وہ جہاں زبان و اسلوب کو برتنے کا ایک خاص شعور رکھتے تھے وہیں انہیں شعر فہمی اور شعری تنقید پر بھی خاص بصیرت حاصل تھی۔اس وقت میرے پیش نظر مولانا کے مضامین کا وہ مجموعہ ہے جو ’’وفیات ماجدی یا نثری مرثیے‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ اس مجموعے میں ایک مضمون مرزا ثاقب لکھنوی پر بھی ہے۔ اسی مضمون کے تعلق سے راقم یہاں کچھ عرض کرنا چاہتا ہے۔
مضمون نے آغاز میں مولانا نے لکھا ہے:۔
’’ لکھنؤ کے خوش ذوق رئیس چودھری شفیق الزماں صاحب تعلق دار ………نے رقعہ لکھ کر مجھ سے دریافت کیا کہ ایک ادبی حلقہ میں ذیل کے دوہم مضمون شعروں سے متعلق بحث چھڑی ہوئی ہے۔ محاکمہ آپ کیجئے۔دونوں شعر یہ ہیں
شب جو زنداں میں ہوئی تازہ گرفتاروں کو
سر یہ ٹکرایا کہ در کردیا دیواروں کو
شب کو زنداں میں مرا سر پھوڑنا اچھا ہوا
آج کچھ کچھ روشنی آنے لگی دیوار سے
پہلا شعر میر نفیس علی لکھنوی کا ہے اور دوسرا مرزا ثاقبؔ کاہے۔
ان اشعار کے بارے میں مولانا اپنی تنقیدی رائے میں لکھتے ہیں کہ ’’شعر بادی النظر میں اور پہلی دفعہ پڑھنے میں پہلا ہی اچھا معلوم ہوا لیکن ذرا سوچنے کے بعد ترجیحی رائے دوسرے شعر کے حق میں قائم ہوئی اور یہی میں نے چودھری شفیق الزماں کو جواب میں لکھ بھیجا۔‘‘
پھر اس ترجیحی رائے کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا نے لکھا ہے کہ:
’’ پہلے شعر میں لفظوں کا ہی زور ہے ورنہ اتنا مبالغہ کہ سر ٹکرانے سے قید خانے کی دیواریں محض ٹوٹ پھوٹ کر محض در کی طرح کھلی رہ جائیں، حد فطرت سے بڑھا ہوا ہے اور پھر جب زنداں کی دیواریں ہی باقی نہ رہیں تو خود زنداں کا وجود کب باقی رہ گیا، قیدی آزاد ہوکر نکل ہی بھاگیں گے۔…..دوسرا شعر بے عیب ہے بلکہ ’’کچھ کچھ ‘‘نے انتہائی حسرت و بے کسی کی تصویر کھینچ دی ہے۔ تاریکی اس بلا کی ہے کہ قیدی کو یہ خفیف سی روشنی بھی بہت غنیمت معلوم ہورہی ہے۔پھر اتنا مبالغہ کہ سر ٹکرانے سے دیوار میں ہلکا سا رخنہ پیدا ہوجائے حدود فطرت سے اس درجہ بعید بھی نہیں۔‘‘
اس منطقی تجزئے کے ذریعہ مولانا کا دوسرے شعر کو ترجیح دینا بالکل درست ہے۔ اور واقعی میں دوسرا شعر ہی شعریت کے نقطہ نظر سے قابل ترجیح ہے۔مگر زیر نظر مضمون کے فوٹ نوٹ میں مولانا لکھتے ہیں کہ :
’’……..مجھے تو اولاً پہلا ہی شعر پسند تھا لیکن پھر مولوی عبدالسلام ندوی رفیق دارالمصنفین (صاحب شعر الہند) سے مشورہ لیا تو انہوں نے دوسرے شعر کو ترجیح دی اور بڑی حد تک ان کی رائے سے متاثر ہوکر میں نے اس دوسرے شعر کو ترجیح دی۔ پہلا شعر میر نفیس ؔ مرحوم کا تھا۔‘‘
راقم السطور کے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ مولانا ایسے شعر فہم اور نقاد شعر نے مذکورہ اشعار کی بابت مولوی عبدالسلام مرحوم سے استفسار کی ضرورت کیوں محسوس کی ؟ جبکہ مذکورہ اشعار سے زنداں کے جن قیدیوں کی حالت کا پتا چلتا ہے، وہ یکساں نہیں معلوم ہوتی۔کیوں کہ دوسرے شعر میں جس قیدی کا ذکر ہے اس کی بے چارگی اور بے بسی پہلے شعر والے قیدی سے کہیں زیادہ ہے۔ پھر یوں بھی پہلے شعر میں تازہ گرفتار قیدیوں کا جو ذکر ہے ان قیدیوں کو قید خانے میں ایک دم تو ڈال نہیں دیاگیا ہوگا۔اس لئے انہیں اس اذیت سے کہاں گزرنا پڑا ہوگا جس سے دوسرے شعر والے قیدی کو گزرنا پڑ رہا تھا۔ایسے میں وہ بے چارہ سر پھوڑ پھوڑ کر اس بلا سے نکلنے کے لئے کیا کیا نہ کر گزرتا؟اس کا معاملہ تو مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق زنداں سے نکلنے کی ہر ممکن صورت خواہ وہ جان لیوا ہی کیوں نہ ہوتی ، کرنی ہی تھی۔اس کے سر مارنے سے کم از کم قید خانے کی دیوار میں اتنا رخنہ تو پڑہی گیا کہ اس میں سے کچھ کچھ روشنی آنے لگی اور قیدی کی وحشت میں کمی آئی۔بایں وجہ دونوں اشعار کے تقابل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ اشعار ہم مضمون نہیں ہیں جیسا کہ مولانا نے فرمایا ہے۔شاید مولانا کا ذہن ’’تازہ گرفتاروں ‘‘ کی طرف نہیں گیا، ورنہ وہ دونوں شعروں کو ہم مضمون نہ لکھتے۔
وفیات ماجدی میں مرزا ثاقبؔ کا تذکرہ کرتے ہوئے ذہن اس طرف یوں ہی چلا گیا کہ آخر دونوں شعروں کے محاکمہ میں مولانا مرحوم کو ، مولانا عبدالسلام صاحب کی رائے لینے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہونی چاہئے تھی ۔ شعر تو بہر حال دوسرا ہی قابل ترجیح ہوتا تھا ۔
حضرت مولانا مرحوم کواللہ تعالیٰ نے طویل عمر سے نوازا تھا ، جس کا لمحہ لمحہ مولانا نے خوب خوب وصول کیا اور وہ ، وہ علمی کام کرگئے جو ہم ایسے طالب علموں کے لئے ہمیشہ ہی مفید ثابت ہوتے رہیں گے۔ ان کا علمی و ادبی ذوق نہایت بلند اور ستھراتھا ، وہ بہت بڑے تھے، بڑے رہیں گے۔ وہ علم و ادب کے آفتاب تھے اور ہم ان کے سامنے ذرہ بھی نہیں۔مذکورہ شعروں کی تنقید کے تعلق سے جو خیال آیا وہ ہم نے لکھ دیا ورنہ مولانا کے کسی بھی قلمی کاوش کے بارے میں قلم اُٹھاتے ہوئے ڈر ہی لگتا ہے۔
جواب دیں