آج کے مسلمان جس نازک ترین دور سے گذر ر ہے ہیں،جن خطرات وچیلنجوں سے نبرد آزما ہیں، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے ، ایسے حالات میں فروعی ، اختلافی ودیگر مسائل میں الجھنے کے بجائے اتحاد کی مضبوط رسی دینی ہوگی،مولانا آزاد کے افکار ونظریات کو سمجھنے اور ان کی گائڈ لائن پرعمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے،ان کی پوری زندگی ہم سب کے لئے ایک مثال اور مشعل راہ ہے۔
مولانا عبدالرشید راجستھانی ندوی نے کہاکہ مولانا آزاد کا تصور تعلیم بہت ہی اعلی، خطابت وصحافت کے شہسوار ، دین کے پرجوش داعی، علامہ شبلی کے فیض یافتہ، اور فکر ندوہ کے ترجمان تھے، ۱۹۴۷ء میںآزاد ملک کے پہلے وزیر تعلیم بنے، اور اس جلیل القدر عہدے کو زینت بخشی، ملک میں بولی جانے والی تمام زبانوں کا خیال رکھا، اور کہا کہ بنیادی تعلیم حا صل کرنا ہرشخص کا پیدائشی حق ہے، مادری زبان عربی تھی، اردو زبان ایسی سیکھی کہ تقریر میں فصاحت وبلاغت کے دریا بہادیئے،قلم اٹھایاتو صاحب طرز، انشاء پردازٹھہرے، اور نثر میں آزاد کا کوئی ثانی نہ رہا ، مولانا کی دینی تجر، شخصی عظمت اور سیاسی بصیرت نے لاکھوں لوگوں کواپنی ارادت میں منسلک کرلیا، اور خاندانی نام محی الدین احمد سے ابوالکلام آزاد بن گئے۔ مولانا کی تحریر وتقاریر نے ہمیشہ نہ صرف ایک نیا انقلاب پیداکیا،بلکہ ان کی تہذیبی وفکری بصیرت نے مستقبل کے ہندوستان کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا،عوام کے دلوں میں حب الوطنی اور آزادی کا جذبہ پیداکیا،ان کا مایہ ناز کارنامہ قرآن پاک کا ترجمہ وتفسیر ہے۔
نظامت کے فرائض انجام دے رہے مولانا محمدشمیم ندوی نے کہا کہ مولانا ابوالکلام آزاد تقسیم ہند کے سخت مخالف اور ہندومسلم اتحاد وقومی یججہتی کے علمبردار تھے، قومی اتحادانھیں ملک کی آزادی سے بھی زیادہ عزیز تھا، اور فرقہ پرستی کودنیاکا بدترین گناہ سمجھتے تھے، وہ ایسے مجاہد آزادی تھے جن پر وطن عزیز کو ناز ہے ، مولانا آزاد نے ۱۹۲۱ء کی آگرہ صوبائی خلافت کانفرنس کے اپنے خطبہ صدارت میں کہاتھا’’ ہندوستان کی نجات کے لئے ہندومسلم اتحاد ضروری ہے‘‘،کیونکہ ملک کی ترقی ایک دوسرے کی ترقی کے بغیر ناممکن ہے،وہ ہمیشہ ملک دشمن اور فرقہ پرستی جیسی لعنتوں سے بچنے کی تلقین کرنے اور ملک کی مستحکم تعمیر کے لئے قومی یکجہتی کی دعوت دیتے رہے، ان کا واضح موقف یہ تھا کہ’’ اگر آزادی نہ ملی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا،لیکن ہندومسلم اتحاد نہ رہا، تو یہ انسانیت کا نقصان ہوگا‘‘ مولانا کا معروف قول ہے کہ’’کہ اگر آج ایک فرشتہ قطب مینار پر اترکر یہ اعلان کرے کہ ہندوستان کو آزادی مل سکتی ہے، بشرطیکہ ہندوستان ہندومسلم اتحاد سے دست بردار ہوجائے،تو میں آزادی کے مقابلہ میں ہندومسلم اتحاد کو ترجیح دونگا،‘‘
تقسیم ہند کے بعد دل شکستہ مولاناآزاد نے دہلی کی جامع مسجد سے قوم کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا کہ:اپنے اندر ایک بنیادی تدیلی پیدا کرو،اور تبدیلیوں کے ساتھ چلو،ستارے تو ٹوٹ گئے،لیکن سورج تو چمک رہا ہے،اس سے کرنیں مانگ لو،اور ان اندھیری راہوں میں بچھادو،جہاں اجالے کی سخت ضرور رت ہے۔میں کہتاہوں جو اجلے نقش ونگار تمہیں اس ہندوستان میں ماضی کی یادگارکے طور پر نظر آرہے ہیں،وہ تمہارا ہی قافلہ لایاتھا،انہیں بھلاؤ نہیں،انہیں چھوڑو نہیں،ان کے وارث بن کر رہو،اور سمجھ لو کہ اگر تم بھاگنے کے لئے تیار نہیں تو پھر تمہیں کوئی طاقت بھگا نہیں سکتی،آؤ عہد کر و کہ یہ ملک ہمارا ہے، ہم اسی کے لئے ہیں،اور اس کی تقدیر کے بنیادی فیصلے ہماری آواز کے بغیر ادھورے ہی رہیں گے۔
آج زلزلوں سے ڈرتے ہو، کبھی تم خود ایک زلزلہ تھے،آج اندھیرے سے کانپتے ہوکیا یاد نہیں رہا کہ تمہارا وجو د اجالا تھا،یہ بادلوں کے پانی کی سیل کیا ہے،تم بھیگ جانے کے خدشے سے اپنے پانچے چڑھالئے ہیں،وہ تمھارے ہی اسلاف تھے،جو سمندروں میں اتر گئے،پہاڑوں کی چھاتیوں کو روند ڈالا،بجلیاں آئیں تو ان پر مسکرادیئے،بادل گرجے تو قہقہوں سے جواب دیا،صرصر اٹھی تو رخ پھیر دیا،آندھیاں آئیں تو ان سے کہا کہ تمہارا راستہ یہ نہیں ہے،یہ ایمان کی جانکنی ہے،کہ شہنشاہوں کے گریبان سے کھیلنے والے آج خود اپنے ہی گریبان کے تار بیچ رہے ہیں،اور خدا سے اس درجہ غافل ہوگئے ہیں کہ جیسے اس پر کبھی ایمان ہی نہیں تھا۔
اس موقع پر خاص طور سے مولانا ادیب الرحمن ندوی، مولاناشہزاد احمد ندوی،احمدمیاں، عبدالرحمن،قاری نیاز احمد،محمدطاہر، محمد انس سمیت طلباء موجود تھے، جناب ساجد حسین صاحب کی دعاپر جلسہ کا اختتام ہوا۔ ح
افظ شہزاد ندوی
جواب دیں