سراج الدین ندویؔ
چیرمین ملت اکیڈمی،بجنور،یوپی
٭ ملت اسلامیہ آج نوع بنوع مسائل سے دوچار ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک ایسی بیمار ملت ہے جو کسی ایک بیماری میں مبتلا نہیں بلکہ متعدد بیماریوں نے اسے نڈھال کردیا ہے۔ مگر الحمد للہ کینسر، ایڈس یا کوئی لاعلاج بیماری اسے لاحق نہیں ہے اور نسخہئ شفا بھی اس کے پاس ہے جسے خوبصورت جزدان میں لپیٹ کر نہایت ادب واحترام سے اس نے اپنی الماری میں رکھ رکھا ہے۔اس تناظر میں ملت کو چند ضروری کا انجام دینے ہیں۔
٭ سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ملت اسلامیہ اپنی بیماری کی شناخت کرے۔ اس کے اسباب وعلل کا تجزیہ کرے۔ صحیح دوا کا استعمال اور مکمل پرہیز کا اہتمام کرے۔ اسے یہ احساس ہوجائے کہ دنیا میں اسے دوسری قوموں کی بیماری دور کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔نہ صرف یہ کہ وہ خود صحت مندرہے بلکہ دوسرے بیماروں کے لیے بھی مسیحا بن کھڑی ہوجائے۔
٭ آج ملت اسلامیہ اپنی حیثیت، اپنے مقام اور فرض منصبی کو بھول گئی ہے۔ وہ عرفانِ ذات کی اس دولت سے محروم ہوگئی ہے جسے اقبالؒ نے ”خودی“ سے تعبیر کیا تھا اور جس کے بارے میں حضرت علیؓ نے فرمایا تھا۔مَنْ عَرَفَ نَفْسَۃ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ(جس نے خود کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا) ملت کو اس کا اصل مقام ومنصب یاددلایا جائے کہ اللہ نے اسے زمین میں اپنا خلیفہ بناکر بھیجا ہے۔
٭ آج ہماری نئی نسل فلمی اداکاروں اور کرکٹ کے کھلاڑیوں کو خوب جانتی ہے۔ ان کے ریکارڈ بھی رکھتی ہے مگر وہ امام غزالیؒ، علامہ ابن تیمیہؒ، بوعلی سیناؒ، فارابیؒ، شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ، مجدد الف ثانی ؒ، سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ، محمد بن قاسم کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ ضرورت ہے کہ ہم نئی نسل کو اپنی تاریخ اور اپنے اسلاف کے کارناموں سے متعارف کرائیں تاکہ اس کا احساس کمتری بھی دور ہوا اور اسے معلوم ہوکہ تہذیب وثقافت اور سائنس وٹکنالوجی ہماری میراث ہے اور اس میدان میں آج بھی ہمیں سب سے آگے پہنچنا ہے۔
٭ ہر شخص اپنی اپنی ذمہ داریوں کوادا کرے۔ خود اپنی ذات، اپنی فیملی،اپنے گھر، اپنے محلّے، اپنے شہر اور اپنے ضلع کے بارے میں فکر کرے۔عملی پروگرام بنائے اور من حیث المجموع اپنے معاشرے کو اونچا اٹھانے کی کوشش کرے۔کسی بڑی پلاننگ کے بجائے اگر ہر محلّے کے لوگ یہ طے کرلیں کہ ان کے محلّے کا ایک بچہ بھی ان پڑھ نہیں رہے گا۔ پ دیکھیں گے کہ دس سال میں ہمارے معاشرے کی کایا پلٹ جائے گی۔ہر شخص آل انڈیا یا آل ورلڈ تنظیم بناکر کام کرنا چاہتا ہے۔ اپنے محلّے، اپنی بستی کونظر انداز کردیتا ہے۔ اس صورت حال کو تبدیل ہونا چاہیے۔ ہم ”ملت اکیڈمی“ کے ذریعے اپنے گاؤں اور قرب وجوار میں جو کام کررہے ہیں اس کو بھی ایک مثال کے طور پر سامنے رکھا جاسکتا ہے۔
٭ مدارس ومکاتب اپنے نصاب ونظام تعلیم میں تھوڑی سی تبدیلی کرلیں تو اس کے بڑے دور رس نتائج نکل سکتے ہیں۔مکاتب میں بچوں کو ناظرہ ودینیات اور اردو کے ساتھ اتنی ہندی، انگریزی اور ریاضی بھی پڑھا دی جائے کہ ان کا داخلہ پانچویں کلاس میں ہوجایا کرے۔اسی طرح بڑے مدارس جہاں عربی ادب،صرف ونحو، تفسیر، حدیث، فقہ، منطق،فارسی کی تعلیم دی جاتی ہے وہ فارسی کی جگہ انگریزی وہندی اور منطق کی جگہ سائنس پڑھانے لگیں تو اس کے بڑے دوررس اثرات ظاہر ہوں گے۔ ہمارے اسلاف نے فارسی کو داخل نصاب اس وقت کیاتھا جب یہ سرکاری زبان تھی۔ اب ہماری زبان ہندی اور بین الاقوامی زبان انگریزی ہے تو ہمارے علماء کرام کو چاہیے کہ اپنے طلبہ کو یہ زبانیں سکھائیں۔ اسی طرح منطق وفلسفے کے علوم کی تدریس کا رواج اس وقت ہوا جب یونانی فلسفہ ومنطق کے ذریعہ اسلام پر حملے کئے گئے تو ہمارے اسلاف نے انہیں کے علوم سیکھ کر ان کو جواب دیا۔ آج سائنسی علوم کا دور ہے اور انہیں علوم کو سیکھ کر نہ صرف یہ کہ اسلام کا دفاع کیا جائے بلکہ اس کی حقانیت کو واضح کیا جائے۔
٭ قرآن وحدیث کی تدریس بھی اس انداز سے ہو کہ موجودہ مسائل ومقتضیات کو قرآن وحدیث کی روشنی میں سمجھنے اور حل کرنے کی صلاحیت طلبہ میں پیدا ہو اور ان کی تعلیمات کو موجودہ حالات پر منطبق کیا جائے اسی طرح عربی ادب اور صرف ونحو کو محض رٹنے رٹانے کے بجائے ایک زندہ زبان کی حیثیت سے پڑھایا جائے۔
٭ لڑکیوں کی تعلیم پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ بعض دینی حلقوں میں انہیں جدید علوم پڑھانا تو حرام سمجھا جاتا ہے۔ یہ صورت حال نہایت تشویشناک ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم لڑکوں سے زیادہ ضروری ہے۔ اس لیے کہ آگے چل کر انہیں کی گود میں بچے پروان چڑھتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ کے قائم کئے ہوئے معاشرے میں حضرت عائشہؓ سے مرد بھی مسئلے معلوم کرنے آیا کرتے تھے گویا کہ ایک خاتون کو اتنا علم سکھایا گیاتھا کہ وہ مردوں پر بھی فوقیت رکھتی تھیں۔ جب تک مسلم معاشرے میں خواتین کی حصے داری کو مؤثر نہیں بنایا جائے گا اور وہ اپنا رول ادا نہیں کرسکے گی اس وقت تک مسلم معاشرے کی گاڑی نہیں چل سکے گی۔
٭ معاشی طور پر پس ماندگی کو دور کرنے کے لیے دور رس منصوبہ بندی اور عمل آوری کی ضرورت ہے۔اقلیتوں کے لیے بہت سی سرکاری اسکیمیں پاس ہوتی ہیں مگر ملت کے عوام کو نہ ان کا علم ہوپاتا ہے اور نہ ان سے استفادے کا طریقہ معلوم ہوتا ہے۔ اس طرح کی اسکیموں اور ان سے استفادے کی خوب تشہیر کی جائے۔ ایک عام اندازے کے مطابق ہماری تعداد ہندوستان میں پچیس کروڑ ہے تقریباً ہر شخص صدقہئ فطر ادا کرتا ہے اگر صدقہئ فطر کی رقم پچیس روپے مان لی جائے تو تقریباً چھ ارب روپے صرف صدقہئ فطر کے نکلتے ہیں۔ زکوٰۃ کی رقم صدقہئ فطرے سے کئی گنازیادہ نکلتی ہے۔ گویا کہ ساٹھ ستّر ارب کی کثیر رقم مسلمان رمضان میں صدقہئ فطر اور زکوٰۃ کے طور پر نکالتے ہیں۔اگر اس رقم کو جمع اور خرچ کرنے کا اجتماعی اور منظم بندوبست کرلیں، فقراء ومساکین،مدارس وطلبہ اور ضرورت مندوں کے وظائف کے ساتھ بے روز گاری دور کرنے کے لیے اس رقم کو خرچ کیا جائے اور ہر سال منصوبہ بند طریقہ سے کئی لاکھ لوگوں کو روزگار فراہم کیا جائے تو مسلمان بہت جلد معاشی طور پر مضبوط ہوجائیں گے۔تاریخ ہمیں بتاتی کہ جب زکوٰۃ کا اجتماعی نظم قائم کیا گیا تو مسلم معاشرے میں ایک شخص بھی مفلس اور بے روزگار نہ تھا لوگ اپنی زکوٰۃ لیے لیے پھرتے تھے مگر کوئی لینے والا نہ ملتا تھا کا ش مسلمان آج بھی زکوٰۃ کا اجتماعی نظم قائم کرسکیں۔
٭ وقت کی ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ ہم مسلکی اختلافات کو فروعات کا درجہ دیں۔ انہیں اصول کا درجہ نہ دیں۔اصولی طور پر ملت اسلامیہ ایک جسد واحد کی مانند ہے۔ ہمارے اندر کشادہ دلی،توسع، وسعت ظرف ونظر ہو۔ایک دوسرے کی رائے کو محترم سمجھیں۔ مشترک مسائل مل جل کر حل کرنے کی اسپرٹ پیدا کریں ایسے مواقع پر اپنی ”انا“ کو آڑے نہ آنے دیں۔ ملت ہماری اپنی ذات، ہماری سوچ، ہمارے مسلک، ہماری جماعت،ہمارے مکتب فکر سے زیادہ اہم ہے ا س لیے ملت کے لیے اپنی ذاتی اور مسلکی مفادات کو قربان کردینے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ اجتماعی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دینے کا مزاج بنانا چاہیے۔
٭ اقتدار ایک ایسی طاقت ہے جس کے ہاتھ میں ملک کی لگام ہوتی ہے۔ اس لیے اقتدار اور ملکی سیاست پر اثر انداز ہونا ضروری ہے۔ ملت کا اپنا ایکPolitical Setupہونا چاہیے۔ موجودہ حالات میں یہ مناسب نہیں کہ مسلمانوں کی اپنی ایک سیاسی پارٹی ہو اور نہ ہی یہ مفید ہے البتہ ان کا اپنا ایک Groupضرور ہونا چاہیے۔ ملت کے قائدین کو یہ طے کرنا ہوگا کہ سیاسی دنیامیں ان کا وزن اوروقار کس طرح بلند ہوسکتا ہے اور ملکی سیاست پروہ کس طرح اثر انداز ہوسکتے ہیں؟ اس کے لیے انہیں اپنی پسندوناپسند کا معیار بدلنا ہوگا اور ملت کے لیے اپنی پسند کی قربانی دینا ہوگی۔
٭ ہماری ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ کسی کی ترقی ہماری آنکھ کو نہیں بھاتی۔اسے نیچے کھینچ لانا، اس کی راہوں میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہمارا مزاج بن گیا ہے۔یہ مزاج ہمیں بدلنا ہوگا۔نہ صرف یہ کہ دوسروں کی ترقی پر خوش ہونا بلکہ لوگوں کو اوپر اٹھانے کو اپنا شیوہ بنانا ہوگا۔ کم از کم یہ مزاج تو بنانا ہی ہوگا کہ اگر ہم کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے تو اپنی ذات سے کسی کو نقصان تو نہ پہنچائیں۔
٭ ایک اہم کام یہ ہے کہ ہماری ملت مختلف رسوم وخرافات میں مبتلا ہے۔ اس کا قیمتی وقت اور پیسہ لایعنی رسموں کی ادائیگی میں صرف ہورہا ہے۔ملت کو ان خرافات ورسوم سے نکال کر اسراف وفضول خرچی سے بچائیے۔ شادی بیاہ کی فضول رسمیں، تیوہار وتقریبات کی غیر اسلامی شکلیں،لایعنی وفضول دعوتیں، ان سب میں ملت کا قیمتی سرمایہ اور وقت ضائع ہوتا ہے۔یہی سرمایہ اور وقت اگر ملت کے مثبت، ایجابی اور تعمیری کاموں میں خرچ ہوتو اس سے ملت کے بہت سے تشنہ اور ضروری کام پایہئ تکمیل کو پہنچ سکتے ہیں۔
٭ سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ملت اسلامیہ اپنی بیماری کی شناخت کرے۔ اس کے اسباب وعلل کا تجزیہ کرے۔ صحیح دوا کا استعمال اور مکمل پرہیز کا اہتمام کرے۔ اسے یہ احساس ہوجائے کہ دنیا میں اسے دوسری قوموں کی بیماری دور کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔نہ صرف یہ کہ وہ خود صحت مندرہے بلکہ دوسرے بیماروں کے لیے بھی مسیحا بن کھڑی ہوجائے۔
٭ آج ملت اسلامیہ اپنی حیثیت، اپنے مقام اور فرض منصبی کو بھول گئی ہے۔ وہ عرفانِ ذات کی اس دولت سے محروم ہوگئی ہے جسے اقبالؒ نے ”خودی“ سے تعبیر کیا تھا اور جس کے بارے میں حضرت علیؓ نے فرمایا تھا۔مَنْ عَرَفَ نَفْسَۃ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ(جس نے خود کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا) ملت کو اس کا اصل مقام ومنصب یاددلایا جائے کہ اللہ نے اسے زمین میں اپنا خلیفہ بناکر بھیجا ہے۔
٭ آج ہماری نئی نسل فلمی اداکاروں اور کرکٹ کے کھلاڑیوں کو خوب جانتی ہے۔ ان کے ریکارڈ بھی رکھتی ہے مگر وہ امام غزالیؒ، علامہ ابن تیمیہؒ، بوعلی سیناؒ، فارابیؒ، شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ، مجدد الف ثانی ؒ، سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ، محمد بن قاسم کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ ضرورت ہے کہ ہم نئی نسل کو اپنی تاریخ اور اپنے اسلاف کے کارناموں سے متعارف کرائیں تاکہ اس کا احساس کمتری بھی دور ہوا اور اسے معلوم ہوکہ تہذیب وثقافت اور سائنس وٹکنالوجی ہماری میراث ہے اور اس میدان میں آج بھی ہمیں سب سے آگے پہنچنا ہے۔
٭ ہر شخص اپنی اپنی ذمہ داریوں کوادا کرے۔ خود اپنی ذات، اپنی فیملی،اپنے گھر، اپنے محلّے، اپنے شہر اور اپنے ضلع کے بارے میں فکر کرے۔عملی پروگرام بنائے اور من حیث المجموع اپنے معاشرے کو اونچا اٹھانے کی کوشش کرے۔کسی بڑی پلاننگ کے بجائے اگر ہر محلّے کے لوگ یہ طے کرلیں کہ ان کے محلّے کا ایک بچہ بھی ان پڑھ نہیں رہے گا۔ پ دیکھیں گے کہ دس سال میں ہمارے معاشرے کی کایا پلٹ جائے گی۔ہر شخص آل انڈیا یا آل ورلڈ تنظیم بناکر کام کرنا چاہتا ہے۔ اپنے محلّے، اپنی بستی کونظر انداز کردیتا ہے۔ اس صورت حال کو تبدیل ہونا چاہیے۔ ہم ”ملت اکیڈمی“ کے ذریعے اپنے گاؤں اور قرب وجوار میں جو کام کررہے ہیں اس کو بھی ایک مثال کے طور پر سامنے رکھا جاسکتا ہے۔
٭ مدارس ومکاتب اپنے نصاب ونظام تعلیم میں تھوڑی سی تبدیلی کرلیں تو اس کے بڑے دور رس نتائج نکل سکتے ہیں۔مکاتب میں بچوں کو ناظرہ ودینیات اور اردو کے ساتھ اتنی ہندی، انگریزی اور ریاضی بھی پڑھا دی جائے کہ ان کا داخلہ پانچویں کلاس میں ہوجایا کرے۔اسی طرح بڑے مدارس جہاں عربی ادب،صرف ونحو، تفسیر، حدیث، فقہ، منطق،فارسی کی تعلیم دی جاتی ہے وہ فارسی کی جگہ انگریزی وہندی اور منطق کی جگہ سائنس پڑھانے لگیں تو اس کے بڑے دوررس اثرات ظاہر ہوں گے۔ ہمارے اسلاف نے فارسی کو داخل نصاب اس وقت کیاتھا جب یہ سرکاری زبان تھی۔ اب ہماری زبان ہندی اور بین الاقوامی زبان انگریزی ہے تو ہمارے علماء کرام کو چاہیے کہ اپنے طلبہ کو یہ زبانیں سکھائیں۔ اسی طرح منطق وفلسفے کے علوم کی تدریس کا رواج اس وقت ہوا جب یونانی فلسفہ ومنطق کے ذریعہ اسلام پر حملے کئے گئے تو ہمارے اسلاف نے انہیں کے علوم سیکھ کر ان کو جواب دیا۔ آج سائنسی علوم کا دور ہے اور انہیں علوم کو سیکھ کر نہ صرف یہ کہ اسلام کا دفاع کیا جائے بلکہ اس کی حقانیت کو واضح کیا جائے۔
٭ قرآن وحدیث کی تدریس بھی اس انداز سے ہو کہ موجودہ مسائل ومقتضیات کو قرآن وحدیث کی روشنی میں سمجھنے اور حل کرنے کی صلاحیت طلبہ میں پیدا ہو اور ان کی تعلیمات کو موجودہ حالات پر منطبق کیا جائے اسی طرح عربی ادب اور صرف ونحو کو محض رٹنے رٹانے کے بجائے ایک زندہ زبان کی حیثیت سے پڑھایا جائے۔
٭ لڑکیوں کی تعلیم پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ بعض دینی حلقوں میں انہیں جدید علوم پڑھانا تو حرام سمجھا جاتا ہے۔ یہ صورت حال نہایت تشویشناک ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم لڑکوں سے زیادہ ضروری ہے۔ اس لیے کہ آگے چل کر انہیں کی گود میں بچے پروان چڑھتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ کے قائم کئے ہوئے معاشرے میں حضرت عائشہؓ سے مرد بھی مسئلے معلوم کرنے آیا کرتے تھے گویا کہ ایک خاتون کو اتنا علم سکھایا گیاتھا کہ وہ مردوں پر بھی فوقیت رکھتی تھیں۔ جب تک مسلم معاشرے میں خواتین کی حصے داری کو مؤثر نہیں بنایا جائے گا اور وہ اپنا رول ادا نہیں کرسکے گی اس وقت تک مسلم معاشرے کی گاڑی نہیں چل سکے گی۔
٭ معاشی طور پر پس ماندگی کو دور کرنے کے لیے دور رس منصوبہ بندی اور عمل آوری کی ضرورت ہے۔اقلیتوں کے لیے بہت سی سرکاری اسکیمیں پاس ہوتی ہیں مگر ملت کے عوام کو نہ ان کا علم ہوپاتا ہے اور نہ ان سے استفادے کا طریقہ معلوم ہوتا ہے۔ اس طرح کی اسکیموں اور ان سے استفادے کی خوب تشہیر کی جائے۔ ایک عام اندازے کے مطابق ہماری تعداد ہندوستان میں پچیس کروڑ ہے تقریباً ہر شخص صدقہئ فطر ادا کرتا ہے اگر صدقہئ فطر کی رقم پچیس روپے مان لی جائے تو تقریباً چھ ارب روپے صرف صدقہئ فطر کے نکلتے ہیں۔ زکوٰۃ کی رقم صدقہئ فطرے سے کئی گنازیادہ نکلتی ہے۔ گویا کہ ساٹھ ستّر ارب کی کثیر رقم مسلمان رمضان میں صدقہئ فطر اور زکوٰۃ کے طور پر نکالتے ہیں۔اگر اس رقم کو جمع اور خرچ کرنے کا اجتماعی اور منظم بندوبست کرلیں، فقراء ومساکین،مدارس وطلبہ اور ضرورت مندوں کے وظائف کے ساتھ بے روز گاری دور کرنے کے لیے اس رقم کو خرچ کیا جائے اور ہر سال منصوبہ بند طریقہ سے کئی لاکھ لوگوں کو روزگار فراہم کیا جائے تو مسلمان بہت جلد معاشی طور پر مضبوط ہوجائیں گے۔تاریخ ہمیں بتاتی کہ جب زکوٰۃ کا اجتماعی نظم قائم کیا گیا تو مسلم معاشرے میں ایک شخص بھی مفلس اور بے روزگار نہ تھا لوگ اپنی زکوٰۃ لیے لیے پھرتے تھے مگر کوئی لینے والا نہ ملتا تھا کا ش مسلمان آج بھی زکوٰۃ کا اجتماعی نظم قائم کرسکیں۔
٭ وقت کی ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ ہم مسلکی اختلافات کو فروعات کا درجہ دیں۔ انہیں اصول کا درجہ نہ دیں۔اصولی طور پر ملت اسلامیہ ایک جسد واحد کی مانند ہے۔ ہمارے اندر کشادہ دلی،توسع، وسعت ظرف ونظر ہو۔ایک دوسرے کی رائے کو محترم سمجھیں۔ مشترک مسائل مل جل کر حل کرنے کی اسپرٹ پیدا کریں ایسے مواقع پر اپنی ”انا“ کو آڑے نہ آنے دیں۔ ملت ہماری اپنی ذات، ہماری سوچ، ہمارے مسلک، ہماری جماعت،ہمارے مکتب فکر سے زیادہ اہم ہے ا س لیے ملت کے لیے اپنی ذاتی اور مسلکی مفادات کو قربان کردینے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ اجتماعی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دینے کا مزاج بنانا چاہیے۔
٭ اقتدار ایک ایسی طاقت ہے جس کے ہاتھ میں ملک کی لگام ہوتی ہے۔ اس لیے اقتدار اور ملکی سیاست پر اثر انداز ہونا ضروری ہے۔ ملت کا اپنا ایکPolitical Setupہونا چاہیے۔ موجودہ حالات میں یہ مناسب نہیں کہ مسلمانوں کی اپنی ایک سیاسی پارٹی ہو اور نہ ہی یہ مفید ہے البتہ ان کا اپنا ایک Groupضرور ہونا چاہیے۔ ملت کے قائدین کو یہ طے کرنا ہوگا کہ سیاسی دنیامیں ان کا وزن اوروقار کس طرح بلند ہوسکتا ہے اور ملکی سیاست پروہ کس طرح اثر انداز ہوسکتے ہیں؟ اس کے لیے انہیں اپنی پسندوناپسند کا معیار بدلنا ہوگا اور ملت کے لیے اپنی پسند کی قربانی دینا ہوگی۔
٭ ہماری ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ کسی کی ترقی ہماری آنکھ کو نہیں بھاتی۔اسے نیچے کھینچ لانا، اس کی راہوں میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہمارا مزاج بن گیا ہے۔یہ مزاج ہمیں بدلنا ہوگا۔نہ صرف یہ کہ دوسروں کی ترقی پر خوش ہونا بلکہ لوگوں کو اوپر اٹھانے کو اپنا شیوہ بنانا ہوگا۔ کم از کم یہ مزاج تو بنانا ہی ہوگا کہ اگر ہم کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے تو اپنی ذات سے کسی کو نقصان تو نہ پہنچائیں۔
٭ ایک اہم کام یہ ہے کہ ہماری ملت مختلف رسوم وخرافات میں مبتلا ہے۔ اس کا قیمتی وقت اور پیسہ لایعنی رسموں کی ادائیگی میں صرف ہورہا ہے۔ملت کو ان خرافات ورسوم سے نکال کر اسراف وفضول خرچی سے بچائیے۔ شادی بیاہ کی فضول رسمیں، تیوہار وتقریبات کی غیر اسلامی شکلیں،لایعنی وفضول دعوتیں، ان سب میں ملت کا قیمتی سرمایہ اور وقت ضائع ہوتا ہے۔یہی سرمایہ اور وقت اگر ملت کے مثبت، ایجابی اور تعمیری کاموں میں خرچ ہوتو اس سے ملت کے بہت سے تشنہ اور ضروری کام پایہئ تکمیل کو پہنچ سکتے ہیں۔
جواب دیں