ جن میں آخری دنوں میں جابجا رفو اور پیوند لگنے لگے تھے۔ کسی نے کہا مولانا نئی شیروانی سلوا لیجئے فرمایا میرے بھائی مجھے اب نئی شیروانی کی نہیں دو گز کپڑے کی ضرورت ہے۔ اور مولانا دو گز کپڑے کے ساتھ ہی دنیا اور دنیا والوں کو خدا کے سپرد کرکے جامع مسجد کے سامنے جا سوئے جن کے 38 برس کے شب و روز کے رفیق اور عاشق مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی نے لکھا ہے: ’’میں نے بھی ان کی قبر دیکھ کر چیخ ماری تھی اور روتے ہوئے کہا تھا تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور۔‘‘
جواب دیں