مفتی فیاض احمد محمود برمارے حسینی
بابری مسجد کی شہادت اور سپریم کورٹ کے دلائل کو نظر انداز کرکے آستھا کی بنیاد پر رام مندر کے حق میں دیے گئے فیصلے کے بعد اس ملک کی ہر مسجد میں مندر تلاش کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، ہر نئے دن کسی نئی مسجد کے خلاف عدالتوں میں سروے کی درخواست داخل کی جارہی ہے اور عدالتیں بالکل جانبدارانہ انداز میں ان درخواستوں کو منظور کراکر سروے کا حکم جاری کررہی ہیں، مسلمانوں کی صدیوں پرانی مساجد میں سروے کے نام پر قبضہ کرنے کی یہ کوشش موجودہ حکومت کی ایماء بلکہ اس کی سرپرستی میں اور عدالتوں کے استعمال سے ایک منصوبہ بند طریقہ سے ہورہی ہے جس کا واحد مقصد یہ ہے کہ ملک کی اکثریت کو مذہب کے نام پر ہمیشہ مشتعل رکھ کر اقتدار تک کی راہ ہموار کی جائے، بابری مسجد سے لے کر گیان واپی اور سنبھل کی جامع مسجد جیسی مساجد میں مندر کی تلاش کے پس پردہ ہندومسلم فسادات اور نفرت کا جو گھناؤنا کھیل کھیلا جارہا ہے وہ اس ملک کی پیشانی پر ایک بدنما داغ ہے،اور اس ملک کی سیاہ تاریخ کا حصہ ہے۔
کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے اس ملک کا فساد، تعصب، مذہبی اور نسلی منافرت سے پاک ہونا ضروری ہے، ہندستان جیسے بڑے جمہوری ملک میں اس کی اشد ضرورت ہے؛ کہ یہاں کی فضاء کو مساجد میں مندر تلاشنے کے نام پر مسموم کرنے کی بجائے موجودہ عبادت گاہوں کو اپنی اپنی حالت پر برقرار رکھاجائے، لیکن جس ملک کی سرکار قانون اور انصاف کی بجائے لاقانونیت اور ظلم کو ترقی کا راز سمجھتی ہو اسے اور سرکار کے اشارے پر کام کرنے والے ججز کو نہ وہ قانون یاد رہتا ہے جو بابری مسجد کے انہدام سے ایک برس پہلے ملک کی پارلیمنٹ نے مذہبی عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق منظور کیا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ 15 اگست 1947 کے وقت جو عبادت گاہ جس شکل میں موجود تھی اس میں اب کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ اگر انصاف کے مراکز عدالتیں ہی سرکاری چاپلوسی میں لگ جائیں تو انصاف کی امید کہاں اور کیسے رکھی جاسکتی ہے، مساجد میں مندر کی دریافت کے ذریعہ مسلمانوں کو ہراساں اور خوف ودہشت میں مبتلا کرنا طاقت کے نشہ میں یقیناً آسان ہے لیکن یہ گھٹیا منصوبہ دیرپا نہیں ہوسکتا، سرکار کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مذہب کے نام پر برپا کیا جانے والا یہ طوفان پورے ملک کو غرق کردے گا، مذہبی منافرت کی یہ آگ پورے ملک کو جلادے گی، اس لئے سرکار کو ہوش میں آنا چاہیے اور ان تمام لوگوں پر لگام لگانا چاہیے جنھیں ہر دن الگ الگ مساجد میں مندر اور اپنے معبودوں کے نشانات نظر آتے ہیں، اگر ان پر لگام نہیں لگائی گئی تو یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جائے گا اور نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ پھر بہت سے مندروں میں مساجد کی بازیابی کا سلسلہ شروع ہوگا، اور عدالتوں کا صرف یہی کام رہ جائے گا، لوگوں کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ صرف اسی پر خرچ ہوگا۔ اس لیے ملک عزیز کے باشندوں کو اس بے مقصد کاموں میں اپنا پیسہ اور طاقت برباد کرنے کے بجائے ملک کی تعمیر اور ترقی پر توجہ دینا چاہیے،اور ایسے متنازع لوگوں سے دوری اختیار کرنا چاہیے تاکہ ملک کو نقصان پہنچانے والوں کے سامنے یہ پیغام جائے کہ مساجد میں مندر کی دریافت کے علاوہ اور بہت سارے ضروری کام ہیں جنھیں کرنے کی اشد ضرورت ہے۔