موجودہ اُردو ادب کے اہم ستون ظہورالاسلام جاویدسے خصوصی گفتگو

ظہور الا سلام جاوید ایک بڑی پہلو دار شخصیت ہیں،عمدہ شاعر،کامیاب منتظمِ مشاعرہ،پُراثر ناظمِ محفل،دلفریب تبصرہ نگار،خوبصورت کالم نویس کے ساتھ ساتھ ایک بھرپور سماجی شخصیت کے حوالے سے یہ اپنی مثال آپ ہیں۔وہ اپنی دل آویز شخصیت کی بدولت اردو ادب میں وہ مقام حاصل کر چکے ہیں جہاں تک رسائی ہر شاعر کے لئے ممکن نہیں۔یقیناًظہورالاسلام جاوید موجودہ اُردو ادب کے اہم ستون کی حثیت رکھتے ہیں۔ان سے میری پہلی سرسری ملاقات چودہ سال پہلے پاکستان ایسوسی ایشن دبئی میں منعقدہ ایک مشاعرے میں ہوئی،مگر قربت پچھلے پانچ سالوں سے حاصل ہے جو میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ انکا اخلاق،خوش مزاجی ان سے ایک بار ملاقات کر لینے والے کو انہی کا بنا دیتی ہے۔پہلے سماجی و ثقافتی خدمات کے حوالے سے بات کی جائے تو۔۔۔۔۔ ظہورالاسلام جاوید پاکستان سنٹر ابو ظہبی کے منتخب جنرل سیکرٹری کی حثیت سے۳سال پاکستان کے تمام قومی تہواروں پرمتعدد خصوصی تقریبات ،ٹورنامنٹس،مشاعرے، سمینار وغیرہ کا انعقاد بھی کرتے رہے ،جن میں صدر متحدہ عرب امارات شیخ خلیفہ بن زید کے صاحبزادے شیخ سلطان بن خلیفہ کے بدست مبارک پاکستان فیسٹیول کا افتتاح ، تقریبات بہ اعزاز عالمی چیمپین جہانگیر خان، جان شیر خان، ڈاکٹر جاوید اقبال، رضوان صدیقی،جمیل الدین عالی، اصغرسودائی کے علاسہ پریشان خٹک،حنیف محمد،صادق محمداور اقبال بانو،گلشن آرا سید، ثریا ملتانیکرو غیرہ کی غزل گائیکی کی تقاریب شامل ہیں۔جبکہ پاکستان سنٹر العین کے منتخب جنرل سیکرٹری کی حثیت سے بھی ۳سال اور پاکستان انجینئرز کلب ابو ظہبی کے ویلفیئر سیکرٹری کی حثیت سے بھی۲سال بے شمار تقاریب کو عملی شکل دے چکے ہیں۔اب ان سے ادبی پہلو کے حوالے سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔واضح کرتا چلوں کہ اس انٹرویو سے پہلے بھی ظہورالاسلام جاوید کے خصوصی انٹرویوز پی ٹی وی کے پروگرام ’’کیفے ادب‘‘ ،میٹرو ٹی وی کے پروگرام’’ بزم شاعری ‘‘اور ’’سلسلہ تکلم کا‘‘اے آر وائی ٹی وی، روزنامہ جنگ،روزنامہ نوائے وقت،روزنامہ الشرق، خلیج ٹائمز، گلف نیوز کی زینت بن چکے ہیں، لیکن انشاء اللہ تعالی امید ہے کہ یہ ا ن سب سے منفرد رہے گا۔
سوال۔ بیرون ملک روزگار کی مشقت وطن کی نسبت زیادہ اٹھانی پڑتی ہے،ایسے میں فروغ ادب کے لئے کیسے وقت نکال پاتے ہیں؟
جواب۔ اللہ تعالی نے ایسے روزگار کے مواقع عطافرمائے کہ ان ادبی سرگرمیوں کے لئے وقت نکالنا مشکل نہیں رہا،اگر ایسا کہوں تو زیادہ بہتر رہے گا جس کام میں بھی نیت صاف ہو اور حوصلے بلند ہوں تو اللہ تعالی بھی وقت میں برکت ڈال دیتے ہیں۔
سوال۔ پردیس بھی روزگار بھی سماجی مصروفیا ت بھی اور پھر بھرپور ادبی مصروفیات کے ساتھ ساتھ فیملی بھی؟سفر کیسا رہا؟
جواب۔ اللہ کا شکرہے کہ اُس نے مجھے ہمت دی کہ میں تمام معاملات میں متوازن رہوں اور یہ بھی اُس کی خاص عنائت ہے کہ مجھے وہ شریک حیات عطا فرمائی جو میرے قدم سے قدم ملا کر چلتی ہے ۔کبھی زیرِ لب کوئی گلہ نہیں آیا بلکہ مجھے حوصلہ دے کر میری تقویت کا باعث بنتی ہے، میرے پانچ بچے ہیں،ڈاکٹر احمد انعام، اسماء ندیم، ڈاکٹر یاسر انعام اور ربیعہ ذیشان جو خوشگوار ازدواجی رشتوں میں بندھ چکے ہیں،جبکہ ایک بیٹا منصورانعام ہمارے ساتھ ہے جو اللہ کی رضا سے ہمارا سہارا ہے اور ہم اُسکے سہارے ہیں،گویا مجھے کبھی کوئی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا(عاجزی سے)الحمدواللہ
ٓٓسوال۔ آپ کو زمانہ طالب علمی سے ہی قلم سے خاص لگاؤ رہا ،اس حوالے سے کچھ بتائیں؟
جواب ۔ بچپن ہی سے ملنے والے ادبی ماحول کا خاص اثر رہا،پہلی غزل ۱۹۶۶ میں مشہور ادبی رسالے عکسِ لطیف میں شائع ہوئی، ریڈیو پاکستان کراچی کی بزم طلباء میں کئی بارشرکت کی،۶۸۔۱۹۶۷میں ریڈیو پاکستان کراچی کے ہفتہ طلباء کے بین الکلیاتی مشاعرہ میں پہلا انعام حاصل کیا،جامعہ کراچی سندھ مسلم سائنس کالج کراچی اور دیگر اداروں سے انعامات وصول کئے ۔پھر مجھے ٹیکنولوجسٹ رسالے کا ایڈیٹر انچیف بھی مقرر کر دیا گیا۔
سوال۔ کتنی تصانیف شائع ہو چکیں ہیں؟
جواب۔ مجموعہ کلام’’ موسم کا اعتبار نہیں‘‘ ۔۔۔۔۔۔شائع ہوا،جبکہ اپنے والد محترم انعام گوالیاری کے نعتیہ مجموعہ کلام ’’سب اچھا کہیں جسے‘‘اور مجموعہ کلام’’نغمہ زیر لب‘‘ کے علاوہ مظہر گوالیاری کے مجموعہ کلام ’’فروزاں ہیں چراغ آرزو‘‘کی ترتیب و تدوین بھی کر چکا ہوں۔
سوال۔ شعبہ صحافت میں بھی طبع آزمائی کی؟
جواب۔ جی۔ الحمدواللہ ،شعبہ صحافت کے حوالے سے جنگ اور مشرق سے منسلک رہا اوراب یونیورسل اُردو پوسٹ کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے حثیت سے منسلک ہوں۔روزنامہ اُردو ایکسپرس، روزنامہ الشرق میں کالم نگاری بھی کرتا رہا جو بعدازاں میری بڑھتی ہوئی ادبی مصروفیات کی نذر ہو گئی۔۔ہاں ایک اور بات۔۔۔ کہ میری ادارت میں امارات کا پہلا اُردو رسالہ ۱۹۸۰’’ لالہ صحرا‘‘شائع ہوا تھا جو بہت مقبول ہوآسوال۔ حلقہ اُردو ادب میں آپ کے زیر اہتمام عالمی اور بڑے اُردو مشاعرے کا تذکرہ عام ہے ، اُسکے انعقاد بارے کچھ بتائیں؟
جواب۔ اب تک دس عالمی مشاعرے منعقد ہو چکے ہیں۔ جن میں عالمی اردو مشاعرہ مئی۲۰۰۲ ابوظہبی، عالمی اردو مشاعرہ مئی۲۰۰۳ ابوظہبی،عالمی اردو مشاعرہ مئی۲۰۰۴ ابوظہبی،عالمی اردو مشاعرہ مئی۲۰۰۹ ابوظہبی،عالمی اردو مشاعرہ مئی۲۰۱۰ ابوظہبی،عالمی اردو مشاعرہ مئی ۲۰۱۱ ابوظہبی،عالمی اردو مشاعرہ مارچ ۲۰۱۲ ابوظہبی، عالمی اردو مشاعرہ مارچ۲۰۱۳ ابوظہبی، عالمی اردو مشاعرہ مارچ۲۰۱۴ ابوظہبی،عالمی اردو مشاعرہ ۲۰۱۵ ابوظہبی شامل ہیں اور اس کے علاوہ بزمِ شعرو ادب الامارات کے تحت مشاعرہ ۱۹۸۶ ابوظہبی، مشاعرہ ۱۱۹۸۶لعین اور مشاعرہ ۱۹۸۶دبئی کے انتظامی امور میں شامل تھا۔اور یہ اللہ کاخاص کرم ہے ہر مشاعرہ ہی کامیاب اور یادگار رہا ہے۔
سوال۔ آپ نے جشنیہ مشاعروں کے حوالے سے تو بتایا ہی نہیں؟
جواب۔ ان جشنیہ مشاعروں کا بانی سلیم جعفری تھے جنکا خیال تھا کہ شاعر کو اُس کی زندگی میں سراہنا چاہیے اِسی لئے انہوں نے جشنیہ مشاعروں کا آغاز کیا سلیم جعفری دبئی میں یہ مشاعرے منعقد کرتے تھے اور ابوظہبی اور العین میں میں منصور جاوید ،نجم جعفری ،مستان شریف، ڈاکٹر رشید رانا اور اعجاز یوسف شامل تھے۔ان جشنیہ مشاعروں میں میری بحثیت شاعر و منتظم اعلی شرکت رہی۔،ان مشاعروں میں جشن خمار،۱۹۸۷،جشن فراز۱۹۸۸،جشن سحر ابو ظہبی ۱۹۸۹،جشن جون ایلیا۱۹۹۰،جشن مجروح ۱۹۹۱،جشن غزل و غزال ۱۹۹۱،جشن قتیل شفائی۱۹۹۲،جشن جگن ناتھ آزاد۳ ۱۹۹،جشن محشر ۱۹۹۴،جشن کیفی ۱۹۹۵،جشن پیر زادہ قاسم۱۹۹۶،جشن علی سردار جعفری ۱۹۹۷شامل ہیں۔
سوال۔ ملکی و غیر ملکی مشاعروں میں خصوصی شرکت بھی رہی ہو گی؟
جواب۔ جی الحمداللہ۔اُسکی فہرست تو بہت طویل ہے ۔مختصراً قطر، سعودیہ، لندن، امریکہ، کراچی، لاہور، بحرین، دبئی،شارجہ، راس الخیمہ اور العین کے کئی معروف و عالمی تنظیموں میں بحثیت صدرِ محفل ،مہمان خصوصی کے شرکت میرے لئے اعزاز رہا ہے۔
سوال۔ آپ تک کتنے اعزازات حاصل کر چکے ہیں؟
جواب۔ اللہ کے فضل سے،نمایاں اعزازات میں، دبئی میں نوائے وقت کی جانب سے مجید نظامی ایوارڈ، انجمن فروغ اُردو ادب دوحہ، قطر کی جانب سے ۱۹۹۴ میں اعزازی شیلڈ، اُردو مرکز جدہ کی جانب سے اعزازی شیلڈ، اُردو اکیڈمی لندن کی جانب سے اعزازی شیلڈ،انجمن فروغ اُردو ادب دوحہ، قطر کی جانب سے۲۰۱۴ میں اعزازی شیلڈ، سوشل سنٹر شارجہ کی جانب سے اعزازی شیلڈ،پاکستان ایسوسی ایشن دبئی کی جانب سے جشن پاکستان ایوارڈ وغیرہشامل ہیں
سوال۔ ادب اور زندگی کے بارے میں آپکا کیا نظریہ رکھتے ہیں؟
جواب۔ ادب اور زندگی دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔
ٓسوال۔ آپکے نزدیک بڑے شاعریکی کیا تعریف ہے؟
جواب۔ پہلے زمانے میں بڑا شاعر اپنی شاعری، علمیت اور قابلیت کے بل بوتے پراپنے آپ کو منواتا تھا،مگر آج اپنے آپ کو اچھا اور بڑا شاعر منوانے کے لئے پبلک ریلیشن کا سہرا لینا پڑتا ہے ،جبکہ آج کے دور میں بھی بڑے قابل ، عالم اوربہترین شاعر موجود ہیں جو اُردو ادب کے لئے ایک سرمایہ ہیں،مگر وہ پس منظر میں ہیں کہ انکی کوئی انجمنِ تحسینِ باہمی نہیں ہے۔
سوال۔ ادب برائے ادب ہونا چاہیے یا ادب برائے اصلاح؟
جواب۔ ادب برائے زندگی ہو تو ،ادب برائے ادب اور ادب برائے اصلاح دونوں کا حصول ناممکن نہیں۔
سوال۔ شاعری میں مقصدیت سے کیا مراد ہے؟جدید غزل یا جدید شاعری کیا ہوتی ہے؟
جواب۔ جیسے اقبال کی شاعری کی مقصدیت مسلم امہ کی بیداری جبکہ غالب کی شاعری کی مقصدیت خالصتاً شاعری ہی تھا۔آج کے حالات کی شاعری کی مقصدیت میں شاعر اپنے غزل میں حالات کا مرثیہ لکھتا ہے اور وہی مقصدیت بن جاتی ہے،کیونکہ گُل و بلبل کے افسانے موجودہ دور کے شاعری سے مناسبت نہیں رکھتے۔۔کیوں کیا خیال ہے تمہارا؟
سوال۔ کیا آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی شعرو ادب کی کوئی اہمیت باقی ہے؟
جواب۔ شاعری آج بھی بہت اہم میڈیم کی حثیت رکھتی ہے۔شاعری میں معاشرے کو بدلنے کی طاقت وہی ہے جو پہلے تھی۔مگر معاشرے کی اصلاح کے لئے شاعری میں وہ سوچ وہ الفاظ ہونا بھی ضروری ہیں
سوال۔ سوشل میڈیا کو شاعری اور ادب کے حوالے سے کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب۔ شعر و ادب کے حوالے سے سوشل میڈیا کا استعمال سے دونوں مثبت اور منفی پہلو دیکھنے کو مل رہے ہیں۔بڑی توانا اور تندرست آوازیں بھی سامنے آ رہی ہیں جو بے ساختہ داد دینے پر مجبور کر دیتے ہیں،جن تک رسائی اتنی آسانی سے شاید سوشل میڈیا کے بغیر مشکل تھی۔مگر کچھ تُک بندی میں بھی اپنا دل بہلاتے نظر آ رہے ہیں انکے احباب انکی واہ واہ کرتے نہیں تھکتے ۔
سوال۔ قدیم و جدید شعراء میں آپ کن سے متاثر ہیں؟
جواب۔ علامہ اقبال،غالب ،میر بہت بڑے شاعر تھے۔مگر۔۔۔۔(پھر تھورا سوچ کر مسکرائے اور کہا ) جدید شعراء کے حوالے سے کچھ کہنے سے اجتناب بہتر ہے،کیونکہ احباب فوراً ہی کسی گروپ سے منسلک کر دیتے ہیں۔ 
سوال۔ متحدہ عرب امارت میں اردو شعر و ادب کے بارے آپ کے کیا تاثرات ہیں؟اور کون اس حوالے سے اپنی بے لوث خدمات پیش کر رہے ہیں؟
جواب۔ امارات کی ادبی تاریخ میں سلیم جعفری، اظہار حیدر ،ڈاکٹر زیدی،،منصور جاوید، غلام حنانی،مستان شریف ، ڈاکٹر رشید رانا،رشید منظر، حبیب عثمانی مرحوم، اکرام لحق شوق وغیرہ کے نمایاں ہیں جبکہ دور حاضر میں صلاح الدین، ریحان خان، طارق رحمان اور طاہر زیدی نے فروغِ اُردو ادب کا پرچم بلند کیا ہوا ہے

سوال۔ نئے آنے والے شعراء کے لئے پیغام؟
جواب۔ بس اتنا ضرور کہوں کہ مطالعہ اور بس مطالعہ ۔۔۔کیونکہ اچھا شاعر بننے کے لئے مطالعہ بہت ضروری ہے،کیونکہ مطالعے سے لفظوں کی نشست و برخاست کا علم ہوتا ہے۔ اور مطالعے سے ذہن کے پردے کھلے ہیں ، اور شاعری میں نئے خیالات جنم لیتے ہیں اور یہ سب کچھ انٹرنیٹ پر وقت صرف کرنے سے حاصل نہیں ہوتا
اختتام پر یہ ذکر لازم چاہوں گا کہ۔۔۔۔ ظہورالاسلام جاوید صاحب کی ادبی خدمات کا اعتراف ہر سطح پر ہوتا رہتا ہے مگر اس بار عالمی اُردو مشاعرہ ابوظہبی ۲۰۱۵ میں مقررین نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں ادبی خدمات کے اعتراف میں پاکستان کے سب سے بڑے سول ایوارڈ ’’ستارہ امتیاز‘‘ سے نوازا جائے،جبکہ محفل کے مہمان خصوصی سفیرپاکستان آصف درانی نے اپنے خطاب میں بھی اسکی تائید کی اور یہ یقین بھی دلایا کہ اس حوالے سے عملی اقدامات کرتے ہوئے جلدسفارشات اسلام آباد ارسال کی جائیں گی،ہماری دعا ہے ،ظہورالاسلام جاوید کو اس اعزاز سے نوازا جائے جسکا وہ یقیناًحق رکھتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے