مولانا آزاد کا تصور قومیت

مولانا ابوالکلام آزاد کے اس قول سے ان کی سیاسی بصیرت ‘حب الوطنی اور تصور قومیت واضح ہوتا ہے۔یہی دور اندیشی مولانا کو دیگر سیاسی قائدین سے ممتاز کرتی ہے تبھی تو گاندھی جی ہمیشہ انہیں اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے اور ہرمعاملے میں ان سے ہی مشاورت کیا کرتے تھے۔ہندوستان کے بٹوارے کے بعد مولانا آزادؔ کو پہلا وزیر تعلیم بنایا گیا اور ملک کی پہلی مرکزی اردو یونیورسٹی کو مولانا کے نام سے معنون کیا گیا۔جبکہ حیدرآباد میں اردو یونیورسٹی کا کامیاب تجربہ جامعہ عثمانیہ نے کر دکھایا تھا بلکہ جو کارنامے جامعہ عثمانیہ نے انجام دیے تھے اس کا عثرعشیر بھی مانو نے تا حال نہیں کیا ہے۔ البتہ گزشتہ دنوں مانو نے مولانا آزاد چیر قائم کرکے مولانا کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے ! 
روزناموں میںآے دن مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے سمینار ‘سمپوزیم اور مباحثوں کی اطلاعات شائع ہوتی رہتی ہیں۔ سمیناروں میں پڑھے گئے مقالات کو یکجا کرنا اور انہیں کتابی شکل دینا ایک اہم کام ہے اور اس اہم کام کو نہایت خوش اشلوبی سے ڈاکٹر محمد شجاعت علی راشد‘ڈپٹی دائرکٹر‘مرکز پیشہ وارانہ فروغ براے اساتذہ اردو ذریعہ تعلیم‘انجام دیتے ہیں۔ انہوں نے اب تک کئ ایک نیشنل اور انٹر نیشنل سیمیناروں میں پڑھے گئے کے مقالہ جات کو کتابی شکل دے کر انہیں محفوظ کردیا ہے۔ دیگر شعبۂ جات سے وابستہ اساتذہ بھی سیمنا روں میں پڑھے گئے مقالوں کو محفوظ کرلیں تو طلباء کے لیے افادیت کا باعث ہوگا۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں گزشتہ دو چار برسوں سے مولانا آزاد کی یو م ولاد ت کو یوم آزاد یا قومی یوم تعلیم کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ اس مرتبہ بین جامعاتی تحریری و تقریری و ادبی مقابلے منعقد کیے گئے ۔جس میں جامعہ ملیہ اسلامیہ ‘یونیورسٹی آف حیدرآباد ‘ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی‘ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ‘ ممبئی یونیورسٹی ‘ گلبرگہ یونیورسٹی ‘ جواہرلال نہرو یونیورسٹی ‘ گجرات یونیورسٹی ‘ لکھنؤ یونیورسٹی ‘ عثمانیہ یونیورسٹی ‘ کالنگا یونیورسٹی ‘ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی اور گورنمنٹ ڈگری اینڈپی جی کالج فار ویمن‘حیدرآباد جیسے تعلیمی اداروں کے طلبا و طالبات نے حصّہ لیا۔حکم صاحبین نے جن طلبا و طالبات کے مضامین کو انعامات کے علاوہ پسندیدہ قرار دیا گیا ‘ان مضامین کو اشاعت کے لئے منتخب کیا گیا۔ان میں عبدالرزاق ‘ محمد حسن محمود ‘ واجدہ بیگم ‘ نوشاد منظر ‘ ندا آفرین ‘ عبد اللہ ‘ محمد ارشاد سبیل ‘ اسعد فیصل فاروقی ‘ سلمان فیصل ‘ انصاری تنویر بانو محمد اسمعٰیل ‘ محمد نظام الدین ‘ عبد السمیع‘ محمد مصاحب علی ‘ محمد موسٰی ‘ محمد اختر ‘ شیخ کہکشاں انجم ‘ محمد ناصر بابا ‘ حسینہ بی بی ‘ سمیہ تمکین ‘ قریشی فو زیہ ‘ معراج الدین خان ‘ خضرا جبین ‘ محمد ابو حارث ‘ روبینہ مصباح عبد الخالق ‘ عالیہ تبسم ‘ سیدہ زہرہ فاطمہ‘ ناظمہ بیگم اور صدیقہ مبین قابل ذکر ہیں ۔
زیر نظر تصنیف کا حرف آغاز پروفیسر محمد میاں ‘وائس چانسلر ‘ مانو کا لکھا ہوا ہے۔اان کا کہنا ہے کہ یہ کتاب مولانا آزاد کی سیاسی بصیرت ‘جذبۂ حب الوطنی اور قومیت کے منفرد نظریات کا ایک حسین گلدستہ ثابت ہوگی کیو ں کہ اس میں نسل نو نے مولاناآزاد کے سیاسی افکار کو پڑھنے‘سمجھنے اور عصر حاضر کی بدلتی قدروں کے ساتھ برتنے کی کامیب کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر محمد نسیم الدین فریس نے ’’ ماجرا‘‘ کے تحت تحریری اور تقریری مقابلوں کی رپورٹ تحریر کی ہے۔جبکہ ڈاکٹر محمد شجاعت علی راشد نے ’’عرض مرتب ‘‘لکھتے ہو ے ان ادبی مقابلوں کی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کے علاوہ پروفیسر امتیاز احمد ‘ ڈائرکٹر ‘ خدا بخش اورینٹل مپلک لائبریری‘پٹنہ کا ایک مبسوط مقالہ ’’مولانا آزاد اور مسلم قومیت‘‘ کے عنوان سے شامل تصنیف ہے جو ’’کی نوٹ‘‘ کا حامل ہے۔
چوں کہ تحریری مقابلوں کا موضوع ’ مولانا آزاد کا تصور قومیت‘ رکھا گیا تھا اس لئے تمام مقالے اسی موضوع پر لکھے گئے۔مختلف جامعات کے طلبا و طالبات نے اپنے طور پر مولانا آزاد کو پڑھا‘سمجھا اور انہیں محسوس کیا تبھی تو انہوں نے اپنے اپنے طرز پر لکھنے کی کامیاب کوشش کی۔ بعض مقالات تو معیاری اور اعلیٰ درجہ کے ہیں۔ اس ضمن میں یہ کہا جاے تو بے جا نہ ہوگا کہ یونیورسٹی کے مختلف شعبۂ جات جیسے صحافت‘ مطالعات ترجمہ‘ سیاسیات‘تعلیمات ‘انجئنیرنگ بھی منتخب موضوعات پر بین جامعاتی مقابلے منعقد کرے تاکہ طلبا و طالبات کی سوچ و فکر کا اندازہ ہو اور انہیں ایک سمت بھی عطا ہو سکے اور یہ مضامین کتابی شکل میں شائع کیے جائیں تاکہ اہل زبان بھی ان سے مستفید ہوسکیں۔زیر نظر کتاب جملہ ۳۳۰ صفحات پر مبنی ہے جس کی کمپوزنگ اور طباعت لا جواب ہے لیکن اس کی کوئ قیمت درج نہیں ہے یعنی یہ کتاب افادہ عامہ کے لیے نہیں ہے۔مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے زیر اہتمام شائع ہونے والی تمام کتابیں اسی نوعیت کی ہیںیعنی ’’ کلیہ میں گڑ پھوڑنا‘‘ کے مصداق صرف یونیورسٹی سے وابستہ افراد تک ہی پہنچتی ہے۔ یونیورسٹی کے ذمہ داروں سے گزارش ہے کہ وہ یونیورسٹی میں ہی ایک سیلز کاونٹر کھولیں جہاں نہ صرف یہ کتابیں براے فروخت کے دستیاب ہوں بلکہ یونیورسٹی کیلنڈر اور ڈائری بھی میسر ہوسکے۔

«
»

اخوان کوابھی اوربڑی قربانی کی ضرورت ہے!

صلیبی انجام کی جانب بڑھتا اسرائیل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے