غزل
عزیز بلگامی
ہے نفس باغی و سر کش تم اِ س کو مارو تو
سوار ہو گیا ۔۔۔سر پر۔۔۔ اِسے اُتارو تو
اُلجھ رہے ہیں قلم اب بھی زلفِ پیچاں سے
خیال و فکر کے گیسو۔۔۔ کبھی سنوارو تو
ہماری یاد نہ کی تم نے، جب بھی جیت گیے
یقیں ہے یاد کروگے ہمیں، جو ہارو تو
خدا کے گھر میں عطابھی، رفوگری بھی ہے
ہے تار تار جو دامن تو کیا۔۔۔!، پسارو تو
سخنوری کے ہیں اطوار کفر جیسے کیوں
اذان کان میں فن کے، کبھی پکارو تو
محافظین ہیں خود سر بھی اور ظالم بھی
تم ان میں جذبۂ اِنسانیت اُبھارو تو
جو شعر پڑھتے ہوئے رقص کرتے رہتے ہیں
عزیزؔ مشورہ ہے روپ اُن کا دھارو تو
غزل
ڈاکٹر جاوید جمیل
اک غم_عشق ہی کب ہے، ہمیں غم اور بھی ہیں
صرف معشوق نہیں، اہل_ستم اور بھی ہیں
تو نہ ہوتا تو کہاں آتا یہ انداز_سخن
بے وفائی ہی نہیں، تیرے کرم اور بھی ہیں
تیرے لوٹ آنے کی رکھیں گے نہ کوئی امید
پالنے ہونگے بھرم ہی تو بھرم اور بھی ہیں
آ گئے پاس، نہ رک، اور بڑھا دے رفتار
راہ_منزل میں ابھی چند قدم اور بھی ہیں
ہم اگر مٹ بھی گئے، حق نہیں مٹنے والا
جنکو اٹھنا ہے ابھی، حق کے علم اور بھی ہیں
ہم نے ٹھکرا کے صنم سارے، چنا ایک خدا
وہ ہمیں آکے بتاتے ہیں صنم اور بھی ہیں
جنکی تحریروں میں ہوتی ہے کوئی کام کی بات
صرف جاوید نہیں، اہل_قلم اور بھی ہیں
جواب دیں