مشرق کاجنازہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذرا دھوم سے نکلے

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ 

وطن عزیز ہندوستان جو عرصۂ دراز تک مشرقی اقدار وروایات کا سب سے بڑا علم بردار سمجھا جاتا تھا،جہاں کی پاکیزگی ،ملنساری،رواداری کی مثالیں دی جاتی تھیں ،جہاں عورتوں کے ساتھ غیرمعمولی حسن سلوک اور حددرجہ برتری کا معاملہ کیاجاتاتھا؛مگرافسوس صد افسوس کہ اب یکے بعد دیگرے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں سے ایسا محسوس ہورہاہے کہ ملک کا وقار داؤ پر ہے ،اس کی شناخت مجروح ہوچکی ہے ،گنکا جمنی تہذیب کا جنازہ نکل چکاہے ،مشرقی روایات کی پامالی اور مغربی تمدن کی بالا دستی کا دور شروع ہوچکا ہے اور انسانیت وشرافت کا سر شرم سے جھک گیا ہے ۔وہ سپریم کورٹ جو ملک کی سب بڑی بااختیار عدالت ہے ،جو صرف قانون کے مطابق فیصلے ہی نہیں کرتی؛بلکہ کہ پارلیمنٹ سے پاس قوانین میں ترمیم اور تنسیخ کا اختیار بھی رکھتی ہے ، اپنے اور ہائی کورٹس کے ججوں کا انتخاب بھی خود کرتی ہے ، صدر جمہوریہ کی عدم موجودگی میں نیابت کا فریضہ بھی انجام دیتی ہے اس نے قانون کی دفعہ 497 کو غیر آئینی قرار دے دیا؛ جس کے بعد شوہر کا دوسری عورتوں کے ساتھ ناجائز تعلق اور بیوی کا دیگر مردوں کے ساتھ آزادانہ اختلاط حد جواز میں داخل ہوگیا ، یعنی اب بیوی جب چاہے شوہر کی مرضی کے بغیر کسی بھی مرد سے جنسی تعلقات قائم کرسکتی ہے ، اور اسی طرح شوہر جس وقت چاہے کسی بھی عورت کے ساتھ زناکاری کرسکتا ہے ۔واضح رہے کہ 6 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے ہم جنسی کے جواز کا فیصلہ دے کر کیا کم قیامت ڈھائی تھی کہ اب آزادانہ جنسی اختلاط کے فیصلے نے تو رہی سہی کسر بھی نکال دی ۔تعجب تو اس پرہے کہ ایک طرف عدالت کو بڑھتی ہوئی عصمت دری پر سخت تشویش ہے اور دوسری طرف حرام کاری کو قانونی حیثیت دینے والے یہ فیصلے ہیں جو جنسی بے راہ روی اور حرام کاری کو فروغ دینے والے ہیں ۔
ایک منصف مزاج دانشور کے بہ قول "جنسیت کا موضوع، انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے دونوں پہلوؤں پر حاوی ہے یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کی حدود اخلاق، تہذیب و ثقافت سے ملتی ہیں، اور قانون کے علاوہ معاشرتی آداب اور طور طریقوں سے بھی، اگر چہ جنسیت ایک انسانی جبلت ہے تاہم نکاح کے نتیجے میں بچوں کی پیدائش کے ذریعے انسانی معاشرے کی بقا اور ترقی کا انحصار بھی اس امر پر ہے کہ اس جبلت کو کس طرح ایک ضابطے کے تحت رکھا جائے ، اس کا اظہار کس طریق پر ہونا چاہئے ، اور اس سے کس حد تک استفادہ یا اجتناب کرنا ضروری ہے ، تاریخ انسانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب اور جس جگہ جنسیت اس قدر عام ہوجاتی ہے جیسا کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں، تو بلا شبہ وہاں معاشرے اور قوم کو اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ، یونان ، روم، ہندوستان، نیز قدیم مصری تہذیبوں کا خاتمہ اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ ان ممالک میں انصاف کم یاب ، طبقاتی تفریق ایک حقیقت اور جنسیت بے لگام ہوگئی تھی، پھر قانون الٰہی کے مطابق وہ اقوام بالآخر نیست و نابود ہوگئیں، ایک انسان اس امرکا اندازہ نہیں کرسکتا کہ ان قوموں سے قدرت نے کس قدر سخت انتقام لیا، اور اس طرح کی خوف ناک سزا کسی قوم کو اس وقت ہی ملتی ہے جب وہ جنسیت کے بارے میں مادر پدر آزاد رویہ اختیار کرلیتی ہے ، یہاں اس امرکی صراحت شاید ضروری ہو کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں جنسی جذبے کی تسکین بے محابہ انداز میں کی جارہی ہے وہاں خاندانی نظام چوپٹ ہوکر رہ گیا ہے ، ایسے حالات میں خاندان کا ادارہ جس کے ذریعے مستقبل کی نسل کی پرورش کا فریضہ سرانجام دیا جاتا ہے قائم نہیں رہ سکتا۔"
جنسی آزادی کی قباحت اور حیاداری و عفت مابی کی اہمیت کو بتلاتے ہوئے جناب سید قطب شہید رقم طراز ہیں :146146عفت وپاک دامنی کسی بھی معاشرہ کے بقاء وارتقاء کا مستحکم ستون ہے ، اسی لئے قرآن نے تمام علانیہ وخفیہ فواحش سے روک دیا ہے ، فواحش کی غلاظت میں نہ معاشرے کی بقاء ممکن ہے اور نہ خاندان کا استحکام، اس کے لئے عفت اور پاکیزگی کلیدی امر ہے ، فواحش پھیلانے کے رسیا افراد خاندانی بنیادوں کو متزلزل اور معاشرتی اقدار کو مسمار کردیتے ہیں ، آیت کریمہ(ولاتقربو ا الفواحش)میں فواحش سے زنا مراد لینا بہتر ہے ، زنا تنہا ایک عمل نہیں ؛ بلکہ اپنے ساتھ بہت سی برائیوں کو سمیٹے ہوئے ہوتا ہے ، جن میں تبرج وبے حجابی، اخلاق واقدار کی پامالی، صنفی اختلاط، شہوت انگیز باتیں ، اشارات وکنایات، حرکات وسکنات، ہیجان انگیز تبسم، یہ سب زنا کی لعنت سے مربوط جرائم ہیں ، اس لئے قرآن نے زنا کو 146146فواحش145145 (بے حیائیوں کا مجموعہ) سے تعبیر کیا ہے ، یہ سب فواحش خاندانی استحکام کو متزلزل کرڈالتے ہیں ، اجتماعیت کے جسم کو پارہ پارہ کرڈالتے ہیں ، افراد کے ضمیروں کو آلودہ کردیتے ہیں اور ان کے افکار کو گندہ وگدلا بناڈالتے ہیں 145145۔ (فی ظلال القرآن )
جاننا چاہیے کہ دین اسلام میں انسانی حقوق کے حوالے سے جو تصورپایاجاتاہے وہ فطرت کے عین مطابق اورانسانی جذبات کے احترام سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے ۔ خصوصاً مذہب، جان، مال،عزت اور عقل یہ پانچ وہ چیزیں ہیں کہ ان میں سے کسی ایک پرحملہ قابل سزا جرم قراردیا گیا ہے ، اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیا فتنہ و فساد کی آماجگاہ بن جاتی ۔اگر ہم بنظر غائر دیکھیں تو ان پانچوں میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل جو چیز ہے وہ مذہب کے بعد انسان کی عزت ہے ؛ اس لئے کہ انسان محض عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے اپنی جان و مال کی قربانی دیتاہے ،اپنی ہرمتاع عزیز کو تج دیتاہے ؛مگر عزت پر ذرہ برابر حرف آئے اسے گوارہ نہیں کرتا؛اس لیے اسلام نے بھی انسانی عزت کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اپنی عزت کی حفاظت میں مارا جانے والا شخص شہید قرار دیا گیا ۔ایک عربی مقولہ کا ترجمہ ہے : مال تو عزت کی حفاظت کے لئے کمایا جاتا ہے جب عزت ہی نہ رہے تو مال میں اللہ تعالیٰ برکت بھی نہ دے ۔
دین اسلام نے عزت کی حفاظت کیلئے مستقل ایک نظام بنایا، قواعد و ضوابط مقرر کئے ،عزتوں کی پامالی کرنے والوں کے لئے باقاعدہ سزائیں تجویز کی۔چونکہ عزت کی بربادی کا آغاز فواحش کے قریب جانے سے ہوتا ہے اس لئے اسلام نے ہر قسم کے ظاہری و باطنی فواحش کو حرام قرار دیا اور ان ذرائع و راستوں سے بھی منع کردیا جو فحاشی کی طرف لے جانے والے ہوں۔
اسلام میں انسان کی جسمانی، روحانی، عقلی اور جذباتی احساسات کی تمام تر ضروریات کو پیش نظر رکھا گیا ہے ، قرآن کریم نے زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں چھوڑا جو انسانی زندگی کی کامیابی کے لیے ضروری نہ ہو، اللہ تعالیٰ نے انسان کو صحت وجوانی کے ساتھ ساتھ جنسی داعیہ بھی دیا ہے لہٰذا اس کو ختم کرنا یا اس سے جائز طریقے پر استفادہ نہ کرنا منشائے الٰہی نہیں ہوسکتا، اسلام کے نزدیک کوئی ایسا کام جو انسانی زندگی میں انتہائی دنیوی سمجھا جاتا ہو اگر احکام خداوندی کے مطابق کیا جائے تو وہ ایک روحانی اور مذہبی عمل بن جاتا ہے حتی کہ میاں بیوی کے درمیان تعلق بھی ایک باعث ثواب عمل بن جاتا ہے ، یہ اسلام کا ایک طرۂ امتیاز ہے کہ اس نے انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو اس طرح باہم سمود یا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔
موجودہ زمانے میں فحاشی اور جنسی بے راہ روی کے جس طوفان نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اب وہ ہمارے دروازے پر دستک ہی نہیں دے رہا؛ بلکہ ہمارے گھروں کے اندر بھی داخل ہوچکا ہے ، ٹی وی ، ڈِش، اِنٹرنیٹ اور دیگر مخرب اخلاق پرنٹ میڈیا کے ذریعے ہماری نوجوان نسل جس انداز میں اس کا اثر قبول کررہی ہے اس کے پیش نظر یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ ہم بھی یورپ اورامریکہ کے نقش قدم پر نہایت تیزی کے ساتھ چلے جارہے ہیں جس پر وہ عیسائی مذہبی رہنماؤں کی غلط تعلیمات و نظریات کے نتیجے میں آج سے ایک ڈیڑھ صدی قبل رواں دواں ہوئے تھے ، امریکہ اور یورپ اس جنسی بے راہ روی کی وجہ سے بن بیاہی ماؤں ، طلاقوں کی بھرمار، خاندانی نظام کی تباہی اور جنسی امراض بالخصوص ایڈز کی وجہ سے تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں۔
زنا کاری جہاں ایک طرف نہایت شنیع اور قبیح عمل ہے ،وہیں عورتوں کی عزت و ناموس کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے ،اس لیے اسلام نے اس کے سد باب کی ہرممکن کوشش کی ہے اوران سارے چوردروازوں کوبندکردیاہے جن کی وجہ سے انسان حرام کاری تک پہونچ سکتاہے ،حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب عورت گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں رہتا ہے ۔(ترمذی) اسی طرح آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب اجنبی مرد وعورت ایک جگہ تنہائی میں جمع ہوتے ہیں تو ان میں تیسرا شخص شیطان ہوتا ہے ، جو اُن کوگناہ پر آمادہ کرتا ہے ۔ (مسند احمد)جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے نوجوانوں! جو تم میں سے جسمانی اور مالی استطاعت رکھتا ہے وہ فوراً شادی کرلے کیونکہ شادی کرنے سے نگاہوں اور شرمگاہوں کی حفاظت ہوجاتی ہے ۔ (بخاری)زناکاری پر سخت سزا کا نفاذ بھی اسلام کا طرۂ امتیاز ہے ،حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ یہود نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آئے اور آپ سے ذکر کیا کہ ان میں سے ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کر لیا ہے ، تو ان سے رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : 148 تم تورات میں زنا کے معاملہ میں کیا حکم پاتے ہو ؟ 147 تو ان لوگوں نے کہا : ہم انہیں رسوا کرتے اور کوڑے لگاتے ہیں ، تو عبداللہ بن سلامؓ نے کہا : تم لوگ جھوٹ کہتے ہو ، اس میں تو رجم کا حکم ہے ، چنانچہ وہ لوگ تورات لے کر آئے ، اور اسے کھولا تو ان میں سے ایک نے آیت رجم پر اپنا ہاتھ رکھ لیا ، پھر وہ اس کے پہلے اور بعد کی آیتیں پڑھنے لگا ، تو عبداللہ بن سلام نے اس سے کہا : اپنا ہاتھ اٹھاؤ ، اس نے اٹھایا تو وہیں آیت رجم ملی ، تو وہ کہنے لگے : صحیح ہے اے محمد ! اس میں رجم کی آیت موجود ہے ، تو رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کے رجم کا حکم دے دیا ، چنانچہ وہ دونوں رجم کر دیے گئے ۔(ابو داؤد)
اِن دنوں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مشترک تعلیم کی وجہ سے اجنبی مرد وعورت کا اختلاط بہت عام ہوگیا ہے ۔ نیز خواتین کا ملازمت کرنے کا مزاج دن بدن بڑھتا جارہا ہے ۔ خواتین یقیناًشرعی پابندیوں کے ساتھ قرآن وحدیث کی تعلیم کے ساتھ دنیاوی علوم حاصل کرسکتی ہیں، اسی طرح مجبوری میں ملازمت سے وابستہ ہوسکتی ہیں؛ لیکن تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں رائج موجودہ تعلیمی نظام اور دفاتر میں کام کرنے والی بے شمار خواتین جنسی استحصال کی شکار ہوتی ہیں،اس لیے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ ان فیصلوں کی طرف توجہ دینے کے بجائے اپنے قول و عمل کے ذریعہ اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیں ،اپنے خاندان ومعاشرے میں اس حوالے سے شعور بیدار کریں اور ایک صالح انقلاب کے وجود میں آنے کا ذریعہ بنیں ۔اللہ پاک توفیق عمل نصیب فرمائے ۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے