اللہ سبحانہ تعلی نے مسجد اقصیٰ اور اس کے قرب و جوار کو با برکت بنایا اور اس کے با برکت ہونے کا تذکرہ نبیؑ ﷺ کی مکہ سے مدینہ ہجرت اور مسجد نبوی کی تعمیر سے بھی قبل کیا گیا مسجد اقصیٰ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب مسلمانوں پر نماز فرض ہوئی تو اس وقت قبلہ مسجد اقصیٰ تھی اور لازم تھا کہ اسلام کے پیرو کار دوران نماز اس کی طرف رخ کریں ۔مکہ میں مسلمان نماز کی فرضیت کے بعد تین سال تک مسجد اقصیٰ کی طرف ہی رخ کر کے نماز ادا کرتے رہے اور ہجرت مدینہ کے بعد بھی 16مہینے تک وہ مسجد اقصیٰ کی طرف ہی رخ کر کے نماز ادا کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعلی نے تبدیلی ء قبلہ کا حکم دے دیا ۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کے مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کے بعد بیت المقدس کو مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام کی حیثیت حاصل ہے ۔اللہ سبحانہ چاہتے تھے کہ مسجد اقصیٰ کا تقدس اور تکریم ۔مسلمانوں کے دلوں میں بٹھا دیں تاکہ مسلمان اس سے کبھی بھی الگ تھلگ نہ ہوں ۔مسلمانوں کے لئے لازم ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کو اتنا ہی متبرک اور با برکت سمجھیں جتنا کہ وہ کعبتہ اللہ اور روضہ رسول کو سمجھتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جب مسلمان طاقتور تھے تو ان کی بھر پور کوشش تھی کہ مسجد اقصیٰ کو اپنے اقتدار اور اپنی مملکت میں شامل رکھیں ۔اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آج بھی مسلمان اس چیز کو اپنے سامنے سے محونہ ہونے دیں کہ ان کی تاریخ میں بیت المقدس کو کیا مقام و مرتبہ حاصل رہا ہے ۔نیز یہ کہ ان کے مذہب میں اور ان کی زندگی میں اس کا کیا مقام و مرتبہ اور اہمیت ہے ۔
اللہ تبارک و تعلیٰ یہ بھی چاہتے ہیں کہ جب ہم سفر معراج اور ’’ الاسراء ‘‘ کی یاد منائیں ۔تو اس کے ساتھ ساتھ مسجد اقصیٰ کی عظمت و بزرگی کو بھی اپنے ذہنوں اور قلوب میں تازہ کریں ۔مسجد اقصیٰ کو جن بد ترین حالات کا سامنا ہے ۔ہمیں اس سے بھی با خبر رہنا چاہئے ۔مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کی حفاظت کے لئے بطور مسلمان ہمیں کوئی کسر اٹھا نہ رکھنا چاہئے ۔بر اور ان خواہران اسلام : یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس سے ہم کسی بھی وقت صرف نظر نہیں کر سکتے ۔یہودیوں نے خواب دیکھا تھا کہ وہ ( فلسطین کی سر زمین پر ) ایک ریاست قائم کریں گے اور وہ اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے میں کامیاب ہو گئے ۔اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے کم از کم اس امید سے دستبردار نہ ہونا چاہئے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ جب مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس ہمارے زیر انتظام آئیں گے ۔ہمیں اپنا حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے ۔چاہے حالات اس کے حق میں نظر نہ آتے ہوں ۔ہمیں یہ یقین رکھنا چاہئے کہ اللہ تبارک و تعلی ہمارے ساتھ ہے اور وہ اسلام کو غلبہ عطا کرے گا ۔کیونکہ اللہ سبحانہ و تعلی ہمیشہ حق پر یقین رکھنے والوں کی مدد کرتا ہے ۔امام احمد ؒ اور طبرانی ؒ نے ابو امامہ الباہلی ( اللہ ان سے راضی ہو ) کی یہ روایت بیان کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا اور اسے اپنے دشمن پر ہمیشہ بر تری حاصل رہے گی ۔ان کے دشمن کا کوئی نقصان نہ کر سکیں گے ۔ان کو صرف ایک نقصان پہنچ سکتا ہے ۔اور وہ ( جسمانی ) ہے اور وہ اس حالات میں قیامت کے دن تک رہیں گے ۔جب آپ ؑ سے سوال کیا گیا کہ وہ اللہ کے بندے کہاں ہوں گے ۔اس کا جواب دیا گیا کہ وہ بیت المقدس اور اس کے قرب و جوار میں ہوں گے ۔اسراء اور معراج سے جو دوسرا سب سے اہم سبق ہمیں ملتا ہے وہ نماز کے بارے میں ہے ۔یہ بات معروف ہے کہ نماز اس موقع پر فرض ہوئی تھی ۔نماز کو یہ غیر معمولی اہمیت حاصل ہے کہ اللہ تعلی نے اس کو آسمانوں میں فرض کیا ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو رات کے سفر پر بلایا اور آپ کو آسمانوں پر طلب کیا اور اس موقع پر نماز کے دائمی فریضہ کی ادائیگی کے بارے میں مطلع کیا گیا ۔ یاد رہنا چاہئے کہ دیگر تمام احکامات زمین پر نازل ہوئے ہیں اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نماز کی کس قدر اہمیت ہے ۔نماز ۔انسان کی آسمان پر معراج سے مماثل ہے یہ مسلمان کی روحانی معراج کی علامت ہے ۔نماز ایک ایسا تحفہ ہے جو آسمانوں سے نبی علیہ السلام لائے تھے تاکہ مسلمان با آسانی اپنے رب کی عبادت کر سکیں ۔نماز کا مسجد اقصی سے اہم تعلق ہے مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے ۔یہ بات درست ہے کہ معراج کا واقعہ نبوت کے دسویں سال میں روپذیر ہوا تا ہم اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کا قبلہ تین برس تک مسجد اقصیٰ ہی رہی ۔اس کے بعد ہجرت مدینہ ہوئی اور ہجرت مدینہ کے سولہ ماہ بعد تک قبلہ ء اول یعنی مسجد اقصیٰ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی جاتی رہی ۔پھر اللہ تعالیٰ نے تبدیلی ء قبلہ کا حکم دیا ۔یہ تمہارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں ۔لو ہم اسی قبلے کی طرف تمہیں پھیرے دیتے ہیں ۔جسے تم پسند کرتے ہو ۔مسجد حرام کی طرف رخ پھیر دو ۔اب جہاں کہیں تم ہو اسی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرو ۔( البقرہ آیت : ۴۴۱) جب قبلہ تبدیل ہو گیا تو یہودیوں نے اس پر اعتراض دائر کر نے شروع کر دیئے ۔سورۃ البقرہ میں آتا ہے :
’’ نادان لوگ ضرور کہیں گے : انہیں کیا ہوا کہ پہلے یہ جس قبلے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے ۔اس سے یکا یک پھر گئے ؟ اے نبی ؑ ان سے کہو : ’’ مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں ۔اللہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے ۔اور اسی طرح تو ہم تمہیں ایک ’’ امت وسط ‘‘ بنایا ہیتا کہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو ۔( البقرہ آیت :۱۴۲)
مختصرآپ کہہ سکتے ہیں کہ نماز ایک عمل ہے کہ جس کے ذریعے انسان اپنے رب تک پہنچ سکتا ہے ( جس طرح نبی علیہ السلام اپنے وجود سمیت تشریف لے گئے تھے )۔
جواب دیں