انہوں نے اس کا پوری طرح اندازہ کرلیا تھا کہ ہندوستان پر سیکڑوں برس سے مغل بادشاہ حکومت کررہے تھے اور ہندوستان کے باشندے وہ مسلمان ہوں یا ہندو اس حکومت کے کاموں میں ہاتھ بٹا رہے تھے۔ اور اگر کہیں کسی نے مخالفت میں سر اُٹھایا تو اسے دبانے میں انگریزوں کے ساتھ ساتھ ہندوستانی بھی تھے۔
یہی وجہ تھی کہ انگریزوں نے پورے ملک کو کنٹرول کرنے کے لئے ایک ویسرائے اور ہر صوبہ کو کنٹرول کرنے کے لئے ایک ایک گورنر اور ہر ضلع کو قابو میں رکھنے کے لئے ایک کلکٹر تو انگریز بنائے اور ان کے مددگار سب کے سب ہندوستانی بنائے گئے اور انہوں نے اپنے بہت کم آدمیوں کے باوجود اتنے بڑے ملک پر 100 سال کے قریب حکومت کی۔
انگریزوں نے اس کا بھی خیال رکھا کہ پورا ملک کھانے، پینے، پہننے، لکھنے، پڑھنے غرض کہ ہر چیز میں ان کا محتاج رہے اور انہیں ہر وقت یہ خیال رہے کہ اگر انگریز چلے گئے تو ہمارا کیا ہوگا؟ آج جو نظام حکومت ہے وہ اوپر سے نیچے تک انگریزوں کا بنایا ہوا ہے۔ ہمیں یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ صرف عہدوں کے نام ہندی میں کرکے یہ سمجھ لیا کہ ہم نے نظام حکومت بدل دیا۔ وزیر اعظم کو پردھان منتری، وزیر اعلیٰ کو مکھیا منتری، گورنر کو راج پال، ڈی ایم کو ضلع دھیش اور پٹواری کو لیکھ پال لیکن نظام پورے کا پورا وہی رکھا جو انگریزوں نے بنایا تھا اور اس کے ذمہ دار وہ پنڈت نہرو تھے جنہوں نے ہندوستان کا پہلا گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن کو بتا دیا تھا جو انگریزوں سے اتنے مرعوب تھے کہ وہ سوچتے انگریزی میں تھے اور تقریر ہندوستانی میں کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ ہم ایک بہت بڑا ملک ہیں زبردست یا ہمارے ملک کی سرحدیں ہیں زبردست انہوں نے ہی پورے کا پورا نظام وہی رکھ لیا جیسا انگریزوں نے اپنی مجبوری میں بنایا تھا۔
آج صوبہ کا وزیر اعلیٰ ہو یا مرکز کا وزیر اعظم اس سرکاری رپورٹ کے پابند ہیں جو اُن کے پاس پٹواری سے ہوتے ہوئے اور سکریٹریوں کی مہر لگتے لگتے مرکزی یا صوبائی حکومت کے پاس آئے۔ پورے ملک میں شور ہے کہ فصل کی بربادی سے کسان خودکشی کررہا ہے اور یہ کہ کسانوں کو ان کی فصل کی تباہی کا معاوضہ نہیں مل رہا اور حکومت کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ ڈیڑھ گنا منعاوضہ دینے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ مودی حکومت نے کہا ہے کہ 33 فیصدی فصل کی بربادی کا بھی معاوضہ دیا جارہا ہے۔
