مسجد اقصیٰ کی عظمت:
روئے زمین پر مسجد حرام (خانہ کعبہ) کے بعد یہ دوسری قدیم ترین مسجد ہے، جہاں آج بھی الحمد للہ پنجوقتہ نماز با جماعت کے علاوہ جمعہ، عیدین اور تراویح، تہجد، اعتکاف اور درس و تدریس کا اہتمام ہے۔اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے، فلسطین کی پاک سر زمین انبیاء کرام کامسکن رہاہے،اسی وجہ سے اسے سرزمین انبیاء بھی کہا جاتاہے۔ اس کے چپہ چپہ پر انبیاء کرام علیھم السلام کے نشانات موجود ہیں، گزشتہ قوموں کے آثار یہاں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں، اس خطہ کے کھنڈرات، یہاں کی اجڑی ہوئی بستیاں، وادیاں، پہاڑ اور دریا، غرض ہر شئی اپنے دامن میں ایک مکمل تاریخ چھپائے ہوئے ہے، اس ارض مقدس (مَقْدَسْ بھی کہا گیا)کا مشہور اور قدیم شہر بیت المقدس ہے، اس کو ’’اَلْقُدْسْ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ انگریزی میں یروشلم (JERUSALEM )کہا جاتا ہے۔
اس شہر القدس میں ایک تاریخی عمارت ہے جو صدیوں سے مختلف قوموں کا قبلہ چلی آتی ہے، یہ مسجد اقصیٰ اور حرم شریف کے ناموں سے بھی مشہور ہے، اور مسجد صخرہ (سنہری گنبد والی مسجد) بھی ہے۔یہ شہر دو حصوں میں منقسم ہے ایک پرانا شہر ہے ، دوسرا نیا شہر ہے۔ پرانے شہر کے چاروں طرف اونچی دیواروں کا احاطہ ہے اور اسی شہر میں تمام مقدس مقامات پائے جاتے ہیں۔
گنبد صخرہ، مسجد اقصیٰ اور قیام چرچ ہے۔
مسجد اقصی کے اطراف1600 میٹر لمبی پتھر کی دیوار ہے، اس کے اندر9 دروازے ہیں، جو (1) باب رحمت (2) باب حطہ (3) باب فیصل (4) باب غواغہ (5) باب ناظر (6) باب حدید (7) باب قطانبین (8) باب سلسلہ (9) باب مغاربہ کے نام سے موسوم ہیں۔
گنبد صخرہ:۔
مشہور ماہر آثار قدیمہ دان برجیم کہتا ہے کہ سادہ انداز کی نہایت متوازن عمارت بلا شبہ اسلامی تعمیرات کا قابل فخر سرمایہ ہے۔
اس کی تعمیر پانچویں اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے 68 ھ مطابق 688 ء میں شروع کروایا جو چار سالوں بعد 72 ھ مطابق 691 ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔
گنبد صخرہ کو (مسجد صخرہ بھی کہا جاتا ہے) حرم قدسی کی زمین سے 30 میٹر بلند ہے، یہ شہر کی سب سے بڑی نشانی ہے، یہ دو منزلہ عمارت ہے جو آٹھ کونوں والی ہے، ایک گوشہ سے دوسرے گوشہ کی دوری 20 میٹر اور اونچائی 15 میٹر ہے، نچلی منزل کے دیوار پر نہایت حسین سفید مرمر لگا ہوا ہے، جس پر فیروزے کلر کا ٹائلز بھی ہے، اور اس کے اندر سفید کلر میں سورہ ےٰسین تحریر ہے، ان آٹھ گوشوں میں رنگین شیشے کی کھڑکیاں ہیں جس کی تعداد 56 ہے۔
اسی صخرہ کے نیچے غار انبیاء علیھم السلام ہے، جہاں پہنچنے کے لئے 11 سیڑھیاں ہیں، مسجد کے اندر دو پٹ والے چار دروازے ہیں، اس کے اندر سنگ مرمر سے بنے 16 ستون ہیں۔
مسجد اقصیٰ کی تعمیر:۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہٗ 14 ھ مطابق636ء میں اپنے دور خلافت میں فتح کے بعد یہاں تشریف لائے اور حضور ﷺ کے سفر معراج کی منزل تلاش کیا اور اپنے مبارک ہاتھوں سے اس جگہ کو صاف کیا اور وہاں مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور وہاں حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہٗ کو اذان کا حکم دیا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے نماز پڑھایا ۔یہاں سادہ مستطیل لکڑی کی مسجد تعمیر ہوئی۔
مسجد صخرہ (گنبدہ صخرہ) کی تعمیر کے بعد 72 ھ مطابق 691 ء میں اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے دوبارہ اس کی تعمیر کا آغاز کیا، اور تکمیل ان کے فرزند ولید بن عبد الملک (چھٹویں خلیفہ) کے دور میں ہوئی، جس پر ولید کے دور حکمرانی کے 7 سال کے محاصل (ٹیکس) کی خطیر رقم اس تعمیر پر صرف ہوئی، مسجد اقصی کی لمبائی 80میٹر اور چوڑائی 55 میٹر ہے۔ اور 23 مرمری اونچے ستونوں اور 49 چوکور چھوٹے ستونوں پر کھڑی یہ عمارت 705 ء میں مکمل ہوئی ہے، دروازوں پر سونے اور چاندی کی چادریں چڑھی ہوئی تھیں۔
مسجد کے گیارہ گیٹ ہیں جن میں سے سات شمال میں ہیں۔ پانچ بار اس کی تعمیر ہوئی، موجودہ تعمیر 1035 ء کی ہے۔ یرو شلم شہر کی یہ سب سے بڑی مسجد ہے جس میں بہ یک وقت50
جواب دیں