مشرق وسطیٰ میں انقلاب کی دستک یا انقلاب کا نیا چہرہ؟

ایک ایسے وقت میں جبکہ دنیا کی سیکولر اور اعتدال پسند عوام نے راحت کی سانس لی اور پر امن انتخابی عمل پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری نے اپنے ایک بیان کے ذریعے اس انتخابی عمل کو ڈرامہ قرار دیتے ہوئے اخوانیوں کو بے وقوف کہا اور یہ پیش گوئی بھی کی کہ ان کی حکومت کوکامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا ۔ان کی یہ بات ہم جیسے بھولے بھالے لکھاریوں کو بھی ہضم نہیں ہوئی۔یقین نہ کرنے کی وجہ بھی تھی کہ مصری فوج نے اخوانیوں کو مصر کے پارلیمانی انتخابات میں شریک ہونے کا موقع دیا اور وہ پارلیمنٹ میں ایک طاقتور سیاسی جماعت کے طور پر سامنے بھی آئے اور لوگوں میں یہ امید جاگ اٹھی تھی کہ اب ہو سکتا اسرائیل مصر کی اسلام پسند جماعت کے دباؤ میں آکر فلسطینی مسلمانوں کے خلاف اپنی جارحیت سے باز آجائے ۔ہمارا اندازہ غلط بھی نہیں تھا ۔مصر کے صدر مرسی نے قاہرہ میں فلسطینیوں کے دو سیاسی دھڑوں کو متحد ہوجانے کی کوشش بھی کی جو بعد میں کامیاب بھی رہی ۔مگر کہیں نہ کہیں ہم سب غلط تھے۔الجزائر،ترکی اور پاکستان وغیرہ کی طرح فوج نے اپنے خونی پنجوں سے انہیں مسل دیا ۔یعنی اخوانی حکومت چوطرفہ دشمنوں کے نرغے میں تھی۔ایک تو خود فوج اور مصر کی لبرل اور عیاش طاقتیں دوسرا اسرائیل جو کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کی سرحدوں کے کنارے کوئی ایسی طاقتور حکومت قائم ہو جو غاصب اسرائیل کو برداشت نہیں کرتے ۔تیسری قوت سعودی حکمرانوں کی ہے جنہیں اندیشہ رہتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اسلام کے نام پر کوئی بھی انقلاب ان کے اقتدار کیلئے خطرہ پیدا کرسکتا ہے۔چوتھے وہ لوگ ہیں جو بظاہر اتحاد کی باتیں کرتے ہیں اور بظاہر فلسطینی مسلمانوں کی مدد کے دعویدار بھی ہیں مگر انہیں بھی صرف اپنا مسلکی مفاد عزیز ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ انہیں کی وجہ سے شام و عراق لہولہان ہے اور اسرائیل کے ساتھ مل کر انہوں نے لاکھوں مسلمانوں کو ذبح کروادیا ہے اور پورا عرب ایک فساد کی صورت میں مبتلا ہو چکا ہے۔اس وقت غزہ میں اسرائیل اپنے تین نو عمر لڑکوں کے قتل کئے جانے کے سبب جو بمباری کررہا ہے ۔ اسرائیل کو مشتعل کرنے میں ایران اور حزب اللہ کی سازش سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ۔تاکہ عراق اور شام میں جو مسلم ممالک تحریک دولت اسلامیہ کی مدد اور حمایت کررہے ہیں ان کی ساری توجہ اور طاقت فلسطینی مسلمانوں کی طرف مبذول ہوجائے اور خود اسرائیل بھی نہیں چاہتا کہ اخوان کے بعد اس کے اطراف میں کوئی اسلامی اسٹیٹ اس کیلئے درد سر بن جائے جیسا کہ اسرائیل کا وزیر اعظم نیتن یاہودولت اسلامیہ کے خلاف اردن کی مدد کیلئے پیغام بھیج چکا ہے۔ اب ہمیں یہ وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں کہ عرب انقلابات کو ناکام بنانے میں کس کا نظریہ ہے اور اس تحریک کے دشمن کون ہیں۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عرب انقلاب یا عرب بہار ناکام ہو چکا ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا ایساحقیقت میں بھی سوچا جاسکتا ہے۔کیا انقلاب کسی چراغ مشعل اور موم بتی کے دھاگے میں کسی ایک شخص اور تحریک کے آگ لگا دینے ،ایک دوروز اور سال میں آجاتا ہے اور پھر کسی نے پھونک مارا اور مخالف طاقتوں کو کامیابی مل گئی ۔اگر ایسا ہے تو پھر اسلامی تاریخ میں نبوی تحریک کی جد وجہد کو بھی ناکام کہا جائے گا جب اللہ کے ایک رسول حضرت نوح ؑ کوصدیوں تک اپنے مقصد میں کامیابی نہیں ملی اور اللہ کو آسمان سے عذاب نازل کرنا پڑا۔کون نہیں جانتا کہ حضرت ابراہیم ؑ کو آگ سے نہیں گذرنا پڑا ۔حضرت موسیٰ ؑ کا تعاقب نہیں ہوا ۔حضرت عیسیٰ ؑ کو سولی پر چڑھانے کی تدبیر نہیں کی گئی اور اصحاب کہف کو غاروں میں پناہ لینے کیلئے مجبور نہ ہونا پڑا ۔اس کے باوجود کیا اس تحریک کے مخالفین دنیا کے امن کو غارت کرنے میں کامیاب ہو سکے ۔خود اللہ نے اصحاب کہف کو زندہ کرکے دکھایا کہ دیکھو تمہاری اور تمہارے بعد کچھ اللہ کے بندوں کی تحریک کو اللہ نے کیسے کامیاب بنایا اور اب پورے شہر میں اللہ کی عبادت ہو رہی ہے ۔ہمیں یاد ہے کہ جب مصر میں ڈاکٹر مرسی کی اخوانی حکومت کو بے دخل کیاگیا تو ایک خاتون امریکی جرنلسٹ نے اپنے کالم میں اس خدشے کا اظہارکیا تھا کہ اگر پرامن عرب بہار کی اس تحریک کا راستہ اسی طرح روکا گیا جیساکہ شام میں بھی ہورہا ہے تو مستقبل میں طاقت اور تشدد کے اس نظریے کو مزید تقویت ملے گی جو القاعدہ اور شدت پسند اسلامی تحریکوں کا نظریہ رہا ہے اور پورا مشرق وسطیٰ افغانستان جیسی صورتحال میں تبدیل ہو جائے گا ۔
جو لوگ عراق اور شام میں تحریک دولت اسلامیہ کی مذمت کررہے ہیں انہیں عرب کی موجودہ صورتحال اور اس نظریے کو بھی سمجھنا چاہئے کہ اس صورتحال کا ذمہ دار خود اسرائیل ہے اور اس کی طرف سے فلسطینیوں پر کئے جارہے ظلم پر عرب کے تمام حکمراں خاموش تماشائی ہیں اور صرف اپنے اقتدار کو بچانے میں اپنی عوام کے قتل عام میں مصروف ہیں ۔اقوام متحدہ کی طرف سے شام کی شورش کو ختم کرنے کیلئے ثالث مقرر کئے گئے لحذر براہیمی نے بہت ہی درست تبصرہ کیا ہے کہ عراق میں دولت اسلامیہ کی کامیابی شام میں امن و امان بحال کرنے میں عالمی طاقتوں کی ناکامی کا نتیجہ ہے ۔ہم امریکی خاتون صحافی اور لحذر براہیمی کے اس خیال سے بالکل اتفاق کرتے ہیں ۔اگر وہ اپنی گفتگو میں اتنا اور اضافہ کردیتے کہ اگر یہی عالمی طاقتیں فلسطین کے معاملے میں بھی انصاف کا معاملہ اختیار کرلیں تو پوری دنیا امن کا گہوارہ بن جائے مگر ایسا اس لئے ہونا ناممکن ہے کیوں کہ اس وقت دنیا کی غالب طاقتیں کسی آسمانی اور الہامی نظریے سے محروم ہیں اور ھل من مزید کی کیفیت نے انہیں اور بھی درندگی پر آمادہ کردیا ہے ۔روس کے حمایت یافتہ دہشت گردوں نے یوکرین میں بغاوت کا شور بلند کر رکھا ہے اور اپنے اس مقصد کیلئے ملیشیا کے ایک مسافر بردار طیارہ کو بھی نہیں بخشا ۔ خود یوروپ اور امریکہ اسی اور نوے کی دہائی میں ویتنام صومالیہ اور سوڈان وغیرہ میں پلک جھپکتے ہی اپنی فوج فوجیں اتار دیا کرتے تھے وہی لوگ نہ صرف یوکرین میں روس کی مداخلت پر خاموش ہیں بلکہ شام اور عراق کی شورش میں بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔شاید وہ اپنی نڈھال ہوتی ہوئی معیشت کو دیکھ کر صرف تالیاں ہی بجاسکتے ہیں ۔
عرب نوجوانوں نے شاید استعماری طاقتوں کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے جابر اور ظالم حکمرانوں کو اکھاڑ پھینکنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔اسی عالمی صورتحال کا فائدہ کچھ مسلم حکومتیں اسرائیل کے خلاف بھی اٹھاسکتی تھیں مگر وہ فلسطین کے مسئلے کو زندہ رکھنے میں ہی اپنے اقتدار کا بھلا دیکھ رہے ہیں ۔ہو سکتا ہے عرب نوجوانوں کی یہ جد وجہد ایک بار پھر ناکام ہوجائے یا وہ اپنے علاقوں تک محدود ہو جائیں اور ان کے اس پر تشدد انقلاب کو دنیا کا کوئی بھی ملک قبول نہ کرے مگر اس تحریک کی ایک سچائی یہ بھی ہے کہ اب عرب کے ان خود ساختہ مجسموں کو منہدم کرنے کیلئے ابراہیم اور اسمٰعیل پیدا ہو چکے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب عرب کا یہ خطہ عراق سے لے کر فلسطین تک ایک وسیع ریاست میں تبدیل ہو جائے گا۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسرائیل کو نظر انداز کرتے ہوئے بہت سے یوروپی ممالک ان کی حکومت کو تسلیم بھی کرلیں جیسا کہ آیت اللہ خمینی کے ایرانی انقلاب کے بعد روس اور کمیونسٹ اتحاد نے تسلیم کرلیا اس بار امریکہ کی طرف سے اس پہل کی شروعات ہو۔آخر انہیں بھی تو ان کے تیل کی صنعت سے فائدہ اٹھانا ہے ۔ویسے اسرائیل اور یوروپ کے رشتوں میں اب وہ کشش نہیں رہی جو دوسری عالمی جنگ اور 9/11 سے پہلے تک پائی جاتی تھی اور امریکہ اسرائیل کے معمولی اشارے کا منتظر ہو اکرتا تھا۔2014 کی دنیا بہر حال بدل چکی ہے ۔1979 میں ایران کے اسلامی انقلاب سے پہلے تک جو لوگ مکمل طور پر نیو ورلڈ آرڈر کی بالادستی کا منصوبہ بنا چکے تھے ۔2001 میں جن لوگوں کو امریکہ کے ذریعے پوری دنیا سے تحریکات اسلامی کے خاتمے کا یقین ہو چکا تھا۔ 2010 میں عرب نوجوانوں نے استعماری طاقتوں کے سارے منصوبے خاک میں ملا دیے ۔یہ سچ ہے کہ السیسی ،بشارالاسد اور نوری المالکی کی نام نہاد حکومت ابھی قائم ہے اور انہیں بچانے کیلئے ایران ،حز ب اللہ اور آل سعود کے سپاہی میدان کربلا میں ابن زیاد اور شمر کا کردار ادا کرنے کیلئے کود پڑے ہیں مگر تاریخ گواہ ہے حسینؓ شہید ہونے کے بعد بھی کامیاب اور کامران رہے ۔کربلا کے بعد یزید کو سلطنت راس نہیں آئی اور وہ ملعون رہا ۔

«
»

مردانہ جوابی کارروائی

فلسطین: ہم رنجیدہ بھی ہیں شرمندہ بھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے