واقعہ اسی سال کاہے اور وہ بھی صرف پانچ ماہ قبل کا ، لیکن ہم سب اس کو بھول گئے ، اس کاثبوت یہ ہے کہ آج کہیں بھی کسی بھی مجلس میں اور نہ کسی مسلم ادارہ کے ایجنڈے میں اس کا ذکر ہورہاہے ، نہ اخبارات میں اس کے مضمرات پر بحث ہورہی ہے اور نہ سوشل میڈیا میں آئندہ نئی مسلم نسلوں پر پڑنے والے اس کے ممکنہ بھیانک نتائج کا چرچہ ہے ، حالانکہ واقعہ اتنا سنگین تھا کہ اس کے ممکنہ مرتب ہونے والے اثرات کو سوچ کر ہی ایک عام صاحب ایمان کی نیند اڑجانی چاہیے تھی ، واقعہ یہ تھا کہ اسی سال ۲۰۱۵ء مارچ میں خبر آئی کہ ممبئی میں میراروڈ کی ایک ۱۲سالہ مسلم بچی مریم صدیقی کل ہند سطح کے گیتا چمپئین لیگ میں تمام تین ہزار شرکاء میں اول مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی،پھر کیا تھا، دوسرے دن کے اکثر اخبارات کے لیے یہ انہونی خبر سرخی بن گئی ، چینلوں میں اس کو اس طرح جگہ دی گئی جیسے سائنس کے میدان میں مریم نے عالمی سطح پر کوئی کارنامہ حیات انجام دیا ہو، حالانکہ ہمارے ملک ہی کی مختلف یونیورسیٹیوں وکالجس میں تین ہزار نہیں بلکہ تیس ہزار طلباء کے درمیان متعدد تعلیمی وثقافتی پروگراموں کے مختلف تحریری مقابلوں میں اول مقام حاصل کرنے والی دسیوں مسلم طالبات موجود تھیں لیکن مقابلہ چونکہ گیتا جیسی ھندوؤں کی مذہبی کتاب کا تھا اور جیتنے والی ایک مسلم طالبہ تھی ،اس لیے اس کو ایک بڑے منصوبہ بند انداز میں مشتہر کیاگیا۔
مسلمانوں کی سادگی :۔ اس خبر سے سب سے زیادہ خوشی مسلمانوں میں محسوس کی گئی ، مسلم اخبارات اور روزناموں وغیرہ میں اس کو نمایاں جگہ دی گئی، سوشل میڈیا میں سیکنڈوں میں لاکھوں لوگوں تک خود مسلمانوں نے یہ خبر پہنچائی اور خودان کی طرف سے یہ تأثر دینے کی کوشش کی گئی کہ مریم کی یہ کامیابی ملک میں قومی یکجہتی وسیکولرزم کی جڑوں کو مضبوط کرے گی اور ہم وطنوں میں بین المذاہب احترام کے جذبہ کو پروان چڑھانے میں اس سے مدد ملے گی، یہاں تک کہ خودیوپی کے وزیر اعلی نے اس تشہیر سے متأثر ہوکرمریم کی اس نمایاں کامیابی پر دس لاکھ روپئے کے نقد انعام کا اعلان کردیا۔
اس واقعہ سے پہلے جب مرکزی حکومت نے اپنے ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے ارادہ کے تحت پورے ملک میں گیتا کے پاٹ کو لازمی طور پر نصاب تعلیم کا حصہ بنانے کی بات کہی تھی تو فطری طور پرہم مسلمانوں کی رگِ حمیت پھڑک اٹھی تھی اور ہر طرف سے اس کی مخالفت ہونے لگی تھی ، مسلمانوں کے سب سے مؤقرادارہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے یہاں تک کہہ دیا گیا تھاکہ اس طرح کی زبردستی کی صورت میں ہم اپنے سابق صدر مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے اس تاریخی فیصلہ پر عمل کرتے ہوئے غیراسلامی و شرکیہ عقائدکے ساتھ تعلیم یافتہ بننے پر ایمان وتوحید کا سودا نہ کرتے ہوئے ایسے اسکولوں کو خیر باد کہنے کو ترجیح دیں گے ۔
جب حکومت کے کارندوں اورپالیسی سازوں کو اس کا اندازہ ہوگیاکہ وہ موجودہ صورت حال میں قیامت تک ان مسلمانوں کو ان کے عقیدہ سے ہٹانہیں پائیں گے تو بڑی مکاری وعیاری اور ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت انھوں نے ایسا طریقہ اختیار کیاکہ خود مسلمانوں کے اندر سے گیتاہی نہیں مہاربھارت اوررامائن وبائبل وغیرہ کو پڑھنے کی مسلم طلباء وطالبات میں جستجو پیدا ہوجائے اور اس طرح کے مقابلوں سے حوصلہ پاکر خود ان کے اسکولوں ہی میں نہیں بلکہ مسلم گھروں کے اندر بھی شرکیہ وکفریہ عقائد کی کتابیں پہنچ جائیں۔
بصارت نہیں بصیرت کی نگاہ سے دیکھئے:۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں اسلام دشمن طاقتوں کو اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں اس بات کا یقین ہوگیا ہے کہ مسلمانوں میں ہزار کمزوریوں ،کمیوں اور اخلاقی برائیوں کے باوجود ان کو ان کے دین سے برگشتہ نہیں کیاجاسکتا، اس سلسلہ میں وہ بڑے حمیت پسند اور غیرت مند واقع ہوئے ہیں، وہ توحید کے معاملہ میں کسی طرح کا سودا نہیں کرسکتے ، اس لیے اب ایک ہی صورت رہ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان کو بظاہر مسلمان رکھاجائے اور اندورن سے ان کے ایمان کو اس طرح کھوکھلاکیاجائے کہ خود ان کو اپنے شرک وکفر میں مبتلااور ملوث ہونے کا احساس نہ ہونے پائے ، مسلمان چونکہ صاحب بصارت ہی نہیں بلکہ صاحب بصیرت بھی ہوتاہے اور اس کے پاس احادیث مبارکہ کی روشنی میں ذہانت سے بڑھ کر فراست ایمانی ہوتی ہے ،اس لیے جب وہ بصیرت کی آنکھوں سے اس واقعہ کو دیکھتاہے توزبان حال سے فورا کہہ اٹھتاہے کہ یہ انعامی گیتاکاتحریری مقابلہ بھی اسی منصوبہ بند سازش کا ایک حصہ ہے جس سے نئی مسلمان نسلوں اور ان کے معصوم دلوں میں غیر محسوس طریقہ پر دوسرے باطل مذاہب کی عقیدت بٹھاکر اسلام کو بھی عام مذاہب کی طرح ایک مذہب سمجھنے پران کومجبور کیا جائے ۔
مریم کے گیتا کے مقابلہ میں اول نمبر آنے پر اس کو غیر معمولی پذیرائی ملی،ملک کے وزیراعظم سے ملاقات کا اس کو موقع فراہم کیاگیا اور یوپی کے وزیراعلی کی طرف سے نقد دس لاکھ روپئے کا انعام بھی دیاگیا ، ان سب خبروں کی تشہیر کے بعد سادہ لوح مسلم طلباء وطالبات کے دلوں میں آئندہ اس طرح کے گیتا ،مہابھارت، رامائن اور بائبل وغیرہ کے ہونے والے مسابقات میں حصہ لے کر خود بھی نمایاں کامیابی حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہونا فطری بات ہے ،سردست مریم کے ساتھ اس مرتبہ ملک بھر کے تین ہزار شرکاء میں صرف پچاس مسلمان طلباء نے حصہ لیا تھا لیکن اگلے اس طرح کے مقابلہ میں مسلمانوں کی تعداد کا بڑھ کر پانچ چھ سو کا ہونا بعید از قیاس نہیں ہے۔
پھر اس کا نتیجہ کیاھوگا:۔ اس طرح کے تحریری مقابلوں اور مسلم طلباء کے اس کی طرف فطری میلان کے بعد اسلام دشمن طاقتوں کے منصوبہ کے مطابق گیتا کی تعلیم کو نصاب تعلیم کا جزء بناکر مسلم طلباء کو اس کے پڑھنے پر مجبور کرنے کی اب ضرورت ہی نہیں رہے گی، وہ خود بڑھ چڑھ کر اس کو نعوذ باللہ قرآن مجید کی طرح مقدس ومذہبی کتاب سمجھ کر اپنے گھرلے آئیں گے،مسابقہ میں شرکت کی تیاری کے نام سے اس کا صبح شام مطالعہ کریں گے، یہاں تک کہ انعام پانے ،کامیاب ہونے اور ممتحن کو خوش کرنے کے لیے تحریری پرچوں میں گیتاوغیرہ کی تعریف کے پل باندھیں گے ،اور ممکن ہے کچھ سادہ لوح مسلم طلباء جن کو ان کے والدین نے بچپن میں بنیادی دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کی فکر نہ کی ہو وہ قرآن مجید سے بھی اس کوممتازثابت کرنے کی سعی لاحاصل میں غیر محسوس طریقہ پر مبتلا ہوں گے۔
اگر آپ کہیں کہ معلومات میں اضافہ کے لیے جب ہمارے بچے اپنی تعلیم کے دوران سینکڑوں دیگر غیر درسی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس مد میں ایک گیتا کے مطالعہ سے کیا فرق پڑے گا۔۔۔؟۔
ہم ایسے لوگوں سے کہیں گے کہ مسئلہ صرف مطالعہ یا معلومات میں اضافہ کرنے یاتقابل ادیان کے لیے غیر اسلامی مذاہب کی مذہبی کتابوں کے پڑھنے کا ہوتاتو کوئی بات نہیں تھی، لیکن ان کتابوں کو پڑھنے سے ہمارے معصوم مسلم بچوں کے دلوں میں ان معبودانِ باطل کی جو عظمت بیٹھے گی ،ان کی عقیدت پیدا ہوگی ،ان کی محیرالعقول طاقتوں کاذہنوں میں جو نقش بیٹھے گااورا س کے بعد اس کاجو بھیانک نتیجہ سامنے آئے گااس کا کیاہوگا، اس کو سوچ کر ہی ایک کمزور ایمان والے کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔۔۔؟ اس کا اندازہ آپ صرف اس واقعہ سے لگاسکتے ہیں جس کا ذکر خود ہم نے ان ہی صفحات میں گذشتہ مرتبہ کیاتھا،واقعہ کچھ اس طرح تھا۔
چھ ماہ قبل کی بات ہے، ایک صاحب جو حکومتی سطح پربڑے منصب پر فائز تھے مجھ سے کہنے لگے مولانا :۔ میرا بچہ جس مشنری اسکول میں پڑھتا ہے شام کو گھر واپس آنے کے بعد کئی دنوں سے مجھ سے بحث کررہاہے کہ ہندوؤں کے ہنومان اوررام ہمارے اللہ سے زیادہ طاقتور ہیں، ان کی طاقت کے عجیب وغریب اور محیرالعقول قصے سناکر اللہ رب العزت کی طاقت کو وہ گھٹارہاہے ،کبھی گیتا کا کوئی واقعہ سناتاہے تو کبھی مہابھارت اور رامائن کے اقتباسات ،اسلام کی عظمت روز بروز اس کے دل سے گھٹتی جارہی ہے ،کیا کروں سمجھ میں نہیں آتا،میں نے کہا:۔ ایسی تعلیم سے جس سے الحاد آئے وہ جہالت بہتراور اللہ کو پسندہے جس سے ایمان باقی رہے،اعلی تعلیم کے شوق میں اپنے نونہالوں کو غیر اسلامی اسکولوں میں بھیجنے کا یہ نتیجہ تو ہوناہی ہے۔
دوسرا واقعہ سنئے:۔ اسی ہفتے کی بات ہے ، اسی ساحلی پٹی کے ایک اسکول کے ثقافتی پروگرام میں بڑی تعدادمیں طلباکو ننھے کرشن (Krishn)کالباس پہناکر اسٹیج پر لایاگیا ،اس میں اکثر مسلم طلباء ہی تھے جو مندروں میں موجود کرشن کے مجسموں کی شکل میں مذہبی بھگوا لباس میں ماتھے پر تلک لگائے اور گلے میں مالاپہنے اسٹیج پر آنے کو اپنے لیے اعزاز سمجھ رہے تھے اور ان کے والدین بڑے فخر سے اپنے معصوموں کی ان تصاویر کوسوشل میڈیا میں شیئر کررہے تھے،بالفاظ دیگر معبودان باطل سے اپنے معصوم بچوں کے تشبہ کو وہ شرکیہ عمل سمجھنے سے بھی قاصر تھے اور اللہ کے غیظ وغضب کا شکار ہورہے تھے۔
اس سلسلہ میں کچھ کامیاب تجربات:۔ اللہ کا شکر ہے ملکی سطح پر گیتا کے اس مقابلہ سے بھی بہت پہلے سے ملت کے مختلف افراد اوردعوتی ادارے قرآن مجید اور سیرت کے موضوع پر اس طرح کے مسابقات کا اہتمام کروارہے ہیں ، اگرچہ کہ یہ مقابلے خود مسلم طلباء کے درمیان کروائے جاتے تھے ،لیکن اب اس میں برادرانِ وطن کو بھی شریک کردیاجارہاہے،دعوتی مقصد کے تحت غیر مسلم برادران وطن کے لیے بھٹکل میں واقع مولاناابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی کے زیر اہتمام اس کے صدر حضرت مولانا محمد رابع صاحب حسنی ندوی دامت برکاتھم کی سرپرستی میں سات سال قبل اسی طرح کا ایک ہلکا سا دعوتی تجربہ کیاگیاتھا،۲۰۰۷ء میں پہلی دفعہ صوبائی سطح پر ایک انعامی تحریری مقابلہ رکھاگیا جس کا عنوان تھا ’’حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات میں امن کا پیغام‘‘ پہلاانعام ۲۵ ہزار روپئے ،دوسرا ۱۵ ہزار روپئے اورتیسرا انعام ۱۰ ہزار روپئے کا تھا، اس کے علاوہ بارہ خصوصی انعامات کا اعلان کیاگیا تھا،یہ مقابلہ صرف غیر مسلموں کے لیے خاص تھااور ان کو اس سلسلہ میں ڈاک کے ذریعہ توحید ورسالت اورآخرت کے موضوع کی مناسبت سے حسب خواہش انگریزی ،ہندی اور کنڑمیں مفت کتابیں روانہ کی گئیں، شریک مسابقہ کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں تھی ،نہ رجسٹریشن فیس تھی اور نہ مقالہ لکھنے کے لیے کسی سینٹر میں حاضری کی شرط تھی ، گھر میں بیٹھ کر لکھناتھا ،اس کے لیے کسی سے بھی مدد لی جاسکتی تھی ، ظاہر ہے کہ ان سے مقالات لکھوا کر اسلام کو امن کا مذہب ثابت کرنامقصود نہیں تھابلکہ ان کی نظروں سے اسی بہانے قرآنی ونبوی تعلیما ت کو گذارنا تھا ،اس لیے یہ سب سہولتیں دی گئیں ، تین ماہ کا موقع مقالہ لکھنے کے لیے دیاگیا، الحمدللہ تین سو سے زائد شرکاء نے اس میں حصہ لیا جس میں کالجس ویونیورسٹیوں کے طلباء وطالبات اور اساتذہ کے علاوہ پولیس ڈپارٹمنٹ اور سرکاری ملازمین بھی تھے ، آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ جس طالبہ کو پہلا انعام ملا اس نے یہ کہہ کر انعام لینے سے معذرت کی کہ آپ کی شرط کے مطابق یہ مقابلہ غیر مسلموں کے ساتھ خاص تھا ،میں مقالہ لکھتے وقت غیر مسلم تھی، لیکن مقالہ لکھتے وقت قرآن مجید کے مطالعہ کے دوران مجھے شرک کی تاریکی سے باہر نکل کر ایمان جیسی نعمت سے سرفراز ہونے کا موقع مل گیا، اس لیے آپ کی شرط کے مطابق میں اس انعام کی حقدار نہیں بن سکتی، اس لیے انعام لینے سے معذرت کرتی ہوں۔
اس کامیاب تجربہ کے بعد ملک کی5/6ریاستوں میں یہ مسابقات ہوئے اور الحمدللہ ہر جگہ اس طرح کے خوش کن ومسرت آمیز نتائج سامنے آئے اورالحمدللہ اس وقت بھی مختلف جگہوں پر سیرت کے مسابقات چل رہے ہیں،دوسال قبل عالمی سطح پر فیس بک پر بھی انعامی مقابلہ کا اعلان کیا گیا تو اس میں بھی ۲۶ ملکوں سے تین ہزار کے قریب غیر مسلم بھائیوں نے شرکت کی اور مقالے لکھے۔
ان مسابقات کے نتائج سے حوصلہ پاکرہم نے یہ تجویز دو تین عرب ملکوں کی وزارت اسلامی کو بھیجی ، صرف سلطنت عمان کی طرف سے حوصلہ افزا جواب ملا اور انھوں نے ۳سال قبل مسقط میں عمان ٹائمز کے معاون ایڈیٹر ہمارے دوست آفتاب صاحب کولا کے ذریعہ مقامی طور پر یہ مقابلہ کروایا، اس کے بڑے اچھے اثرات مرتب ہوئے ، مسقط میں منعقد تقسیم انعامات کے جلسہ میں راقم الحروف خود مدعوتھا ، ہم نے مسقط کے جلسہ تقسیم انعامات میں حکومت کے ذمہ داروں سے درخواست کی کہ ا س کامیاب تجربہ کے بعد اب وہ عالمی سطح پر حکومتی پیمانہ پر یہ مسابقہ کروائیں،اس کا انہوں نے وعدہ تو کیاتھا لیکن ابھی تک اس وعدہ کی تکمیل کا وقت شاید نہیں آیا ۔
گیتا کے مقابلہ سے مسلمانوں کو دعوتی فائدہ :۔ ہم مسلمان شر میں بھی خیر کے پہلو کے متلاشی ہوتے ہیں ، ناگفتہ بہ حالات میں بھی ان کے لیے مثبت نتائج کے امکانات رہتے ہیں،گیتا کے ملکی سطح پر اس کامیاب مقابلہ میں غیرہندوؤں بالخصوص مسلمانوں کی شرکت، اس مسابقہ پر متعلقہ ادارہ کی حکومت کی طرف سے حوصلہ افزائی اور عوامی سطح پر اس کی پذیرائی نے ہم مسلمانوں کو دعوتی اعتبار سے ایک سنہرا موقع فراہم کردیاہے ، ہم اہل حق ہونے کے باوجود اب تک مصلحتوں کے پیش نظر کھلم کھلا اور علی الاعلان قرآن مجید کی تعلیمات کو براہ راست اپنے غیر مسلم بھائیوں تک پہنچانے سے رکے ہوئے تھے ،اسلام کے فطری ،عقلی اور منطقی توحید ورسالت اور آخرت کے پیغام کو اپنے ہم وطنوں کے گوش گذار کرانے سے موہوم اندیشوں کی وجہ سے کنارہ کشی اختیار کئے ہوئے تھے ،ملکی سطح پر گیتا کے اس کامیاب تحریری مقابلہ کے بعد اب قرآن حکیم کے اس طرح کے مسابقات غیر مسلموں بالخصوص اسکولوں وکالجس کے طلباء میں کرانے کے لیے قانونی ودستوری اعتبار سے بھی اب ہمارے لیے کوئی رکاوٹ نہیں رہی ،اس پورے پس منظر میں اس ملک میں اس سے بہتر دعوت کا کوئی موقع شاید ہی ہمیں نصیب ہواہے،صرف منصوبہ بند طریقہ پر اس سے بھر پورفائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے ،ورنہ ہماری اس کوتاہی سے یہ سنہرا موقع قدرت کی طرف سے چھیناجاسکتاہے اور ہمارے لیے صرف کف افسوس ملنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں رہ جاتاہے،اس کے لیے مندرجہ ذیل تجاویز کو فوری روبہ عمل لایاجاسکتاہے۔
فوری کرنے کا کام :۔ ۱) مسلم ممالک بالخصوص خلیجی عرب ممالک کے سربراہوں تک یہ پیغام پہنچایاجائے کہ وہ کم ازکم اپنے ممالک میں برسرروزگار غیر مسلم بھائیوں تک اسلام کا پیغام پہنچانے اور اپنے دعوتی فریضہ کو انجام دینے اور اس کی عدم ادائیگی پر آخرت میں اپنی پکڑ سے بچنے کے لیے نقد بڑے انعامی اعلانات کے ساتھ اس طرح کے تحریری مسابقات کروائیں تاکہ اسی بہانے ان مسلم ممالک میں قیام کے دوران توحیدورسالت کاپیغام ان کی نظروں سے گذرے اور کائنات کے اللہ رب العزت کے تنہا خالق ومالک کا ان کو احساس ہو۔
سعودی حکومت ہرسال سیر ت کے موضوع پر بہترین تالیف پر عالمی سطح پر اول ،دوم اور سوم آنے والے مسلم شرکاء کو تقریباً ایک کروڑ روپئے انعام دیتی ہے، کسی سال وہ یہی ایک کروڑ روپئے صرف غیر مسلم مقالہ نگاروں کے ساتھ عالمی سطح پر خاص کرے اور اول آنے والے کے لیے ۵۰ لاکھ ،دوم کے لیے ۳۰ لاکھ اور سوم کے لیے ۲۰ لاکھ کا انعام رکھے ،پھر سوشل میڈیا میں اس کی تشہیر ہو ، مجھے یقین ہے اس مقابلہ میں قسمت آزمانے والوں کی تعداد ان شاء اللہ ایک لاکھ غیر مسلموں سے کم نہیں ہوگی اور براہ راست قرآن وحدیث کے اس دوران مطالعہ سے جن کو اللہ تعالی ہدایت سے نوازیں گے اس کا بھی ان شاء اللہ تصور نہیں کیا جاسکتا۔
جب ہندوستان میں صرف 50ہزاراور ایک لاکھ روپیہ کے نقد انعامات کے سیرت کے مقابلے کے اعلان سے ہزار دو ہزار غیر مسلم بھائیوں کی شرکت ہوسکتی ہے تو ایک کروڑ کے حکومتی پیمانہ پر نقد انعامات سے اس میں ان شاء اللہ شریک ہونے والوں کی کثرت کا اندازہ بھی نہیں لگایاجاسکتا ۔
ان عرب ممالک میں اسلامی اموراور اوقاف کی وزارتوں میں موجود ہمارے باحمیت مسلمان اگر اس پیغام کو اعلی سطح پر پہنچاکر اس طرح کے مسابقات کا نظم کروائیں گے تو عالمی سطح پر جلد ہی ہر مسلم ملک کی طرف سے اس طرح کے دعوتی پروگراموں کا ایک نہ ختم ہونے والا ان شاء اللہ ایک سلسلہ شروع ہوگا ۔
۲) خود ہمارے ملک میں ان تمام مسلم اسکولوں اور کالجس میں کم ازکم قرآن مجید میں موجود صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ پر بہترین مضمون نگاری کا صرف پانچ صفحہ کا مقابلہ کروایاجائے جہاں مسلم اور غیر مسلم دونوں طلباء زیرتعلیم ہیں ، حضرت ابراہیم کے واقعہ میں توحید کے عقلی ومنطقی دلائل بڑے مؤثر پیرائے میں بیان کئے گئے ہیں بالخصوص کم عمرکے غیر مسلم بچوں کو بچپن ہی سے شرک وکفر سے نفرت دلانے اور مسلم بچوں کے ایمان کو مستحکم کرنے میں اس واقعہ قرآنی سے بڑی مدد ملتی ہے،نبیوں کے قصوں پر مشتمل یہ واقعات ہرجگہ ریاستی زبانوں میں بھی دستیاب ہیں، اس کے لیے بہترین کتاب سہل انداز اور طلباء کی نفسیات کا لحاظ رکھتے ہوئے جولکھی گئی ہے وہ مفکر اسلام حضرت مولاناسید ابوالحسن علی ندوی ؒ کی قصص النبیین ہے جواصلاً عربی میں ہے اور دنیا بھر کے مختلف اسکولوں اور مدارس میں سالوں سے نصاب تعلیم میں داخل ہے ،اس کو الگ الگ قصوں کی شکل میں انگریزی میں بھٹکل میں مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی پوسٹ بکس نمبر ۳۰ بھٹکل کرناٹک کی طرف سے خوبصورت گرافک کے ساتھ ملٹی کلر میں شائع کیاگیاہے اور ان کتابچوں کو حکمتاً قرآن واسلام کا نام دیئے بغیر الگ الگ ٹائٹل دے کر طبع کیاگیاہے، مثلاً حضرت ابراہیم ؑ کے قصہ کو ٹھنڈی آگ The Cool Fire حضرت یوسفؑ کے قصے کو عجیب وغریب خواب The Wonderfull Dream حضرت عیسیؑ کے قصہ کومعجزہ کی کہانی(Story of Maracle) وغیرہ کے نام دئیے گئے ہیں، الحمدللہ یہ کتابچے بڑے مقبول بھی ہوئے اور کئی بندگانِ خدا کی ہدایت کا ذریعہ بھی بنے۔
۳) ملک کی یونیورسیٹیوں میں پہلے مرحلہ میں کم از کم خود مسلمانوں کے زیر انتظام اپنی یونیورسیٹیوں مثلاً علی گڑھ یونیورسٹی،عثمانیہ یونیورسٹی جامعہ ملیہ دہلی ،جامعہ ہمدرد ،انٹگرل یونیورسٹی لکھنؤ وغیرہ میں جہاں 30/40فیصد غیر مسلم طلباء ہیں ان کے شعبہ اسلامیات وغیرہ کی طرف سے بین المذاہب تقابلی مطالعہ کے عنوان سے قرآن مجید اور سیرت طیبہ کے کسی خاص پہلو مثلاً ’’قرآن مجید کی انسانیت نوازی پر مشتمل تعلیمات ‘‘ ’’غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک‘‘ وغیرہ جیسے کسی ایک موضوع پر کم از کم دس صفحات کی مضمون نگاری کا مقابلہ رکھاجائے ، اس دوران ان کو مفت قرآن مجید کے مطلوبہ نسخے مختلف ریاستی زبانوں میں فراہم کئے جائیں ، اسی بہانے ان کے گھروں تک ان شاء اللہ قرآن مجید پہنچے گا اور ان طلباء کے والدین اور گھر میں موجود ان کے دیگر بھائی بہنوں کو بھی قرآن مجید کو دیکھنے اور پڑھنے و سمجھنے بلکہ اس پر ایمان لانے کاان شاء اللہ قدرت کی طرف سے غیر معمولی موقع نصیب ہوگا۔
۴) ملک میں موجود مختلف دعوتی اداروں ، تنظیموں کی طرف سے ماہ رمضان المبارک ، محرم الحرام ، عیدالاضحی یا بارہ ربیع الاول کی مناسبت سے اپنے اپنے اضلاع یا صوبوں میں اپنے ہم وطن بھائیوں کے لیے اس طرح کے انعامی مسابقات کا اعلان کیاجائے جس میں براہِ راست اسلام اور قرآن کی دعوت کے نام سے نہ سہی انسانی واخلاقی عناوین کے تحت ان سے مقالے لکھوائے جائیں، مثلاً’’جنگوں میں قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کی اسلامی تعلیمات‘‘ دین کے معاملے میں جبرواکراہ کے نہ کرنے کا قرآنی پیغام‘‘ ’’دشمنوں کے ساتھ اخلاق واکرام کی نبوی ہدایات‘‘ ’’انسانی بھائی چارگی کے اسلامی ارشادات‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
ظاہر بات ہے کہ ان سب موضوعات پر لکھنے کے لیے ہمارے ان غیر مسلم بھائیوں کو سب سے پہلے قرآن مجید کا پھرسیرت نبوی کا مطالعہ کرناپڑے گااور لامحالہ اس کی طرف رجوع کرنا پڑے گا، اس طرح غیر محسوس طریقہ پر ان کی نظروں سے قرآنی وربانی تعلیمات کا ایک بڑا حصہ گذرے گا اور ہمارے کاندھوں پر عائد دعوتی فریضہ کی اہم ذمہ داری کی ادائیگی بھی اس دوران ان شاء اللہ ہوجائے گی۔
مذکورہ بالا دعوتی تجاویز کو روبعمل لانے سے ان شاء اللہ امید ہے کہ جلد ہی دعوتی اعتبار سے مسلمانوں کے حق میں اس کے مثبت اثرات بھی مرتب ہوں گے اور عالمی وملکی سطح پر مسلمانوں کے لیے موجود ناگفتہ بہ حالات کے بدلنے میں بھی اس سے ان شاء اللہ بڑی مدد ملے گی ۔ وَماَذٰلِکَ عَلیٰ اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ
جواب دیں