مرکز نظام الدین دہلی میں کرونا مشتبہ مریضوں کے تعلق سے میڈیا پر مچا ہنگامہ، اصل حقائق ہیں کیا…؟؟

عتیق الرحمن ڈانگی ندوی 

فکروخبر کی خصوصی رپورٹ 

    دنیا بھر میں کرونا کی خبروں کے درمیان گذشتہ دو دونوں سے ایک خبر مرکزنظام الدین کے تعلق سے اخباروں اور ٹی وی چینلوں میں گردش کررہی ہے کہ وہاں پر بڑی تعداد میں کرونا سے متعلق مشتبہ مریض پائے گئے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ میڈیا میں اس خبر کو لاکر مرکز کو بدنام کرنے کی گھناؤنی سازش جاری ہے جبکہ کرونا سے جڑی خبروں کے درمیان بہت سی ان خبروں کے حقائق منظر عام پر آنے ضروری ہیں جو ابھی تک اس انداز سے سامنے نہیں آئے ہیں جس طرح آنے چاہیے۔ 
مرکزی نظام الدین میں دو ہزار افراد کے ایک جگہ رکنے کو لے کر میڈیا میں جس طرح سے ہنگامہ مچایا جارہا ہے اس کے حقائق سامنے آنے اس لیے ضروری ہے کہ وہ افراد وہاں کیوں رہنے پر مجبور ہوگئے۔ یہ بات سب سے زیادہ اہم ہے کہ کیا مرکز میں قیام پذیر جن افراد کی نشاندہی کی گئی ہے وہ ہمیشہ مرکز ہی میں رہتے ہیں یا پھر وہ مختلف علاقوں کے افراد ہیں جو دعوتی اور تربیتی پروگرام میں شرکت کے لیے یہاں آتے ہیں۔ 
مرکز کے ذمہ دار مولانا محمد سعد کاندھلوی صاحب کی طرف سے ایک وضاحتی آڈیو کلب یوٹیوب پر نشر کی گئی ہے جس میں مولانا نے صاف طور پر کہا ہے کہ یہاں کوئی مجمع اکٹھا نہیں کیا گیا بلکہ ہمیشہ یہاں کچھ لوگ آتے ہیں تو کچھ لوگ روانہ ہوتے ہیں اور یہ مستقل یہاں کا ایک نظام ہے جس سے انتظامیہ بھی خوب واقف ہے۔ جب لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تو ہم نے خود اس کی کوشش کی کہ یہاں سے مجمع روانہ کیا جائے۔ ڈی ایم سے بات چیت کرکے مسئلہ کی نزاکت کو سامنے رکھا گیا اور ان سے درخواست کی گئی ہے کہ فوری طو رپر یہاں سے لوگوں کو روانہ کرنے کا انتظام کیا جائے، کیونکہ نقل وحمل کے ذرائع بند ہوگئے تھے۔ ڈی ایم نے کہا کہ حالات ایسے ہیں کہ فوری طور پر کچھ انتظامات نہیں کیے جاسکتے۔ اگر آپ نجی سواریوں کا انتظام کریں تو کچھ سوچا جاسکتا ہے۔ ڈی ایم کے مشورہ پر کچھ کاروں کا انتظام کیا گیا ہے اور کئی افراد کو یہاں سے روانہ کیا گیا ہے۔ مولانا سعد صاحب نے اپنے بیان میں صاف طور پر کہا ہے کہ یہ جملہ کارروائیاں قانونی طور پر انجام دی جارہی ہیں، جو مجمع یہاں جمع تھا اس کو نکالنے کے لیے حکومت نے انتظام کیا ہے اور مستقل یہاں سے لوگوں کو اسپتالوں اور خصوصی کیمپ میں بھیجا جارہا ہے۔ یہاں سے روانہ کیے گئے افراد میں اب تک کوئی بھی کرونا کا مریض نہیں پایا گیا ہے۔ 
 ہندوستان کا مشہور ہندی اخباردینک بھاسکر میں راہل کوٹیال کے مضمون میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ وہ افراد یہاں کیوں مقیم تھے۔ انتظامیہ کے حوالہ سے انہوں نے لکھا ہے کہ یہاں کسی بھی اصول کی خلاف ورزی نہیں کی گئی ہے۔ وزیر اعظم مودی کے ذریعہ اعلان کردہ جنتا کرفیو کے ساتھ ہی ملک بھر کی ٹرینیں منسوخ کردی گئیں اور اس کے بعد ہی دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے دہلی میں 23/ مارچ سے 31مارچ تک لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا اور پھر 25مارچ سے پورے ملک میں لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا گیا، ایسی صورتحال میں مرکزمیں مقیم لوگ کہیں نہیں جاسکتے تھے۔ انتظامیہ کے حوالہ سے اس مضمون میں لکھا گیا ہے کہ 1500افراد کو کسی نہ کسی طرح نجی گاڑیوں کے ذریعہ گھروں تک پہنچایا گیا اور اتنی ہی تعداد میں لوگ یہاں پھنس گئے۔ 
    حکومت نے کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے لاک ڈاؤن کا اعلان تو کردیا لیکن ان لوگوں کے متعلق کچھ نہیں سوچا جو سفر میں ہیں یا اپنے نجی کام کے لیے گھر سے دور تھے جو کچھ ہی دنوں بعد گھر لوٹنے والے تھے۔ مرکز میں بھی یہ صورتحال اسی فیصلہ کی وجہ سے پیدا ہوگئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لاک ڈاؤن سے پہلے ملک کی صورتحال کا جائزہ لیا جاتا اور گھروں سے باہر موجود افراد کو گھروں میں لوٹنے کی سہولتیں فراہم کی جاتیں، زائد ٹرینیں اور بسیں چلاکر حکومت لوگوں کو گھروں تک پہنچانے کا انتظام کرتی لیکن ایسا کیوں نہیں کیا گیا اس بات کا جواب شاید ہی مل جائے۔ یہ وزارتِ صحت کی طرف سے اشارہ ملنے پر کیا گیا فوری فیصلہ ہے جس کی حکمت و مصلحت کا اندازہ ہر ایک کے لیے لگانا بھی آسان نہیں ہے۔
    حکومت کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ملک میں اقدامات کررہی ہے اور جب بھی کوئی مشتبہ مریض سامنے آجاتا ہے تو اسے فوراً علاج فراہم کیا جاتا ہے، ایسے حالات میں جب کہ یہ خبریں آرہی ہیں کہ مشتبہ مریضوں کے لیے حکومت نے بڑے اقدامات کیے ہیں اور انہیں اسپتالوں میں منتقل کرکے ان کا علاج شروع کردیا ہے،اس میں اہم یہ ہے کہ یہاں غلطیوں کو اچھالنے کے بجائے مثبت اقدامات سب سے اہم ہیں۔ محکمہئ صحت کے جوائنٹ سکریٹری لا اگروال نے پریس کانفرنس میں اسی کا اظہار کیا کہ یہ وقت غلطی تلاش کرنے کا نہیں بلکہ جو بھی معاملہ سامنے آتا ہے اس سے نمٹنے کے لیے اقدامات اہم ہیں۔ 
    میڈیا میں مرکز نظام الدین میں موجود افراد کے ایک ہی جگہ پر جمع ہونے پر بات ہورہی ہے تو بات لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد ایودھیا میں اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی موجودگی میں منعقدہ پروگرام پر ہی ہونی چاہیے جہاں بھی سینکڑوں کی تعداد میں لوگ جمع ہوگئے اور لاک ڈاؤن کے احکامات کی خلاف ورزی کی۔ اسی طرح میڈیا کو وہ معاملہ بھی اس ناحیہ سے اٹھانا چاہیے کہ دہلی میں ہزاروں کی تعداد میں مزدور ایک ہی مقام پر جمع ہوگئے اور اپنے اپنے گھروں کو جانے کے لیے بس اور ٹرین کی سہولیات نہ ہونے سے پھنس کر رہ گئے۔ کیا اس طرح جمع ہونے سے کرونا وائرس کے پھیلنے کے اندیشے نہیں ہوتے، کیا ان دونوں مقامات پر جمع افراد کا بھی کرونا ٹیسٹ کیا جائے گا؟ 
    اسی لیے کسی بھی معاملہ کو بات کا بتنگڑ بناکر پیش نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ میڈیا کا اصل کام حقائق سے روشناس کرانا ہے۔ ہاں یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ کرونا وائرس کے انفیکشن سے بچاؤ کے لیے ایک دوسرے سے دوری بنائے رکھنا ضروری ہے لیکن یہ اصول ہر جگہ نافذ ہوگا تبھی کرونا وائرس کا بچاؤ ممکن ہے۔

«
»

تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے کی اصلیت سامنے آنے لگی

چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے