آخرت فراموشی ظلم،بد عہدی اور خیانت کا مرتکب بنادیتی ہے
ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
موجودہ دور میں مسلمان جس طرف سے سب سے زیادہ غافل ہوئے ہیں وہ ”آخرت“ہے جب کہ اسلام کے بنیادی عقائد میں تیسری چیز آخرت ہے۔ آخرت کا مطلب ہے کہ ایک دن یہ دنیا فنا ہوجائے گی، نظام عالم درہم برہم ہوجائے گا۔ اس کے بعد جب اللہ چاہے گا تمام انسانوں کو دوبارہ پیدا کرے گا۔ تمام انسانوں کو ایک میدان میں جمع کیا جائے گا،ان کاحساب و کتاب ہوگا، جن لوگوں کی نیکیاں زیادہ ہوں گی انھیں جنت میں داخل کیا جائے گا۔ جن لوگوں کے گناہ زیادہ ہوں گے ان کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔
آخرت پر ایمان لانا بھی توحید ورسالت کی طرح ضروری ہے۔ جو شخص آخرت پر یقین نہیں رکھتا وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔ آخرت کا عقیدہ انسان کے اندر ڈسپلن پیدا کرتا ہے۔ انسانوں میں باز پرس کا خوف جاگزیں کرتا ہے۔ انھیں برے کام کرنے سے روکتا ہے اور اچھے کام کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ قرآن مجید میں آخرت پر ایمان لانے کی تعلیم مختلف انداز سے دی گئی ہے، آخرت کو ہی ”یوم الدین“ اور”یوم الحساب“ کہا گیا ہے۔ قرآن مجید میں قیامت اور آخرت کے مختلف مناظر بیان کیے گئے ہیں۔قرآن مجید کا کوئی صفحہ آخرت کے ذکر سے خالی نہیں ہے۔
مرنے کے بعد انسان ایک ایسی دنیا میں چلا جاتا ہے جہاں سے اس کی واپسی ممکن نہیں ہے۔کسی کی قبر بنے یا نہ بنے،کوئی جلایا جائے یا کوئی پانی کے حوالے کردیا جائے۔اللہ کی طاقت اس کے جسم کے ریزوں کو اکٹھا کرنے پر قدرت رکھتی ہے۔کفار مکہ ہوں یا آج کے کفارو مشرکین ہوں یا ملحدین ہوں وہ آخرت کے اسلامی تصور پر یقین نہیں کرتے۔لیکن انسان ذرا سوچے کہ دنیا میں کتنے ہی نیک انسان ہیں جو نیکی اور بھلائی کی خاطر دکھ درد اور تکالیف برداشت کرتے ہیں۔اس کے بالمقابل کتنے ہی انسان ہیں جو ظلم کا رویہ اختیار کرتے ہیں کیا مرنے کے بعد دونوں کا ایک ہی انجام ہونا چاہئے۔انسان کی عقل بھی اس پر گواہی دے گی کوئی ذات تو ایسی ہو جو مظلوم کا بدلہ ظالم سے لے سکے،کوئی دن تو ایسا آئے جب حق پرستوں کو ان کی حق پرستی کا اجر مل سکے۔
آخرت میں تمام لوگوں کے اعمال نامے خود ان کے ہاتھوں میں پہنچا دیے جائیں گے، نیک لوگوں کے اعمال نامے دائیں ہاتھوں میں عطا ہوں گے اور برے لوگوں کے اعمال نامے ان کے بائیں ہاتھ میں دیے جائیں گے۔ حضرت انس ؓ ارشاد فرماتے ہیں:اعمال نامے سب عرش کے نیچے محفوظ ہیں، جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ ایک خاص ہوا چلائے گا جو اعمال ناموں کو اڑا کر (حسب اعمال) انھیں لوگوں کے دائیں یا بائیں ہاتھ میں پہنچا دے گی۔
میدان محشر میں کوئی ظالم بچ کر نہ جاسکے گا بلکہ اسے ظلم کابدلہ دینا ہی پڑے گا اور وہاں روپیہ پیسہ سے ادائیگی نہ ہوگی بلکہ ظلم اور حق تلفی کے بدلہ میں نیکیاں دی جائیں گی اور جب نیکیاں باقی ہی نہیں رہیں گی تو مظلوم کی برائیاں ظالم پر لاد دی جائیں گی۔ یہ منظر بڑا عبرت ناک اور حسرت ناک ہوگا۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے: جس شخص نے اپنے بھائی کی مالی یا ذاتی کوئی نا انصافی کی ہو تو اس دن کے آنے سے پہلے آج ہی معاف کرالے جب دینار و درہم نہ ہوں گے (کہ ان سے حق چکایا جائے بلکہ) اگر اس کے پاس اعمال صالحہ ہوں گے تو وہ مظلوم اپنے حق کے بقدر نیکیاں لے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں کی تو مظلوم کی برائیاں لے کر اس پر لاد دی جائیں گی۔(بخاری)
ایک اور روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک مرتبہ صحابہؓ سے پوچھا کہ تم مفلس اور قلاش کسے سمجھتے ہو؟ تو صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ ہم میں مفلس تو اسے کہا جاتا ہے جس بے چارے کے پاس درہم اور سامان تعیش کچھ بھی نہ ہو تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا: میری امت میں مفلس وہ ہوگا جو قیامت کے دن نماز، روزہ اورزکوٰۃ (وغیرہ) لے کر آئے گا (مگر) اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی کا مال اڑایا ہوگا اور کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا، تو اس کی نیکیاں اِس کو اور اُس کو بانٹی جائیں گی، پھر جب اس کی نیکیوں کا ذخیرہ حقوق والوں کے حق ختم ہونے سے پہلے ختم ہوجائے گا تو ان کی برائیاں لے کر اس پر ڈال دی جائیں گی اور پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (مسلم)
ابن ماجہ میں ایک عبرت ناک واقعہ ہے لکھا ہے کہ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ جب بعض صحابہ ؓ حبشہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو ایک دن آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا کہ بتاؤ سرزمین حبشہ میں تم نے سب سے حیرت انگیز بات کیا دیکھی؟ تو بعض نوجوان کھڑے ہوئے اور انھوں نے قصہ سنایا کہ ہم ایک مرتبہ حبشہ میں سڑک کے کنارے بیٹھے تھے کہ ہمارے سامنے سے ایک بڑھیا گزری جس نے سر پر ایک مٹکا رکھا تھا، محلہ کے چند شریر لڑکے اس کے پیچھے لگ گئے اور اسے اس زور سے دھکا دیا کہ وہ بے چاری گر پڑی اور اس کا مٹکا پھوٹ گیا تو اس نے شریر لڑکے کو خطا ب کرکے کہا کہ ”اے بدتمیز! یا د رکھ جب اللہ رب العالمین کرسی نصب فرماکر اولین و آخرین کو جمع فرمائے گا اور آدمی کے ہاتھ پیر اپنے کالے کرتوتوں کو خود ہی بیان کردیں گے، اسی دن تو دیکھ لیناکہ میرا اور تیرا معاملہ اللہ رب العالمین کے سامنے کیسا ہوگا؟“ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس نے سچ کہا، اس نے سچ کہا، وہ امت کیسے باعزت ہوسکتی ہے جو اپنے کمزوروں کے لیے طاقت وروں سے مؤاخذہ نہ کرے۔(ابن ماجہ)
ایک حدیث میں ہے کہ بے زکوٰۃ والا میدان محشر میں خطرناک زہریلے اژدہے کی شکل میں آکر اپنے مالک کا پیچھا کرے گا، تاآنکہ اس کے ہاتھ پکڑ کر چبا جائے گا۔ (مسلم)اسی طرح جوشخص ”غلول“ یعنی قومی و ملی مشترک مال میں خیانت کا مرتکب ہوگا، اس کو بھی بڑی رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قرآن کریم میں ہے: اور جو خیانت کرے گا وہ خیانت کردہ چیز لے کر قیامت میں حاضر ہوگا۔ (آل عمران:161)
ایک حدیث میں فرمایا گیا کہ جس شخص نے جس چیز میں خیانت کی ہوگی وہ اسی کو اپنی گردن پر لاد کر میدان محشر میں آئے گا۔ اگر مثلاً اونٹ لیا ہوگا تو وہ گردن پر چڑھ کر آواز نکال رہا ہوگا اور گھوڑا چرایا ہوگا تو وہ سر پر ہنہنا رہا ہوگا، الی آخرہٖ۔ (مسلم) جو لوگ دنیا میں دوسروں کو حقیر سمجھ کر ان کے ساتھ ذلت انگیز برتاؤ کرتے تھے، ایسے متکبرین کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کی اوقات بتادے گا اور سارے عالم کے پیروں تلے روند کر انھیں ذلیل فرمائے گا۔ اس لیے اپنے آپ کو عظیم ذلت سے بچانے کا راستہ صرف یہ ہے کہ ہم اپنی اصلاح کی فکر کریں، تواضع و عاجزی کی زندکی گزاریں اور تکبر کے اثرات سے بھی پوری طرح بچنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تواضع کی دولت سے نوازے اور آخرت کی ذلت اور رسوائی سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
غداری کرنا اور عہد کو توڑنا بھی اسلام میں بدترین گناہ ہے۔ ایسے غدار اور بد عہد لوگوں کو میدان محشر میں سخت رسوائی کاسامنا ہوگا۔ بد عہد کی برسرعام رسوائی اور فضیحت کے لیے اس کے پیچھے ایک علامتی جھنڈا اس کی چھوٹی بڑی غداری کے بقدر لگا دیا جائے گا، جسے دیکھتے ہی لوگ پہچان لیں گے کہ یہ غدار ہے۔ ارشاد نبوی ہے:جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اولین و آخرین کو جمع فرمائے گا تو ہر غدار کے لیے (علامت کے طور پر) الگ جھنڈا لگا دیا جائے گااور کہا جائے گا کہ یہ فلاں کے بیٹے فلاں شخص کی غداری (کی علامت) ہے۔(مسلم)
اس لیے غداری اور عہد شکنی سے بچنا بھی لازم ہے۔ یہ ایسا جرم ہے کہ آخرت میں تو اس کی سزا ہے ہی،دنیا میں بھی غداروں کو ہمیشہ ذلت اور حقارت ہی سے یاد کیا جاتا ہے اور صدیاں گزر نے کے باوجود بھی ان پر لعن طعن کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ غداری اور بدعہدی کسی کے ساتھ جائز نہیں حتی کہ اگر غیر مسلم سے بھی کوئی معاہدہ کرلیا گیا ہے تو اس کی پاس داری بھی لازم ہوتی ہے۔
آخرت کے صحیح تصور پر یقین رکھئے۔ احساس آخرت کے ساتھ زندگی گزارئیے، دنیا میں اگر کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کی ہو تو اسے دنیا میں معاف کرالیجیے۔ اگر آپ کسی ملی و قومی امور کے انچارج و ذمہ دار ہیں تو پاس ِ امانت کااہتمام کیجیے۔ ہر وقت اللہ سے توبہ و استغفار کیجیے۔ لوگوں سے اپنا معاملہ صاف رکھیے۔ اللہ کے حقوق کی ادائیگی میں اگر کوتاہی ہوئی ہو تو اللہ سے توبہ کیجیے۔ آخرت کے انتظار میں توبہ کو نہ ٹالیے۔ آپ کی آخرت تو آپ کی موت کے ساتھ ہی آجائے گی۔ جب تک سانس چل رہی ہے آخرت کی تیاری کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو آخرت میں دوزخ سے نجات عطا فرمائے اور جنت میں مقام عنایت فرمائے۔ آمین!
جواب دیں