راجستھان کے ایک تعلیم یافتہ اور سیاسی شعور رکھنے والے کسان گجیندر نے خودکشی کرکے پورے ملک کو ہلا دیا ہے۔ اس نے اس لئے خودکشی کی کہ اس کے گاؤں میں بربادی کا معاوضہ نہیں ملا۔ اہم بات یہ ہے کہ صوبہ میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے اور مرکز میں بھی۔ لیکن گجیندر سماجوادی پارٹی سے متعلق تھا اس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑچکا تھا اور ممکن ہے کہ اس کی وجہ سے اس کا پورا گاؤں اس کے ساتھ ہو۔ اور اس گاؤں کو اسی کی سزا دی گئی ہو؟ کل ٹی وی پر اس گاؤں کو دکھایا گیا تھا اور وہ مکالمہ بھی سنایا گیا تھا کہ برباد فصل کا معاوضہ نہیں ملا۔ لیکھ پال بھی موجود تھا اس نے جواب دیا کہ جتنا نقصان ہوا تھا اس کا معاوضہ دے دیا گیا۔ یہ بحث اس وقت ہورہی تھی جب زمین صاف ہوچکی تھی اور صرف وہ ثبوت رہ گیا تھا جو لیکھ پال کی کھتونی میں لکھا ہے۔ یہ نہروجی کا عطیہ ہے کہ اس لیکھ پال کی رپورٹ کو صدر جمہوریہ بھی نہیں کاٹ سکتے۔
یاد ہوگا کہ ہم نے ایک ہفتہ پہلے لکھا تھا کہ اب خودکشی کا دوسرا دَور اس وقت شروع ہوگا جب کسان معاوضہ کا انتظار کررہے ہوں گے اور انہیں بتایا جائے گا کہ تمہاری فصل 33 فیصدی نہیں صرف 30 فیصدی برباد ہوئی ہے۔ اور فیصلہ لیکھ پال کی رپورٹ کرے گی۔ دہلی میں گجیندر کی موت اسی نظام کا نتیجہ ہے۔ اس سے زیادہ کلیجہ پھاڑ دینے والا وہ نظام ہے جو یہ فیصلہ کرتا ہے کہ موت نہ فصل کی بربادی کے صدمہ سے ہوئی، نہ اس نے خودکشی کی بلکہ بیماری سے مرا اور معاوضہ کے لئے فصل کو بہانہ بنادیا۔
آج کے اودھ نامہ کے ہی صفحہ چار پر ایک چھوٹی سی خبر ہے کہ بھلے ہی ان اموات کو فصل کی بربادی کا نتیجہ بتایا جارہا ہو لیکن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہیں اب تک 22 کسانوں کی موت کی خبر ملی ہے لیکن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ 6 کسان کافی ضعیف تھے ان کی فطری موت ہوئی۔ 14 کسانوں کی موت بیماری سے ہوئی ہے۔ اور دو کسانوں کی موت زیادہ نشہ کرنے سے ہوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بارش کی خبر جھوٹ، اولوں کی خبر فریب اور فصلوں کی بربادی کی خبر کسانوں کا افسانہ۔ ملک میں سب کچھ ٹھیک ہے۔
یہی وہ سبق ہے جو انگریزوں سے پنڈت نہرو نے پڑھا تھا لیکن پنڈت جی نے یہ نہیں سوچا کہ انگریز حکومت کی انتظامیہ اس طرح کا برتاؤ اس لئے کرتی تھی کہ جو روپئے کسان کو دیئے جاتے وہ انگریزوں کے خزانے سے جاتے۔ آج جو روپیہ جائے گا وہ ان کسانوں کا ہی ہے اور ہم سب ہندوستانیوں کا ہے جو ہر چیز پر ٹیکس دیتے ہیں۔ اسے نہرو نے اپنا سمجھا یا سونیا نے اپنا سمجھا یا اب مودی اپنا سمجھ رہے ہیں تو بے رحم، بے شرم اور سنگ دل ہیں۔
2014ء سے الیکشن میں شری مودی نے جو تقریریں کیں ان میں دل کھول کر جھوٹ بولا۔ وہ جھوٹ ووٹ کے لئے تھا۔ لیکن انہوں نے حکومت کے نظام کو بدلنے کا بھی پرزور طریقہ سے یقین دلایا تھا۔ اسے سن کر ہم سمجھ رہے تھے کہ وہ شاید حکومت کے طرز کو بدلیں گے۔ یہ خیال اس لئے تھا کہ وہ نہرو کی طرح انگریزوں کے پڑھائے ہوئے نہیں ہیں اور ان کی جڑیں سنگھ پریوار میں ہیں اس لئے وہ ایسی حکومت کریں گے جسے پوری طرح دیسی کہا جائے۔ لیکن اسے کیا کیا جائے کہ وہ بھی جب اس کرسی پر بیٹھے تو انگریزوں کے سارے جراثیم اُن کو لپٹ گئے۔ اور انہیں اب اپنا دیش اور اپنے دیش کے وہ لوگ بھی اچھے نہیں لگتے جو انہیں دیکھتے ہی مودی مودی مودی کے نعرے لگانے لگتے تھے۔ اب انہیں وہ ہندوستانی اچھے لگتے ہیں جو دوسرے ملکوں میں آباد ہیں اور وہ دیکھتے ہی مودی مودی مودی کہہ کر آسمان سر پر اُٹھالیتے ہیں۔
نہرو کے زمانہ میں ڈاکٹر لوہیا چوکھمباراج کا نعرہ دیا کرتے تھے مگر ہندوستان کی بدنصیبی یہ ہے کہ اس کے بیٹوں نے نہرو کو بھی انگریزوں کی طرح ملک کا بادشاہ سمجھ لیا اور نہ جے پرکاش نرائن کی بات سنی نہ ڈاکٹر لوہیا کی اور نہ آچاریہ کرپلانی کی جو نظامِ حکومت کو پوری طرح بدلنا چاہتے تھے۔ اس کے بعد کوئی نہ ایسا وزیر اعظم ہوا جس کے پاس اتنی طاقت ہو اور نہ ایسی پارٹی آئی۔ 67 برس کے بعد آر ایس ایس اور ہندوتو نے بی جے پی کو اتنی طاقت دے دی کہ ملک کو جیسا چاہو بنادو۔ اس کے بعد بھی رگ قدرت کی مار سے برباد ہونے والے کسان خودکشی کررہے ہیں تو حکومت کے کتّے بلّیاں اور چوہے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ زیادہ نشہ کرنے سے مرگئے۔
کس سے کہیں کہ اقبالؒ جو کہہ گئے تھے اس پر عمل کرنے کا اس سے زیادہ صحیح وقت اور کوئی نہیں تھا اور نہ ہے کہ
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ، گندم کو جلادو
حکومت کہتی ہے کہ کسان کو فصل کے بیمہ کی رقم مل رہی ہے، وہ کہتی ہے کہ کسان بینک سے جتنا چاہے قرض لے سکتا ہے۔ مودی نے بغیر ایک پیسہ دیئے بینک اکاؤنٹ کھلواکر اپنے نزدیک انقلاب کردیا تھا۔ لیکن نہ کہیں سے بیمہ کی رقم کی تصدیق ہورہی ہے نہ بینک سے قرض مل رہا ہے پھوکٹ کے بینک اکاؤنٹ کی حقیقت بھی سامنے آگئی اور کسان کی خودکشی کو بے رحم لیڈر بتا رہے ہیں کہ یہ پرانی بیماری ہے۔ یعنی کانگریس کی حکومت میں بھی کسان خودکشی کرتے تھے تو اب کون سی نئی بات ہوگئی۔ پارلیمنٹ میں حزب مخالف کی طرف سے صرف شور ہورہا ہے۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ کے گھر پر احتجاج ہورہا ہے یہ اس لئے نہیں کہ تم غلط کررہے ہو۔ بلکہ اس لئے کہ تم نے ہمیں ہرایا کیوں؟ آج مودی حکومت میں کیا کوئی ایسا نہیں ہے کہ ایک نئے ہندوستان کا نقشہ بنائے؟ اور انگریزی نظام جو نہرو کی بدولت ہندوستانیوں کو غلاموں کی طرح دیکھ رہا ہے اسے بدلوادے۔ انتظامیہ کے بے رحم نظام کو جوتے مارکر ختم کرادے اور لیکھ پال کی حکمرانی سے کسان کو نجات دلادے؟ شاید نہیں ہے اور کوئی ہو بھی تو جیسے 1947 ء میں حکومت نہرو کی تھی ایسے ہی آج مودی کی ہے۔
جواب دیں