سینکڑوں مساجد مصلیان کی منتظر‘ برسوں سے نہ اذان گونجی نہ نماز کا اہتمام بابری مسجد جیسے انجام سے بچنا ہو تو مساجد کو ہر حال میں آباد رکھیں تحریر:سید فاروق احمد سید علی المیہ یہ ہے کہ نسل کشی کے باوجودمسلمان ہوش میں آنے تیارنہیں ہیں، آزادی کے70سالوں کے تلخ تجربات اورخونچکاں حالات سے […]
آخر کیوں کچوکے نہیں لگتے دیکھ کر مساجد کی ویرانیاں؟
سینکڑوں مساجد مصلیان کی منتظر‘ برسوں سے نہ اذان گونجی نہ نماز کا اہتمام
بابری مسجد جیسے انجام سے بچنا ہو تو مساجد کو ہر حال میں آباد رکھیں
تحریر:سید فاروق احمد سید علی
المیہ یہ ہے کہ نسل کشی کے باوجودمسلمان ہوش میں آنے تیارنہیں ہیں، آزادی کے70سالوں کے تلخ تجربات اورخونچکاں حالات سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا،غفلت اوربے دینی میں مبتلاہونے کاہی نتیجہ ہے کہ اجودھیاکی بابری مسجد ہاتھ سے چلی گئی، ملک میں ایسی ہزاروں مساجد ہیں جو ہمہ منزلہ عمارتوں،سرکاری محکمہ جات کے دفاتر اورگارڈن بنادی گئی ہیں،ان مساجد کوبابری مسجد کی طرح شہید کرکے قبضہ میں نہیں لیاگیاہے،بلکہ یہ ساری مساجد محض اس لئے چھینی گئیں کیونکہ ان مساجدمیں پابندی سے نمازوں کااہتمام نہیں ہوتاتھا، یہ ویران مساجد مصلیان کامہینوں انتظار کرتی تھیں، ان مساجد کونمازوں سے آباد رکھنے کے بجائے مقامی مسلمان بازاروں اورہوٹلوں کی رونق بنے رہے، گھروں میں میٹھی نیندسونے کوترجیح دیتے رہے، ایسی کئی مساجد بھی ہیں جہاں آج بھی اذان تک نہیں دی جاتی ہے، اذان کی آواز سننے کے باوجود مسلمان مسجد کارخ نہیں کرتے ہیں، ایسی مساجد جن کی ویرانی مسلمانوں پر کوئی اثرنہیں کرتی،مسلمانوں کوہی احساس نہیں ہے تو حکومت اوردیگرمذاہب کے شرپسند عناصرمساجد کی ویرانی کوکیونکر محسوس کر سکتے ہیں؟مصلیان کے لئے ترستی ان خالی ویران مساجدپرقبضہ ہونا توفطری امرہے، تشویش کی بات ہے کہ اورنگ آبادمیں بھی ہی درجنوں ایسی مساجد ہیں جوگذشتہ کئی دہائیوں سے ویران ہیں، برسوں سے وہاں نہ اذان کی آواز گونجی اورنہ باجماعت نماز اداکی گئی،ہرسول جیل کے عقبی حصہ اوربسئیے نگر کے علاوہ یونیورسٹی احاطہ میں بھی متعدد قدیم تاریخی مساجدویران پڑی ہیں، کئی مسجدیں عدم توجہی کے سبب کھنڈر میں تبدیل ہوچکی ہیں، اگرہم مساجد کے عادی نہیں ہوں گے، نمازوں کے اہتمام نہیں کریں گے تو ظاہرہے مساجد پراشرار کے ناجائز قبضہ جات اورمسجدیں شہید ہونے کاسلسلہ کوئی نہیں روک سکے گا، یہ تو نے ہند کی حرمت کے آئینے کو توڑا ہے خبر بھی ہے تجھے مسجد کا گنبد توڑنے والے ہمارے دل کو توڑا ہے امارت کو نہیں توڑا خباثت کی بھی حد ہوتی ہے حد توڑنے والے 6دسمبر ہر سال آتا ہے اور ہماری بے حسی اور تعصب سے بھرے ماحول میں ہمیں بابری مسجد کی شہادت کے المناک واقعہ کے ساتھ ہندوستان میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی اور فاشزم اور حکومت کی مشنری میں محدود پیمانے پر سہی لیکن ہر سطح (وزراء سے لے کر ایک پولیس کانسٹبل تک) پر پائے جانے والے تعصب اور مسلم دشمنی سے صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ پوری قوم اور ملک کو لاحق خطرات سے آگاہ کرتا ہے گو کہ بابری مسجد کی شہادت کے کلیدی مجرم نرسمہا راو جیسا فرقہ پرست، مسلم دشمن اور نااہل شخص نہ وزیراعظم بنا ہے اورنہ ہی بن سکے گا۔ سیکولرازم کا دم بھرنے والی تمام جماعتوں کانگریس اور سنگھ پریوار دونوں ہی بابری مسجد کی شہادت کے جرم میں برابر کی شریک ہیں۔ مجھے آپ سے یہ تمام باتیں کرکے گڑے مردے اکھاڑنا، یا زخموں کو ہرا کرنا نہیں ہے بلکہ ماضی سے سبق لینے کیلئے بابری مسجد جیسے سانحہ کا ذکراور اپنے اآپ کی اصلاح کرنا ہے۔بابری مسجد کو کس نیاور کب ڈھایایہ تو آپ کو اچھی طرح پتہ ہے لیکن کیا اآپ نے کبھی یہ سوچنے کی کوشش کی کہ آخربابری مسجد کو کیوں ڈھایا گیا،پاکستان کی لال مسجد پر کیوں حملہ کیا گیا،حیدراآباد کی مکہ مسجد پر بم حملے کروائے گئے۔۔۔؟؟ آخر کیا وجہ ہے اس کے پیچھے۔۔۔ میرا ناقص علم جہاں تک کہتا ہے مجھے ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل مسجد اقصیٰ کو ڈھانے سے قبل پوری دنیا کے چنندہ اور خاص مساجد کو شہید یا نقصان پہنچاکر یہ جاننے کی کوشش میں لگا ہوا ہے کہ جب وہ مسجد اقصیٰ پر حملہ کریں گے تو اس کا رد عملReactionکیا ظاہر ہوتا ہے۔ دراصل مسلم ممالک اسرائیل کی سرپرستی کرنے والے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو تاوان ادا کرتے رہے مگر اسرائیل سے متعلق ان کی پالیسیوں میں تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اسرائیل کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے والے ممالک میں انتشار پیدا کردیا گیا اور جنہوں نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف پوری جراآت کے ساتھ اپنے موقف کا اظہار کیا تھا ان قائدین کو کسی نہ کسی بہانے سے یا تو صفِ ہستی سے مٹا دیا گیا یا پھر ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔ اسرائیل کے خلاف آواز اٹھانے والے صحافیوں،
انسانی حقوق کے علمبرداروں کو نشانہ بنایا گیا اور ان کا جینا حرام کردیا گیا۔ اس طرح سے حق کی آواز کو دبانے کی کوششیں جاری ہے۔ عالمِ اسلام اسرائیل کوقبلہ اول کی بے حرمتی، تقدس کی پامالی اْسے شہید کرنے کی کسی بھی کوشش کے خلاف خبردار کرتا رہا اور اسرائیل عالمِ اسلام کے کٹ پتلی سربراہوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی مشن کی تکمیل میں لگا ہوا ہے جو خبریں مختلف ذرائع اور وسائل سے افشاء ہورہی ہیں اس کے مطابق مسجد اقصیٰ کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا جاچکا ہے اْس میں ایسے کیمیاء مادے کو استعمال کیا جارہا ہے جس سے یہ بوسیدہ اور شکستہ ہونے لگی ہیں اب ایک مصنوعی زلزلہ کے ذریعہ قبلہِ اول کو شہید کرنے کی سازش پر بس عمل کیا جانا باقی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ان دنوں ہارپ ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے مصنوعی زلزلے، مصنوعی سونامی، مصنوعی خشک سالی کے کامیاب تجربے کرچکے ہیں۔ جاپان میں مصنوعی سونامی اور زلزلوں کے ذریعہ نیوکلیئر ریاکٹرس کو ناکارہ کردیا گیا۔ مسجد اقصیٰ کی شہادت پر عالمِ اسلام کاردّعمل کیا ہوگا یہ جاننے کے لئے موساد نے اسلام دشمن طاقتوں اور تنظیموں کے اشتراک اور تعاون سے بابری مسجد کو شہید کیا جسے کہا جاتا ہے کہ یہ دراصل قبلہ اول کی شہادت کا ریہرسل ہے۔ اسرائیل امریکہ اور ہندوستان میں موجود ان کی الہ کار اسلام دشمن تنظیمیں حکومتوں، سرکاری اداروں، انٹلی جنس، پولیس میں ان کے ہم خیال افراد نے بابری مسجد کی شہادت کے ساتھ مسلمانوں کے ردِ عمل کو روکنے اور ان کی طاقت کو منتشر کرنے کا غیر معمولی مظاہرہ کیا۔ بابری مسجد کی شہادت پر ہر مسلمان غم و غصہ سے اپنے آپے سے باہر ہوچکا تھا اگر وہ اپنے غصہ کا اظہار کرتا تو شاید ہندوستان کی تاریخ مکمل طور پر بدل جاتی مگر منصوبہ بند طریقہ سے شہادت کے فوری بعد میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے سب سے پہلے مسلمانوں کو مسلم قیادت سے بدظن کیا گیا۔ مسلمانوں کے سرکردہ قائدین کو ملت کے سوداگر قرار دیتے ہوئے عام مسلمانوں کی نظروں سے گرا دیا گیا جس کی وجہ سے کروڑوں مسلمان جو اللہ کے گھر کی شہادت کا منہ توڑ جواب دے سکتے تھے وہ بکھر گئے، ان کا جوش اور ولولہ، مایوسی اور بے بسی میں بدل گیا۔ بابری مسجد شاید شہید نہیں ہوتی اگر چند بدبخت اپنے سیاسی مقاصد کے لئے اس کا استحصال نہ کرتے۔۲۲ برس ہوگئے اس سانحہ کو ہر بار۶آدسمبر کو ہم میں سے کچھ غیرت مند اور ایمان کے اآخری درجے میں اپنے غم کو بڑے ہی اہتمام کے ساتھ کالے کپڑے پہن کر اور کالے فتیہ لگا کربابری مسجد کا غم مناتے ہیں کچھ تنظیمیں اور پارٹیاں جلسے اور جلوس کو لے کر دھرنے دیتی ہیں اور میمورنڈم کے ذریعہ اپنی بات کو حکومت ہند تک پہنچاتے ہیں۔اوراآج ہم اس شہادت کی ۲۲ویں برسی منائیں گے مگر کچھ حاصل نہیں ہوگا حکومت پر جوں تک نہیں رینگے گی۔ فرقہ پرستی اور تعصب پسندی ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں اپنے عروج پر ہے۔ہم اتنے سارے ہو کر بھی پچھلے ۲۰آسالوں سیایک مسجد کو دوبارہ اس کے مقام پر کھڑا نہیں کرسکے۔اآخر کیا وجہ ہے کہ ہم ہمارے جائز اور حق والے مسائل کو حل نہیں کر واپاررہے ہیں کیو ں ہمارا حق ہمیں نہیں ملتا ہے اآخرکیوں پوری دنیا میں ہمیں گیہوں میں موجود کیڑوں کی طرح مسل کر رکھ دیا جارہا ہے۔۔۔ افسوس ہے ایسی زندگی پر۔۔۔۔۔افسوس۔۔۔۔ صد افسوس۔۔۔۔اآئییپیارے قارئین کرام مکمل ہی نہ سہی مگرکچھ غور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟اآپ ذرا غورکریں کہ آج کے مسلمانوں کی اکثریت وہ ہیں جو رمضان کے مہینے میں پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں۔ وہ روزے رکھتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں اور اعتکاف میں بھی بیٹھتے ہیں۔ زکوت بھی رمضان کے مہینے میں دیتے ہیں۔ صاحب ثروت لوگ رمضان میں عمرہ بھی کرتے ہیں۔ مگر جونہی عید کا چاند نظر آتا ہے مسجدیں ویران ہو جاتی ہیں اور یہ مسلمان دنیاوی خرافات میں مگن ہو جاتے ہیں۔اآج کے مسلمان بہت سہل پسند ہو چکے ہیں۔ انہوں نے گناہ معاف کروانے اور جنت میں داخل ہونے کے ایسے آسان راستے تلاش کر لیے ہیں کہ اب انہیں مشقت کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ مسلمان دھوکہ دیتے ہیں، زناکرتے ہیں، زمینوں پر قبضہ کرتے ہیں، صرف جمعہ یا عید کی نماز پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں خدا غفورالرحیم ہے وہ انہیں بخش دے گا۔ کوئی مسجد نبوی میں چالیس نمازیں پڑھ کر سمجھتا ہے کہ گناہوں سے پاک ہو گیا، کوئی خانہ کعبہ کے پرنالہ کے نیچے سے گزر کر سمجھتا ہے اس کے گناہ دھل گئے،کہ اس کو خدا نے معاف کر دیا، کوئی خواجہ غریب نواز کے دربار میں حاضری دے کر سمجھتا ہے اس کی ساری خطائیں بخش دی گئیں۔ اسلام کا اصول تو یہ ہے کہ اس کے گناہ معاف کئے جائیں گے جو دوبارہ گناہ نہیں کرے گا۔ مگر مسلمانوں کی اکثریت اس اصول سے آنکھیں چرائے پھرتی ہے اورسمجھتی ہے کہ خدا کیساتھ مکر کیا جا سکتا ہے۔ ایسے مسلمانوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ جو اس کیساتھ مکر کرتا ہے وہ اس کیساتھ مکر کرتا ہے۔ یعنی جتنا چاہے چکر چلا لو خدا کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ وہی بخشا جائے گا جو دل سے توبہ کرے گا اور آئندہ گناہ نہیں کرے گا۔ زباں سے کہہ بھی دیا لا اِلہٰ الا اللّٰہ تو کیا حاصل دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں اس نفسا نفسی کے دور میں ”اسلام ”آج اپنوں کے بیچ اجنبی بن گیا ہے۔ جس دین کو ساری دنیا کے لوگوں تک پہنچانے کی ذمہ داری ہمیں دی گئی تھی، آج ہم ہی اْس دین سے اجنبی بن گئے ہیں۔ ہر مسلمان پر دین کا اتنا علم سیکھنا لازمی ہے کہ وہ جان سکے کے اْس کے لئے کیا حرام ہے اور کیا حلال۔ صحیح راستہ کیا ہے اور غلط راستہ کیا؟ رب العزت کا خوف دل میں ہو تو ہر بندہ سدھر سکتا ہے، راہِ راست پر آ سکتا ہے، ہم نماز سے دور ہوتے جا رہے ہیں، مسجدیں ویران ہیں، سینما ہال آباد، درس و تبلیغ میں لوگ ناپید مگر موسیقی کے پروگراموں میں ہجوم۔ ایسی اور بہت ساری وجوہات ہیں جو ہمیں دین سے دور کر رہے ہیں۔ آنجہانی بال ٹھاکرے نے مرنے سے چند سال پہلے اپنے روزنامہ سامنا کے سرورق پر ایک چوکھٹے میں دہلی کی جامع مسجدکی تصویر شائع کی جس میں بہت سارے نمازی سجدہ ریز تھے جس کے نیچے لکھا تھا ”اگرہندوستان کا مسلمان اس طرح مسجد کو روزانہ پانچ وقت اآکر حاضری دے گا اور نماز پڑھے گاتووہ دن دور نہیں جب پورے ہندوستان پرہی نہیں دنیا پر ان کا قبضہ ہوگا۔“ایک مردود اسلام دشمن نے اس طرح کے جملے کہہ کر ہمارا سر شرم سے جھکا دیا ہے مگر ہم بے غیرت اوربے شرم مسلمانوں کو ذرا سی بھی شرم اور جھجک نہیں کہ وہ کیا کہنا چاہتا تھا اور ہم کیا کررہے ہیں۔روزانہ ویران مسجدیں، سسکتیوضوخانے،خالی خالی صفیں،اللہ سیپوچھ رہی ہیں!رمضان ختم ھوگیاہے؟ یا مسلمان……..؟ کبھی ذرا فجر میں ہمارے شہر کی کچھ مسجدوں کا حال دیکھیں ایسا لگتا ہے امام صاحب، موذن صاحب کے علاوہ کچھ ضعیف حضرات نے فجر کی نماز پڑھنے کا ٹھیکا لے رکھا ہے۔ اور دوسری نمازوں کا حال بھی کچھ اچھا نہیں ہے شرما شرمی میں ایک دوسرے کو دیکھ کر دنیا والوں کی نظر میں عزت کی خاطر کچھ کچھ نمازوں میں حاضر ہوجاتے ہیں۔بابری مسجد شہید ہونے کے پس منظر میں ایودھیا کے کچھ حضرات کا کہنا تھا کہ مسجد کئی سالوں سے خالی پڑی ہوئی تھی کوئی نماز کے لئے نہیں اآتا تھا بس ایک حضرت تھے جو روزآنہ اپنی پنج وقتہ نماز ادا کیا کرتے تھے۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔ وہ تمام حضرات کا کہنا تھا کہ اگر ہندوستان کی دوسری مسجدوں کونمازوں سے آباد نہیں کیا گیا تو وہ دن دور نہیں کہ غیر دوسری مسجدوں کا بھی یہی حال کریں گے۔“میرے ایک عزیز پنجاب کو سیر سپاٹے کی غرض سے گئے تھے انہو ں نے وہاں دیکھا کہ کچھ مسجدیں نہیں بلکہ بہت ساری مسجدیں ایسی ویران پڑی ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ان مسجدوں میں گائے بیل اور گھوڑے باندھے جاتے ہیں۔ جنھیں اصطبل بنادیا گیا ہے۔۔۔۔۔خیر۔۔۔۔بولا چالا معاف کرا۔۔۔ریبھئی۔۔۔کیا کریں یار غصہ آہی جاتا ہے ہمارا یہ حال ہے کہ ہم دوسروں پر بہت جلد انگلیاں اٹھا دیتے ہیں مگر اپنے اآپ پر اور اپنی غلطیوں پر کبھی نظر ثانی نہیں کرتے۔مگر جب بات سمجھ میں اآتی ہے تو پتا لگتا ہے کہ یہ سب ہمارا ہی کرا۔۔کرایا ہے۔ ارے اللہ کے بندوں اپنی اہمیت کو سمجھو۔ایمان والا جب تک زمین پر ہے دنیا قائم ہے ورنہ نظام درہم برہم کرنے میں اللہ کو کچھ دیر نہیں لگے گی۔۔۔۔۔منالو اپنے مالک کو۔۔۔۔۔اللہ ہمارے قصوروں کو معاف فرمائے۔ ہماری لغزشوں کو درگذر فرمائے۔ نمازوں کی پابندی کرنے اور اللہ کو راضی کرنے والے اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اور بابری مسجد کو پھر سے اسی مقام پر اآباد کرے۔پھر ملیں گے انشا اللہ۔۔۔زندگی باقی تو بات باقی۔۔۔۔فی امان اللہ۔۔۔۔۔اللہ اآپ کو خوش رکھے۔۔۔ تھے تو وہ آبا ہی تمہارے مگر تم کیا ہو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے منتظر فردا ہو
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کامتفق ہونا ضروری نہیں۔
28/ جنوری 2020
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں