مولانا آزاد۔ایک عظیم رہنما

ایک یہ کہ اپنے حالات اور گرد وپیش سے متعلق مکمل شعور اور آگہی اور دوسرے اپنے مذہب کی روح سے مکمل واقفیت۔اس کے بعد جو چیز باقی رہ جاتی ہے وہ ہے اس شعور اور اس واقفیت کی روشنی میں مستقبل کی منصوبہ بندی۔ 

جہاں تک حالات کا تعلق ہے تو اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہندوئوں کی بعض احیائی تحریکوں نے مسلمانوں کو معاشی سیاسی ثقافتی اور تعلیمی اعتبار سے پسماندہ رکھنے کا تہیہ کر رکھا ہے ۔ مسلمانوں کا وجود بھی انہیں برداشت نہیں مذہب اورتہذیب اور زبان کو برداشت کرنے کا سوال تو بعد میں آتاہے ہمارے اس نقطہ نظر کی سب سے بڑی دلیل گجرات کے فسادات ہیں جو حکومت کی نگرانی میں کرائے گئے اور اب وہ جماعت حکمراں ہے جس کی تشکیل کا بنیادی عنصر مسلمان دشمنی ہے ۔ اس ملک میں مسلمانوں کے مسائل کا تعلق بڑی حد تک اسی رویہ سے ہے جواحیائی تحریکوں نے اختیار کر رکھا ہے چنانچہ مسلمانوں کی تہذیب  ثقافت زبان تعلیمی اداروں اور پرسنل لا کو خطرہ اسی طرح کی تحریکوں سے ہے اور یہ عناصر مسلمانوں کی تعلیمی اور اقتصادی ترقی میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ 
یہاں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ جب ہم ہندووں کی احیائی تحریکوں کاذکر کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد پوری ہندو قوم نہیں ہوتی ہے ہندو قوم کی اکثریت احیائی ذہنیت نہیں رکھتی اور تمام ہندو مسلمانوں سے نفرت نہیں کرتے اور نہ تمام ہندووں نے موجودہ حکمران جماعت کو ووٹ دیا،ان کی اکثریت سیکولر ذہنیت رکھتی ہے یعنی وہ ذہن رکھتی ہے جو مولانا آزاد کے دوست جواہر لال نہرو کا ذہن تھا یہ الگ بات ہے سیاست کے نشیب وفراز میں ایسا بھی ہوتاا ہے کہ فرقہ پرستی کا ذہن رکھنے والے حکومت میں آجاتے ہیں ۔ ہندووں کے معتقدات اور سیاسی نظریات میں بہت فرق اورتفاوت پایا جاتاہے زیادہ تر ہندو اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ہندوستان کی سرزمین مختلف نسلوں اورتہذیبوں اور مذہبوں کے قافلہ کی منزل رہی ہے سیکڑوں سال سے ہندوستان اس سانچہ میں ڈھل چکاہے اور اس سانچہ کو نہ توڑا جاسکتاہے اور نہ بدلا جاسکتاہے صدیوں سے ہندوستان کی تقدیرمیں یہی رنگا رنگی لکھ دی گئی ہے ہندووں کی ایک اقلیت نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا جس طرح سے مسلمانوں کی ایک اقلیت نے اس صورت حال سے خود کو ہم آہنگ نہیں کیا حال کے اس مجمل اور مختصر تجزیہ کے بعد اب سوال یہ پیدا ہوتاہے اسلام کی روح ان حالات میںکیا رہنمائی کرتی ہے اور اس تہذیبی اور مذہبی بو قلمونی میں ہندوستانی مسلمانوں کو کیا پیغام دیتی ہےمیرا خیال یہ ہے کہ مولانا آزاد کی بصیرت نے ان حالات میں اسلام کی روح کو سمجھتے ہوئے اور ہندوستان کے مخصوص مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے سب سے بہتر سیاسی رہنمائی کی ہے اور یہ رہنمائی مولانا آزادکی ایک تقریر میں زیادہ صاف نظر آتی ہے مولانا آزاد کہتے ہیں:
میں مسلمانن ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کرتاہوں کہ مسلمان ہوں  اسلام کی تیرہ سو برس کی شاندار روایتیں میرے ورثہ میں آئی ہیں میں تیار نہیں کہ اس کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں۔ اسلام کی تعلیم اسلام کی تاریخ اسلام کے علوم وفنون اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے اور میرا فرض ہیکہ اس کی حفاظت کروں بحیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی اور کلچرل دائرے میں ایک خاص ہستی رکھتا ہوں اور میں برداشت نہیں کرسکتا کہ اس میں کوئی مداخلت کرے لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اور احساس بھی رکھتاہوں اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی وہ اس راہ میں میری رہنمائی کرتی ہے میں فخر کے ساتہ محسوس کرتاہوں کہ میں ہندوستانی ہوں میں ہندوستان کی ایک اور ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا ایک عنصر ہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتا ہے  میں اس کی تکوین کاایک ناگزیر عامل ہوں میں اس دعوی سے کبھی دست بردار نہیں ہوسکتا۔

(خطبات آزاد مرتبہ شورش کا شمیر)

کیا ہندوستانی مسلمانوں کے لئے یہ صحیح ترین رہنمائی نہیں ہے جو اسلام کی روح سے واقفیت کے ساتھ حالات کے شعور اور تجزیہ پر مبنی ہےکیا آج کے حالات میں ایک محب وطن مسلمان کا بعینہ یہی موقف نہیں ہونا چاہئے؟
اگر مولانا آزاد کی تقریر کا یہ اقتباس اہم ہے تو اس کی اہمیت کا احساس کتنے لوگوں نے کیاہے یہ اقتباس اس قابل ہے کہ خوبصورت طریقہ سے اسے لکھوایا جائے چھپوایا جائے آسمان سے برسایا جائیٍ اور گھروں میں اور ڈرائنگ روم میں دیوراروں پر فریم کرواکے اسے آویزاں کیا جائے تاکہ صحیح راستہ کا تصور ذہن اور دماغ میں واضح رہے اور پورے طور پر راسخ ہوجائے نہ صرف یہ تمام مسلمانوں کا ذہن بن جائے بلکہ تمام مسلمان اسی ذہن وفکر کے داعی اور علم بردار بن جائیں اور رواداری اور شرافت کے اس پیغام کو غیر مسلموں تک بھی پہونچائیں اور اس لئے کہ اس راستہ سے ہٹ کر جو بھی راستہ ہوگا وہ ملک اور ملت دونوں کے باعث نقصان ہوگا۔ اردو زبان اور مسلمانوں کے تمام تہذیبی ورثہ کی حفاظت بھی اسی طریفہ سے ممکن ہے۔ مسلمانوں کے لئے یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ غیر مسلم اکثریت کے ساتھ ان کی زندگی نوشتہ تقدیر بن چکی ہے وہ چاہیں یا نہ چاہیں ان کو اس ملک میں اسی حال میں رہنا ہے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی طرح وہ اس ملک کی آبادی کا ناقابل انکار حصہ ہیں یہی قدرت کا فیصلہ ہے اور اسلامی علوم کے ایک طالب علم کی حیثیت سے یقین کے ساتھ کہتاہوں کہ قدرت کا یہ فیصلہ عظیم امکانات کا حامل ہے بشرطیکہ مسلمان اپنے اندر وہ صفت پیدا کرلیں ان کامذہب جس سے متصف ہونے کی انہیں دعوت دیتا ہے مسلمانوں کو حیرانی اور سرگشتگی کے عالم سے بلاتاخیر باہر آجانا چاہئے  اور ایک محب وطن مسلمان کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہئے اپنی بستی اور اپنے محلہ کے تمام غیر مسلموں سے ان کے خوشگوار تعلقات ہونے چاہئے ،مسلمانوں کے خلاف بعض غیر مسلمو ں کا متعصبانہ رویہ معلوم لیکن مجھے یہ بات کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ مسلمان بھی اپنے مسلمان ہونے کی ذمہ داریوں کو اس ملک میں ادا نہیں کر رہے ہیں کیا ہمارے اعمال وکردار میں وہ خوبصورتی پیدا ہوگئی ہے اسلام نے جس کا ہم سے مطالبہ کیاہے کیاہمارے اندر وہ اخلاقی خصوصیات موجود ہیں جن کا تجربہ کرکے برادران وطن یہ محسوس کریں کہ مسلمان ایک شریف انسان اوربہتر پڑوسی اور اچھا شہری ہوتاہے اس کا پڑوسی ہونامحلہ کے لوگوں کے لئے اطمینان کی بات ہوتی ہے اس کو اپنے کارخانہ میں اور اپنی کمپنی میں ملازم رکھنا کا رخانہ اورکمپنی کی ترقی کی ضمانت ہوتی ہےکیونکہ وہ دوسروں سے زیادہ فہیم مخلص   محنتی کارگذار اور امانت دار ہوتاہے دوسروں کے تعصب سے انکار نہیں لیکن کیا ہم مسلمانوں نے خدمت ایثار اور قربانی اوراخلاقی بلندی اور قابلیت کا کوئی نقش قائم کیاہے ؟ ہم مسلمانوں کا حال بحیثیت مجموعی اقبال کے اس شعر کے مرادف ہے:
جس کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو
کاش کہ ایسا ہوتاکہ برادران وطن کے سامنے مسلمانوں کی بہت اچھی تصویر ہوتی وہ سمجھتے کہ مسلمان بے ایمانی اور کام چوری نہیں کرسکتاہے انصاف اور سچائی کا راستہ اسے پسند ہے انسانی اور ورحانی اقدار کے اعتبار سے وہ دوسروں سے بلند ارو زیادہ ممتازہے وہ مسجد میں عبادت بھی کرتاہے اور ایمان داری کے ساتھ کام کرنے کو بھی عبادت کا درجہ دیتاہے ، اسے تعلیم اورہنرمندی سے شدید شغف ہے ، وہ کمزوروں کا مددگار اور غریبوں کا غم خوار ہوتاہے۔وہ شریف اور تعلیم یافتہ ہوتا ہے ۔وہ مذہبی تنگ نظری سے دور ہوتا ہے اور تمام انسانوں کو خدا کا کنبہ سمجھتا ہے ، لیکن اسی کے ساتھ اسے اپنی مذہبی شناخت پر اصرار بھی ہے اور وہ اپنے مذہب کو اپنے ہم وطنوں کے لئے سوغات نجات بھی سمجھتا ہے ۔اور مناسب طریقہ سے اس سوغات کو پیش بھی کرنا چاہتا ہے اوروہ حکومت میں ان لوگوں کو بر سراقتدار لانے کی کوشش کرتا ہے جو منصف مزاج ہوں اور مذہبی تنگ نظری سے دور ہوں ۔
مولانا آزاد کا جو اقتباس اوپر اس مضمون میں نقل کیا گیاہے وہ صحیح ترین سیاسی راستہ ہے جو اسلام کے مطالعہ پر مبنی ہے اور گرد وپیش کے حالات کے گہرے تجزیہ پر بھی مبنی ہے1 اس پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہندوستان کا دستور بہت اچھا دستور ہے ۔ اسی دستور کی روح ہے جس کی بدولت دیر سے سہی مولانا آزاد کے نام سے اردو کی ایک یونیورسیٹی اس ملک میںقائم ہوسکی ،اسی دستور کی روح سے اردو زبان کواس کا جائز حق ملے گا، اس ملک میں مولانا آزاد کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ ہمیں یقین ہے کہ اس ملک میں دیر سویر باہمی رواداری کی فضا عام ہوگئی تلخیوں اور کدورتوں کا خاتمہ ہوگا کیونکہ اس کے بغیر ہندوستان کی ہمہ جہت ترقی ممکن نہیںہے  فیض احمد فیض کی طرح ہمیں بھی انتظار ہے
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مدارتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

«
»

میر تقی میرؔ اور عشق

انقلاب کیسے آئے گا ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے