مرکزی سرکار کی طرف سے نرسمہا راؤ کو بابری مسجد ڈھانے کا انعام

آج ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی سرکار انھیں اس کام کا انعام دینا چاہتی ہے اور اس غیر آئینی کام کو تاریخی شکل دینا چاہتی ہے۔ کانگریس سرکار کی طرف سے نظرانداز کئے گئے سابق وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ کی موت کے دس سال بعد مودی حکومت نے اب ان کو احترام دینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس ضمن میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ راجدھانی میں ان کی سمادھی بنوائی جائے گی۔ذرائع کے مطابق مرکزی حکومت نے جمنا ندی کے کنارے پر ان کی ایک یادگار بنانے کی تجویز پیش کی ہے۔وزارت برائے شہری ترقیات نے اس سلسلے میں ایک کابینہ نوٹ تیار کیا ہے۔ یہ نوٹ آندھرا پردیش حکومت کی طرف سے یہ تجویز ملنے کے بعد تیار کیا گیا ہے کہ راؤ کی یاد میں ایک مناسب یادگار بنوائی جائے گی۔ راؤ کو ملک میں اقتصادی اصلاحات کا سفیراول سمجھا جاتا ہے مگر اسی کے ساتھ انھیں بابری مسجد کی شہادت کے لئے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اب تک میڈیا میں جو حقائق آتے رہے ہیں، ان سے ثابت ہوتا ہے کہ پی وی نرسمہاراؤ اور یوپی کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کی ملی بھگت سے مسجد شہید کی گئی تھی۔ ’’نئی دنیا‘‘ نے اس سلسلے میں سازش کا انکشاف وقت رہتے کردیا تھا اور ان تمام تیاریوں کی جانکاری بابری مسجد کی شہادت سے پہلے ہی دیدی تھی مگر اس وقت کے وزیر اعظم نے دیدہ ودانستہ اسے نظر انداز کیا تھا اور کارسیوکوں کو روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ایڈیٹر ’’نئی دنیا ‘‘شاہد صدیقی نے اس سلسلے میں قومی یکجہتی کونسل کی مٹینگ نومبر ۱۹۹۲ء میں اپنی تقریر کے دوران حکومت کو خبردار کیا تھا اور کہا تھا کہ اجودھیا میں مسجد کے انہدام کی تمام تیاریاں مکمل کی جاچکی ہیں اور کسی بھی لمحے مسجد پر حملہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر مرکزی سرکار نے اس کے خلاف ایکشن نہیں لیا اور کلیان سنگھ سرکار کو برخواست نہیں کیا تو مسجد کی انہدام کے لئے وہ بھی ذمہ دار ہوگی مگر باوجود اس کے نرسمہا راؤ نے کوئی کارروائی نہیں کی اور خاموش تماشائی بنے رہے۔ انھوں نے اس وقت تک کلیان سنگھ کی سرکار کو برخواست نہیں کیا جب تک کہ مسجد کے مقام پر ایک عارضی مندر نہیں بن گیا۔ اس واقعے کے بعد کانگریس کو شدید دھچکا لگا تھا اور بعد کے الیکشن میں وہ اقتدار سے محروم ہوگئی تھی۔ راؤ کی موت کو اب دس
سال ہوچکے ہیں اور کانگریس نے اپنے اس لیڈر کی یادگار قائم کرنے سے انکار کردیا تھا مگر اب مرکز میں بی جے پی کی سرکار ہے جو جمنا کنارے ان کی یادگار قائم کرنے کے لئے بے چین ہے۔ 
کانگریس سرکارنے یادگار قائم کرنے سے انکار کیا تھا
راؤ نے مرکز میں 1991 سے 1996 کے درمیان کانگریس حکومت کی قیادت کی تھی۔ 2004 میں ان کی موت کے بعد کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے حکومت نے ان کے لئے کوئی یادگار بنانے سے انکار کر دیا تھا۔یو پی اے حکومت نے اصل میں اس معاملے میں اور آگے جاتے ہوئے 2013 میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ کسی لیڈر کے لئے اب الگ سے کوئی یادگار نہیں بنے گا۔ اس فیصلے کے پیچھے اس نے جگہ کی کمی کا حوالہ دیا تھا۔اس کے مقام پر جگہ کی کمی کے پیش نظر ایک مشترکہ یادگار سائٹ بنایا گیاتھاجو 22.56 ایکڑ سے زیادہ زمین میں بنا ہے اور وجے گھاٹ کے بعد جمنا ندی کے کنارے واقع ہے۔اس احاطے میں فی الحال سابق وزیر اعظم اے کے گجرال ، چندرشیکھر اور سابق صدور گیانی ذیل سنگھ، شنکر دیال شرما، کے آر نارائنن کی یادگاریں ہیں۔ نئی تجویز کے مطابق راؤ کی یادگار کے طور پر ماربل کا ایک کالم بنوایا جائے گا، جس میں سابق وزیر اعظم کے اعزاز میں ایک تختی لگائی جائے گی۔
یہ انعام نہیں تو کیا ہے؟
مودی حکومت کے ذریعے دہلی میں سابق وزیر اعظم نرسمہا راؤ کی یادگار بنانے کی خبروں پر اترپردیش کے وزیر برائے پارلیمانی امور اعظم خاں نے بی جے پی پر حملہ بولا ہے۔ اعظم نے کہا کہ یہ راؤ کو اجودھیا میں بابری مسجد کو ڈھا کر وہاں چبوترا بنوا دینے کے لئے انعام جیسا معاملہ ہے ۔انھوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ،میری معلومات میں آیا ہے کہ مرکزی حکومت نرسمہا راؤ کے نام پر ایک یادگار بنوانے جا رہی ہے۔ یہ 1992 میں آر ایس ایس کے ساتھ خفیہ معاہدہ کرکے 6 دسمبر کو متنازع بابری مسجد ڈھانچے کو گرواکر آٹھ دسمبر کو وہاں چبوترا بنوا دینے کا انعام ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ، مرکزی حکومت کی کوشش یہ ہے کہ 1992 میں وزیر اعظم رہے نرسمہا راؤ اور آر ایس ایس کے درمیان خفیہ معاہدے کے بعد ایودھیا میں جو ہوا، وہ تاریخ کا حصہ بن جائے اور دنیا بھر سے دہلی آنے والے سیاحوں کو مسجد کی مسماری کا پیغام دیا جا سکے۔ اعظم خان نے کہا کہ اس قسم کے کام معاشرے میں باہمی رشتوں کو خراب کرنے کا کام تو کر سکتے ہیں، رشتے بنانے والے نہیں ہو سکتے۔
نرسمہاراؤ پر مہربانیوں کا مطلب
بی جے پی کی طرف سے کانگریس کے ان لیڈروں کو اہمیت دینے کا سلسلہ ادھرکچھ دن سے چل رہا ہے جنھیں کانگریس نے نظر انداز کر رکھا ہے۔ایسے لیڈروں میں نرسمہاراؤ کے علاوہ سابق وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل بھی شامل ہیں۔ اس کڑی میں اب وزیر اعظم کے طور پر پانچ سال پورے کرنے والے گاندھی، نہرو خاندان سے باہر کے پہلے پی ایم پی وی نرسمہا راؤ شامل ہوگئے ہیں جن کی نریندر مودی اور ارون جیٹلی جم کر تعریف کرچکے ہیں۔ انہیں ایک طرح سے اندرا اور راجیو گاندھی سے بہتر پی ایم بتایا گیا ہے۔ راؤ کے دور اقتدار میں اہم اپوزیشن پارٹی کے کردار ادا کرنے والی بی جے پی نے ان کے دور اقتدار کو بے حد اہم قرار دیا ہے۔بی جے پی کے وزیر اعظم نریندر مودی کی
اقتصادی پالیسیوں پر لکھی گئی ایک کتاب کے اجراء کے موقع پر بی جے پی لیڈر ارون جیٹلی نے راؤ کی جم کر تعریف کی تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی معیشت میں تبدیلی لانے کا پہلا کریڈٹ راؤ کو جاتا ہے۔ جیٹلی نے راؤ کو کانگریس وزرائے اعظم کی قطار میں آگے کھڑا کرتے ہوئے کہا کہ 1970۔80 کا دہائی میں مواقع کو گنوا دیا گیا تھا۔ملک میں اقتصادی اصلاحات کی پہلی لہر راؤ کے دور میں ہی آئی۔جیٹلی کا کہنا تھا کہ راؤ کے لئے اقتصادی اصلاحات کی پالیسیوں پر کام کرنا ان کے بعد پی ایم بنے بی جے پی کے اٹل بہاری واجپئی کے مقابلے زیادہ مشکل رہا ہوگا۔کچھ وقت سے بی جے پی، کانگریس کے ان لیڈران کے نام سے فائدہ اٹھانے میں لگی ہے، جنہیں کانگریس میں خاص احترام نہیں ملا ہے۔ مودی نے سردار پٹیل کی مورتی کو لے کر ان کی وراثت پر دعوی ٹھوک دیا ہے اور اس کو لے کر کانگریس نائب صدر راہل گاندھی اور مودی میں زبانی جنگ بھی چھڑی تھی۔ اس کے علاوہ بی جے پی نے سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری اور موجودہ صدر پرنب مکھرجی کو بھی اس سلسلے میں شامل کیاہے۔ کولکاتا کی ایک ریلی میں نریندر مودی نے کہا تھا کہ لیاقت کے باوجود کانگریس نے پرنب کو وزیر اعظم نہیں بنایا۔ اسی کڑی میں اب بی جے پی کی جانب سے راؤ کی تعریف آئی ہے۔ 1991 میں کانگریس کی جانب سے وزیر اعظم بنے راؤ اپنی میعاد مکمل کرنے والے ملک کے پہلے ایسے وزیر اعظم تھے جو گاندھی، نہرو خاندان سے نہیں تھے۔ اگرچہ وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹنے کے بعد انہیں کانگریس میں کنارے کر دیا گیا تھا۔
کوبراپوسٹ کا اسٹنگ آپریشن
بابری مسجد کی شہادت میں اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہاراؤ کی ملی بھگت تھی اس بات کا اقرار ان سبھی لوگوں نے ایک اسٹنگ آپریشن میں کیا تھا جو ابھی سال بھر پہلے ’’کوبرا پوسٹ‘‘ نے کیا تھا۔گزشتہ سال کوبرا پوسٹ نے ’’آپریشن رام جنم بھومی‘‘ نام سے ایک اسٹنگ کیا تھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بابری مسجد کو منصوبہ بند طریقے سے گرایا گیا اور اس کی اطلاع بی جے پی اور آر ایس ایس کے کچھ اعلی لیڈروں کو تھی، ساتھ ہی ساتھ اس وقت کی مرکزی سرکار بھی اس سازش میں ملوث تھی۔ کوبرا پوسٹ نے کا دعوی کیا تھا کہ بابری مسجد کو گرانے کے لئے ایک ٹیم تیار کی گئی تھی اور اسے خاص طرح کی ٹریننگ بھی دی گئی تھی۔ یہی نہیں اگر ساری منصوبہ بندی ناکام ہو جاتی، تو ڈھانچے کو بارود سے گرانے کی بھی تیاری تھی۔ ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات سے کچھ دن پہلے کوبرا پوسٹ کا بابری مسجد سے منسلک یہ اسٹنگ آپریشن سامنے آیا تھا۔اس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بابری مسجد کے انہدام کی سازش کا پتہ بی جے پی کے سینئر لیڈر ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اس وقت یوپی کے وزیر اعلی کلیان سنگھ کو تھی۔ نیز کہیں نہ کہیں مرکزی سرکار کی بھی اس میں رضامندی شامل تھی۔حالانکہ بی جے پی نے الیکشن کمیشن سے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ اس کے نشر پر پابندی عائد کردی جائے کیونکہ اس کا مقصد الیکشن کے پر امن ماحول کو بگاڑ نا ہے۔

«
»

ارکان پارلیمنٹ کیلئے مشاہرات اور غیر معمولی سہولتیں کیوں

یمن ، عراق اور شام کے حالات مزید خطرناک موڑ اختیار کرتے جارہے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے