چنانچہ ان کے دلوں میں حکومت کے خلاف بغاوت کی چنگاری نے جنم لیا،جس کے نتیجے میں ۲۲؍نومبرسے یوکرین میں احتجاجات اور مظاہرات کا بلاخیز طوفان امنڈ پڑا،اول اول تو یانکووچ نے ان مظاہروں کو زیادہ اہمیت نہیں دی،مگرصورتِ حال جب سنگین ہونے لگی،توپھرانھوں نے عوامی بغاوت اور احتجاجات کو دبانے کی کئی تدبیریں کیں،پہلے پرامن اورپھرپرتشدد،مگروہ اپنی مہم میں کامیاب نہیں ہوسکے ،بالآخرانھیں نہ صرف حکومت سے دست بردار ہونا پڑا؛بلکہ انھیں اپنی جان بچانے کے لیے کیف (یوکرینی دارالسلطنت)کو چھوڑ کر بھاگنا بھی پڑا،اسی بحران کی کوکھ سے ایک دوسرے تنازع نے جنم لیا،یہ تنازع تھا روس ،امریکہ اور یورپی یونین کے مابین،یوکرین کے بحران کے پورے دورانیے میں روس یوکرین کی سابق حکومت کی حمایت ؛بلکہ معاونت بھی کرتا رہا،جب کہ یورپی یونین اور امریکہ اس کے خلاف تھے ،روس کے پیشِ نظر اپنے مفادات تھے اور مغرب اپنے مصالح کی حفاظت اور اپنے دائرۂ رسائی کی وسعت کو یقینی بنانا چاہتا تھا،پھرجیسے ہی یوکرینی پارلیمنٹ کی تحلیل ہوئی اور مغرب نوازگروپ نے زمامِ حکومت سنبھالی،توروس نے وہاں کے مشرقی صوبے کریمیاپراپنے اثرات بڑھانے شروع کیے،اسے ایک خود مختار اور آزاد (اور در حقیقت اپنے زیرِ قبضہ)ریاست قراردینے کے لیے مغرب کی ہزار مخالفتوں کے باوجود اپنی فوج کی نگرانی میں ۱۶؍مارچ کو ریفرنڈم کروایا،جس میں تقریباً ۹۷ فیصد عوام نے کریمیا کی آزادی یا روس سے الحاق کی حمایت میں ووٹ کیا،اس کے بعد۱۸؍مارچ کو کریمیاکے اعلیٰ رہنماؤں کے ساتھ روسی صدر کی میٹنگ کے بعد روس میں کریمیا کے باقاعدہ الحاق کے معاہدے پردونوں جانب سے دستخط کیے گئے اور اب یوکرین کے کریمیا صوبے کا روس میں انضمام ہو چکا ہے ، اب یہ ایک سچائی ہے،جسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا، روسی صدر ولادیمیر پوتن نے گزشتہ بدھ کو کریمیا کے رہنماؤں کے ساتھ اس علاقے کے روسی فیڈریشن میں قانونی طورپر الحاق کا معاہدہ کرکے یورپ میں روس کی جغرافیائی حدود بڑھا دی ہیں، ان کے اس قدم پر اخلاقی اعتبارسے سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں؛ لیکن نوّے کی دہائی کے شروع میں سرد جنگ کا دور ختم ہونے کے بعد مغربی طاقتوں نے بھی بوسنیا، کوسوو، عراق، لیبیااورشام وغیرہ میں کئی ایسے غیر اخلاقی اقدامات کیے ہیں، جن کو ذہن میں رکھیں، تو یوکرین،کریمیا اورروس کا تازہ تنازعہ اتنا غیر اخلاقی نہیں لگتا۔
روس کا ماسٹر اسٹروک:
یوکرین خود 1991 تک سوویت یونین کا حصہ رہا ہے، اس کے تحلیل ہونے کے بعد تمام 15 سوویت ممالک آزاد ہو گئے تھے، سوویت یونین سے الگ ہونے والے دیگر کئی ممالک میں جمہوری نظام کو ایمانداری سے اپنایا گیا؛ لیکن یوکرین کے لوگ اس سے محروم رہے، یوکرین میں کئی فرقوں کے لوگ رہتے ہیں، اس کے کریمیا علاقے میں روسی نژاد لوگ اکثریت میں ہیں، یوکرین پہلی عالمگیر جنگ کے بعد سوویت یونین کا حصہ بن گیا تھا.،اسٹالن کی موت کے بعدمنتخب کیے گئے سوویت یونین کے صدر نکیتا خروشچوف خود کریمیا کے رہنے والے تھے، اُنھوں نے یہ سوچ کر کہ یوکرین سوویت یونین کا ہی حصہ ہے، 1954 میں کریمیا کو یوکرین جمہوریہ کا حصہ بنا دیاتھا۔
1991 میں جب یوکرین آزاد ہوا تب بھی کریمیا اس کا حصہ بنا رہا؛ لیکن آزادی کے بعد سے یوکرین میں رہنے والے روسی لوگ اپنے تئیں وہاں کے نسلی شہریوں کی جانب سے متعصبانہ برتاؤ محسوس کر رہے تھے، شاید یہی وجہ ہے کہ جب کریمیا علاقے میں رہنے والے روسی یوکرین میں خانہ جنگی کے دوران سڑکوں پر نکل آئے اور روس سے منضم ہونے کے نعرے لگانے لگے، جسے پوری دنیا نے بچشمِ ہوش دیکھا، گزشتہ 16 مارچ کو روس کی طرف سے اپنی فوج کے زیرِنگرانی کریمیا میں جوریفرنڈم کروایا گیا،اس میں فراڈاوردھاندلی کا بھی امکان ہے؛ لیکن کریمیا کے روس میں انضمام کے بعد وہاں جس جوش و خروش کے ساتھ روسیوں نے خوشی اور جشن منایا ہے، اُسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، روسی حکومت کے اس غیر معمولی ا قدام سے بوکھلائے ہوئے نیٹو ممالک نے امریکی قیادت میں روس کے خلاف پابندی کے کئی فیصلے کیے ہیں اوراگرپابندیوں کایہ دور یوں ہی چلتا رہا، تو یورپ میں سرد جنگ کا نیا دور شروع ہو سکتا ہے؛ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کا امریکہ 50 سے 80 کی دہائی تک چلی سرد جنگ کے اعادے کا حوصلہ نہیں کر سکتا،وہ سخت معاشی بحران سے دوچار ہے اور گیس کے تازہ ذخائر سے بھرا روس اقتصادی طور پر اتنا توانا ہو چکا ہے کہ امریکی اور یورپی اقتصادی پابندیوں کوہنسی خوشی جھیل سکتا ہے،شاید یہی وجہ ہے کہ روسی صدر نے امریکہ اور یورپی یونین کی تمام تر دھمکیوں کا جواب دینے اوران کی پابندیوں کو خاطرمیں نہ لانے کا ببانگِ دہل اعلان کردیاہے،نہ تو اسے جی ۔8سے نکالے جانے کا کوئی افسوس ہے اور نہ ہی یورپی یونین کی جانب سے اس کی دفاعی قوت کوکمزور کرنے کی پلاننگ سے کوئی خوف،اصل میں سوویت یونین کی تحلیل کے بعد جب سرد جنگ کا دور ختم ہواتھا، تب نیٹو نے روس کو مزید کمزوراورلاچارکرنے کے لیے اسٹریٹجک دباؤ اتنا بڑھا دیا کہ روس کے سامنے جوابی حملہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا، مغربی ممالک کی فوجی تنظیم نیٹو نے اپنے اثرات کووسیع کرکے نہ صرف انھیں روس کی سرحدوں تک پہنچایا؛ بلکہ روس کے پڑوسی ملک پولینڈ میں ’’اینٹی بلسٹک‘‘ میزائل بھی تعینات کر دیے، روس اس سے تلملاناا ہوا تھا ؛یہی وجہ ہے کہ اب موقع ملتے ہی اس نے یوکرین کے روسی اکثریت والے کریمیا صوبے کو روس سے ملحق کر لیاہے، اس قدم کے بعد روس نے کریمیا میں پڑنے والے یوکرین کے پرانے سوویت فوجی اڈوں پر بھی قبضہ کر لیاہے،جب کہ یوکرین نے وہاں تعینات اپنے 22 ہزار فوجیوں کے انخلا کا عمل شروع کر چکاہے،اس اسٹریٹجک پیش قدمی سے روس نے مشرقی یورپ میں اپنے اصل فوجی اثرورسوخ کو دوبارہ حاصل کرلیا ہے، یوکرین کے سیاستداں اگر اپنے لوگوں کو ایماندار اور بہترین حکمرانی دیتے ،تو شاید وہاں آج جیسے حالات نہیں پیدا ہوتے، یوکرین کے لوگ یورپی یونین کا حصہ بننا چاہتے تھے؛ لیکن یانکووچ نے روسی دباؤ میں ایسا نہیں ہونے دیا، یانکووچ نہیں چاہتے تھے کہ یوکرین میں ایسی جمہوریت قائم ہو، جس سے ان کی بدعنوان حکومت پر آنچ آئے،یوکرین کے لوگ یورپی ممالک کے جمہوری نظام سے متاثر تھے اور انھوں نے دیکھا تھا کہ کس طرح سوویت یونین کے زیرِ اثر رہنے والے پولینڈ، ہنگری ، لتھوینیا، لیٹویااورایسٹونیا جیسے ممالک یورپی یونین میں شامل ہو کر اپنی حکومت کو مضبوط اور اپنے عوام کو ہر اعتبار سے خوش رکھنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، کریمیاکے روسی النسل لوگوں کویوکرین کی نئی یورپ نواز حکومت پربھی اعتماد نہیں تھا؛شاید اسی لیے انھوں نے روس کے ساتھ منضم ہونے کا فیصلہ کرلیا ؛تاکہ نسلی بنیاد پر ہی سہی انھیں ان کے حقوق ملنے کی راہ آسان ہوسکے۔
ہندوستان کا موقف:
یوکرین کے واقعات پر شروع سے لے کر اب تک ہندوستان تقریباً خاموش ہی ہے اوراس کے پیچھے کی سچائی اور حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کسی دوسرے ملک کے ایک صوبے میں غیر ملک اور اس کی افواج کے زیرِ نگرانی ریفرنڈم کی حمایت نہیں کر سکتا؛ کیونکہ بعد میں اُسے ہندوستان کے جموں و کشمیر میں بھی ایسے ہی کسی حادثے سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے اور اُس وقت اس کے پاس کوئی عذر نہیں ہوگا؛شایداسی وجہ سے ہندوستان نے متذکرہ معاملے پر اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے روس سے صاف کہا ہے کہ وہ کسی ملک کے اتحاد اور خودمختاری کاشیرازہ بکھرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا؛ لیکن وہ یہ بھی قبول کرتا ہے کہ یوکرین سے روس کے جائز مفادات وابستہ ہیں اوروہ ان کے حصول کا حق رکھتا ہے، روس ہندوستان کا دوست اور اسٹریٹجک شراکت دار ہے؛ اس لیے اِس مسئلے پر وہ روس کے خلاف بین الاقوامی پابندیوں میں بھی شامل نہیں ہو سکتا اور اس ڈپلومیٹک موقف کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ روس پر پابندی سے عالمی معیشت میں عدمِ استحکام پیدا ہوگا اور اس کا اثر دنیا بھر کے دیگر ممالک کی مانند ہندوستان پر بھی ضرور پڑے گا،روس کے ساتھ اسٹریٹیجک وابستگی ہی کی وجہ سے فرانس نے بھی روس پر عسکری پابندی کی تجویزکا ویٹو کیا ہے؛کیوں کہ روس ۔فرانس کے مابین اربوں ڈالر کے فوجی معاہدے موجودہیں،اسی طرح برطانیہ بھی روس پر پابندیوں کے حق میں نہیں ہے؛کیوں کہ اس صورت میں روسی سرمایہ داروں کی برطانیہ میں سرمایہ کاری پر ضرب پڑے گی۔
تصویر کا اصل رخ:
جہاں تک بات امریکہ یایورپی یونین اور ان کی جانب سے روس پر لگائی جانے والی پابندیوں کی ہے،تو ان کے پیچھے کوئی عوامی مفادات ہرگزبھی نہیں ہیں،دراصل امریکہ یا یورپی یونین یہ نہیں چاہتا کہ عالمی برادری میں کوئی ایسی طاقت ابھر کر سامنے آئے،جو اس کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کی جرأت رکھتی ہو،گویا یہ سارا کھیل اپنے سیاسی وقار،دبدبہ اور ہیکڑی کو برقرار رکھنے کا ہے،مگرروس بھی پوری طرح خم ٹھونک کر میدان میں اتر چکاہے،اسے عالمی منڈی میں اپنی اقتصادی اہمیت کاکامل ادراک ہے،اس کا اس نے ماضی میں ایک سے زائد باریورپ کی گیس سپلائی بند کرکے اظہار بھی کیاہے اوروہ یورپی ملکوں کی مجبوریوں کوبھی بخوبی سمجھتاہے؛اس لیے وہ بھی ہروہ قدم اٹھانے کے لیے ہمہ دم تیار ہے،جس سے اُسے فائدہ پہنچ سکتاہے۔امریکہ ،یورپی یونین اورروس کی اس آویزش کے بیچ یوکرین محض ایک بازیچۂ اطفال بن کر رہ گیا ہے،پہلے سے ہی معاشی خستگی و شکستگی سے دوچار یہ ملک دیوالیہ ہونے دہانے پر پہنچ چکاہے،گوکہ امریکہ نے اس کے لیے ایک ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے،مگر دن بدن اس کے اندرونی حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں،دوسری جانب کریمیا،جوبڑے چاؤسے روس میں منضم ہواہے،اس کے بھی اپنے حقوق کی بازیابی کے خواب شرمندۂ تعبیر ہوں گے یا نہیں،کچھ نہیں کہاجاسکتا؛کیوں کہ اگر مغرب نام نہاد جمہوریت کی آڑمیں سامراجیت اور کیپیٹلزم کی نمایندگی کرتا ہے،تو پوتن حکومت بھی محنت کش عوام کی نمایندگی نہیں کرتی؛بلکہ سرمایہ داروں،عسکری بیوروکریسی اور اشرافیہ کی نمایندگی کرتی ہے۔
جواب دیں