تحریر ۔ سید ہاشم نظام ایس ایم ندوی
دبئی متحدہ عرب امارات میں واقع" محيصنه "کی عالیشان مسجد میں چہار گانۂ عشاء ادا کی ، نماز کے بعد کوئی بتانے والا یہ بتا گیا کہ جناب محمد مظفر کولا صاحب کا انتقال ہو ا، اور یہ مختصر جملہ کتنے دلوں پر بجلی گرا گیا۔علالت اور نازک حالت کی خبریں کئی دنوں سے آرہی تھیں،اس کے با وجود جب موت کی خبر آئی تو واقعہ کی اہمیت اور صدمہ کی شدت میں ذرا بھی کمی نہیں ہو پائی، ایسا لگا کہ گویا مرحوم ہشاش و بشاش صحت و عافیت کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے،اور اچانک یہ خبر کانوں سے ٹکراگئی۔ خبر کی تصدیق کے لئے بہت گھبرا کر ان کے فرزند اور میری بڑی ہمشیرہ کے داماد جناب ابو بکر کولا سے رابطہ کیا، ایک حد تک تصدیق ہو چکی تھی، پھر بھی گویا کہ کانوں نے غلط سن لیا ہو،اس لئے دوبارہ تصدیق کے لئے ان کے دامادہمارے دوست مولانا شکیب احمد شاہ بندری کو فون ملایا، کئی بار کوشش کرنے کے بعد ان سے بات ہو سکی، خبر یقین میں تبدیل ہوگئی ۔ إنا لله و إنا إليه راجعون۔
یوں خالقِ کائنات کی مشیت اور مصحلت و حکمت کے آگے کس کا بس چل سکتا ہے، فیصلۂ خداوندی پر کون کیا کہہ سکتا ہے۔جو کل تک ہر غمزدہ اور پریشان حال کے لئے مجسم تسکین و تشفی کا سامان بہم پہنچاتا تھا آج اس کے غم میں کون اسے تسلی دے ؟جو کل تک دوسروں کو ہمت دے رہا تھا،آج اس سانحۂ ارتحال پر کون اسے ہمت دے؟اسی احساس کے ساتھ استاذِ جامعہ اسلامیہ مولانا شعیب صاحب ندوی اور رفیق مولانا محمد سلیم صاحب کے ہمراہ جناب ابو بکر صاحب کے گھر حاضری ہوئی ۔مختصرا تعزیتی گفتگو رہی، پسماندگان کو صبر ِ جمیل کی تلقین کے ساتھ قضا و قدر پر راضی برضا رہنے کا پیغام دے کر دیر رات گھر پہنچے ۔
آہ مظفر کولا صاحب ۔ کس قدر مبارک دن تھا کہ قرآن کے لیالی عشرکا آغاز، ذو الحجہ کے چاند کی رؤیت ،ماہِ مبارک کی آمد آمد، فضا میں رو حانیت ہی روحانیت، ہر جگہ برکتیں ہی برکتیں،روئے زمین خوشیوں سےمسرور، زبانِ خلق تکبیرِ مسلسل سے معمور، یہی رات آپ کی زندگی کی آخری رات بن گئی،کتنی خوب صورت سمت پر آپ کی زندگی کا سورج غروب ہوا ، ادھر ذو الحجہ کے پہلے عشرہ کا آغاز ، سال کے مبارک ایا کی شروعات اور ادھرایک صاحبِ خیر بندۂ مومن کی حیاتِ مستعار کے آخری لمحات، یعنی وہ ہجری اعتبار سے زندگی کی ایکہتر بہاریں گزارکر داعئ اجل کو لبیک کہہ گئےاور اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔
اوصاف و کمالات ۔
خوشحال گھرانے میں پیدا ہوئے، خدا کے فضل سے گھرانہ دیندار پایا تھا،آپ کے والدِ ماجد جناب ابو بکر کولا مرحوم کاشمار شہر کے با اثر لوگوں میں ہوتا تھا، جو خود اچھی سوچ اور اچھی فکر کے حامل تھے اور جن کو شعر و سخن کا بھی اچھا ذوق تھا، اسی لئے مرحوم مظفر صاحب کی سوچ بھی اچھی رہی اورنظریہ و فکر بھی اچھا رہا اور والدِ ماجد کی تربیت کا اثر ان پرایسا رہاکہ ان کا ذہن بھی ہمیشہ مذہبی رہا اورہمیشہ دین پسند اور دین دار رہے۔بالخصوص آخری دس سالوں سے دین وشریعت سے زیادہ لگاؤ رہا، نماز و روزوں کی پابندی کے ساتھ ساتھ ذکر و اذکار اور صحبتِ با اہلِ دل کے اہتمام میں رہنے لگے۔
تعلقات اگر بڑے بڑے امراء و رؤساء کے ساتھ تھے تو صحبتیں اور روابط علماء اور مشائخ کے ساتھ بھی رہیں، اجتماعی اور معاشرتی زندگی میں جہاں بہت کام کیا، وہیں قومی اداروں اور تنظیموں کے بھی معاون رہے اور جماعتی استحکام میں بھی پورا ساتھ دیا، مگر سب سے بڑا وصف یہ رہاکہ اداروں میں بحیثیتِ رکن یا ممبر رہنے یا اداروں کے لئے معاون ومددگار بننے کے باوجود اپنی بڑائی کو پسند نہیں کرتے تھے، کبھی عہدوں اور منصبوں کے پیچھے نہیں گئے، بلکہ پیش کرنے پر بھی قبول نہیں کیا، ایک عام ممبر بن کر رہنا پسند فرمایا ۔ان کے اندرتکبر و بڑکپن نہیں تھا، چھوٹوں سے بھی اسی انداز سے ملتے جیسے بڑوں سے ملتے ، نئے لوگوں سے بھی ملتے تو اس طرح بغل گیر ہوتے اور اپنائیت دیتے کہ ملنے والے بہت جلد بے تکلف ہوجاتے۔خوش مزاجی اور ملنساری عادتِ ثانیہ بن گئی تھی، ان کے اندر صلاحیت تھی ، جوش و جذبہ تھا، آگے بڑھنے کا حوصلہ تھا ، خدمتِ خلق میں آگے آگے تھے ۔
آپ کی زندگی میں صبر اور شکر کے دونوں اوصاف نمایاں تھے،جو کہ ایک مومنِ کامل ہونے کی علامت ہوتی ہے،جہاں آپ نےکچھ نہ ملنے پر صبر کیا تھا وہیں ملنے پرعملی شکر ادا کر کے دکھایا، عمر کے ابتدائی اور آخری دونوں مرحلوں میں صبر کے مراحل سے گزرنا پڑا، اگر ابتدائی زمانے میں مادی مسائل پر صبر کیا تو آخری زمانے میں بیماری سے دو چار ہو کر ۔مگر کبھی حرفِ شکایت زبان پرآنے نہیں دیا، خیریت پوچھنے پر ہمیشہ اللہ کی بڑائی و عظمت کے بول سے جواب دیا ۔
سخاوت و فیاضی اور مہمان نوازی ۔
مرحوم کی سخاوت اور فیاضی نےاپنا سکّہ جما لیا تھا، زندہ دلی اور فیاض طبعی بے مثال تھی، لوگوں کو کھلانے پلانے میں سبقت لے جاتے، دینے دلانے میں ہمیشہ آگے رہے، مساکین و فقراء کا بہت خیال رکھتے، عزیزوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا انداز ہی جدا تھا، اپنوں سے اپنائیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، بستی والوں کا خاص خیال رکھا اور اطراف و اکناف کے لوگوں کو بھی ساتھ رکھا، دینی، سماجی کاموں کے لئے اسفار بھی کرتے رہے، دیہاتوں کے دورے بھی کئے،اور اس راستہ میں قریب و دور کا خیال بھی نہیں رکھا،سفر پربھی خود اکیلے نہیں بلکہ اپنے ساتھ دو چار ہم خیالوں اور چاہنے والوں کو ساتھ ضرور رکھتے ،آپ جہاں جاتے وہاں کی ضرورتوں سے واقف ہونے کی کوشش کرتے، حتی المقدور خود ہی ضرورت پوری فرماتے، ورنہ اپنے ذریعے ہی سے اس کی تکمیل کاانتظام کرتے ۔
گھر میں مہمانوں کو بلانا، انھیں عزت دینا،کسی کے نہ آنے پر ناگواری کا اظہار کرنا اور اگلی بار آنے کے لئے دوبارہ آمادہ کرنا ، ایسی کچھ صفات تھیں، جنہیں وہ اپنے لئے باعثِ سعادت سمجھتے تھے،بالخصوص جب آپ کی رہائش گاہ دیرہ عیدگاہ کے قریب تھی توعیدین کے موقعوں پر کافی پہلے سے تیاریاں کرتے ، خاص احباب کو فون کر کے نمازِ عید کے بعد گھر آنے کی دعوت دیتےتھے،راستہ چلتے وقت ملنے جلنےوالوں کو بھی بلاتے ، اسی لئے آپ کے گھر جانے میں کوئی تکلف محسوس نہیں کرتا تھا، اور عید کی نماز کے فورا بعد احباب آپ کے گھر چلے آتے تھے ۔مرحوم اپنے گھر مہمانوں کی آمد کو رحمتِ خداندوی کا نزول سمجھتے، اس پر اپنے خالق کا شکر ادا کرتے،ان کے گھر کی ایک دیوار پر موجود یہ شعر اس کی گواہی پیش کرتا ہے ۔
شکرخالق کاادا کر آمدِ مہمان پر رزق اپنا کھا رہا ہے تیرے دستر خوان پر
وہ جہاں کہیں رہے انکی رہائش گاہ میں ہمیشہ مہمانوں کی آمد ورفت لگی رہی، بالخصوص اہلِ علم یا بزرگوں کی آمد پر خصوصی نشستوں اور مجلسوں کا انعقاد کرنا آپ کا معمول رہا،جس سے خود بھی مستفید ہوتے اور ہر ایک کو مستفید ہونے کے مواقع فراہم کرتے تھے، اگر شہر کے کسی بھی ادارے یا تنظیم کی طرف سےپروگرام رکھنے کی درخواست کی جاتی تو حتی الامکان اس کو ترتیب دینے کی کوشش کرتے تھے۔
ظرف جو ہاتھ میں آیا وہی پیمانہ بنا جس جگہ بیٹھ گئے ہم وہیں میخانہ بنا
انفاق فی سبیل اللہ اوردے کر بھول جانا۔
انفاق فی سبیل اللہ خالقِ کائنات اور مالک الملک کا حکم ہے،یہی آخرت کا حقیقی توشہ بھی۔زکوٰۃ ،صدقات اورعطیات میں سبقت کرنا سچے مومن کی علامت ہے، دولت جہاں اللہ کی نعمت ہے ، وہیں وہ انسان کے ہاتھ میں ایک بہت بڑی امانت بھی ہے، اسی لئے دینے والے خالقِ کائنات ہی نے خرچ کرنے اور دوسروں کا خیال رکھنے پر ابھارا ہے، اس کو مال میں اضافے کا سبب بتلایا ہے ۔ بالخصوص شریعت نے اس پر با ر بار زور دیا ہے کہ کسی کو دینے کے بعد اس پر احسان مت جتلاؤ، دینے کے بعد اس کے یا کسی کے سامنے مت گناؤ، بلکہ دینے کے بعد لینے والے کے قبول کرنے پر اس کا شکریہ ادا کرو، اس لئے کہ اس نے لے کر تم پر احسان کیا ہے، نہ کر تم نے ان پر احسان کیا ہے ،وہ تمہیں یہی رقم اللہ تعالی کے پاس آخرت میں ثواب واجرِ عظیم اور دنیا میں دفعِ بلیّات و آفات کی صورت میں لوٹائے گا، اس کا وعدہ اللہ نے خود کیا ہے، قرآن حکیم میں وضاحت سے بتلایا ہے، ہمارے نبی نے اس پر ترغیبی حکم دیا ہے، اپنی امت کو خوب سمجھایا ہے ۔
مظفر صاحب نے چونکہ اپنی زندگی میں عسرت و تنگی کے ایام بھی دیکھے تھے، اسی لئے انھیں ضرورت مندوں کا احساس بہت ستا تاتھا ،انھیں خیر کے کاموں پر ہمیشہ آمادہ کرتا تھا اسی لئے دولت کے ڈھیر میں رہ کر انہوں نے غرباء و مساکین کا خیال رکھا،یتیموں اوربیواؤں کو نوازا، زکوۃ وخیرات کی تقسیم کا مکمل نظام بنایا ۔دنیا میں رہ کر راہِ خدا میں خرچ کرنے کو آخرت کی راحت اور وہاں کی ابدی نعمتوں کے حصول کا سبب گردانا، جس کا ظہور آپ کی حیات میں ہی ہو چکا ہے ۔
کامیاب تجارت سے نفع بخش خدمت تک ۔
آپ نے تجارت کے ہنر باپ دادا سے موروثی پائے تھے،بچپن ہی سے اپنے آباء و اجداد کے نقوش ان کے ذہن و دماغ پر منقش تھے،ذاتی محنت اورہمت ولگن نے آپ کو آگے بڑھایاتھا، یقینا بیچ کی زندگی میں ایام بڑے سخت گزرے، تجارتی اور معیشتی زندگی میں نشیب وفراز کا سامنا کیا،عروج و زوال دونوں دیکھا، "ان مع العسر یسرا"پر یقین رکھتے ہوئے میدانِ عمل میں برابر لگے رہے، جہاں قسمت نے یاوری کی،تقدیری فیصلوں نے مقدر چمکایا ، تجارت میں کامیابیوں نے قدم چومے، حتی کے تجارتی مقاصد کے لئے کی جانے والی کوششوں نے آپ کو ایک کامیاب تاجر کی فہرست میں شامل کر دیا اورشہرِ بھٹکل سے ابھرنے والا ایک چھوٹا سا تاجر اپنے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کر گیا، خلیجی ممالک میں اپنی تجارت چمکائی، بے روزگاروں کو روز گار پر لگایا، ضرورت مندوں کے لئے سہارا بنے،جس کا نتیجہ صاف ظاہر تھا، تجارت میں ترقی ہوتی گئی، اورایک دکان سے کتنی دکانیں بن گئیں۔
مرحوم نے اپنی زندگی کا آغاز ملکِ ہند ہی سے شروع کیا تھا، ممبی میں ہمارے ماموں جان جناب نظام الدین بن عبد القادر دامدا (بڈور) بھی تجارت میں شریک تھے،جن کے ساتھ ایک عرصہ گزارا ، تجارت میں کافی تجربات سے گزرے ،مگر آپ کی زندگی کا سنہرا باب اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب آپ نے خلیج کا رخ کیا،سنہ ۱۹۷۴ ء میں دبئی متحدہ عرب امارات تشریف لائے، پہلے دوسروں کے ساتھ کام کرتے رہے،امانت داری اور سچائی سے کام کیا جس سے یہاں کے تاجروں اور سرمایہ داروں کا اعتماد حاصل کیا اوراپنی کد و کاوش وذاتی محنتوں سے آگے ہی بڑھتے گئے ، لہذا تجارتی زندگی کابہترین حصہ خلیجی ممالک ہی کا ہے جہاں آپ نےتجارت میں اپنی ایک پہچان بنائی، اپنے بھائیوں میں مرحوم جناب محمد الیاس صاحب کولا، جناب سلمان صاحب کولا ، اور قریبی رشتہ داروں میں اپنے بہنوئی جناب اسمعیل صاحب محتشم اور ان کے علّاتی بھائی جناب مرتضی صاحب محتشم کے ساتھ مل کر ہند و بیرونِ ہند میں تجارت کو مزیدفروغ دیا ۔ بھائی جناب سلمان صاحب کا عین جوانی میں سانحۂ ارتحال آپ کی زندگی کے لئے انمٹ داغ بن گیا، جس کا تذکرہ ان کانوں نے بار ہا سنا ، پھر بڑے بھائی کولا محمد الیاس صاحب کی رحلت نے اور رنجور کر دیا ۔ آپ کوجناب مزمل صاحب کولا کے بشمول اپنے تمام بھائیوں پر غیر معمولی اعتماد تھا ، اسی لئے تمام بھائی آپ کے ساتھ کسی نہ کسی حیثیت سے شریک کار رہے ۔
عجیب قدرت کے فیصلے ہیں کہ جس نےسب کو ساتھ لے کر تجارت کرنے کے ہنر بتلائے ، اور سب کو آگے بڑھنے کا حوصلہ فراہم کیا ، دنیا سے رخصت ہونے والوں میں جہاں آپ اپنے بھائیوں میں سب سے آخری ہوئے ، وہاں اپنے پاٹنروں اور شرکائے تجارت میں بھی جہانِ فانی کو خیر باد کہنے والے آخری رہے ۔ گویا آپ نے اپنی زندگی ہی میں سب کی فرقت کے غم سہے ۔
یاد گارسفر کی ایک مثال ۔
اسے ہم بھی بھول بیٹھے نہ کر اس کا ذکر تو بھی کوئی چاک اگر ہو ظاہر تو کریں اسے رفو بھی
ابھی کیسے بھول جاؤں میں یہ واقعہ سفر میں ابھی گرد رفتگاں بھی ہے جگہ جگہ لہو بھی
مشہور شاعر محشر بدایونی کے یہ چار مصرعے اور مرحوم مظفر صاحب کے ہمراہ ہوئے ثقافتی اور علمی سفر کی یہ داستان ، میں اور ہمارے ساتھی جسے کبھی نہیں بھول سکیں گے ، تقریبا اٹھائیس سال گزرنے کے باوجود اب تک وہ سفر اور اس سفر کی ایک ایک منزل ہمارے ذہن و دماغ پر منقش ہے، یہ داستانِ سفرسنہ ۱۹۹۲ کی ہے،جب ہم دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو میں زیرِ تعلیم تھے، جامعہ اسلامیہ سے عالمیت میں کامیابی کے بعد فضیلت کاپہلا سال تھاریاست یوپی کہاں ابھی شہرِ لکھنو ہی ہمارے لئے نیا نیا تھا، اس کی گلیاں کہاں عام سڑکوں اور شاہراہوں سے واقفیت تو درکنار اس کے نام بھی یاد نہیں تھے۔ بحیثیتِ طالبِ علم شمالی ہند کے مدرسوں ، خانقاہوں اور تاریخی شہروں کی زیارت کا شوق غالب تھا، یہاں کی مشہور شخصیتوں اور علماء ومشائخ کی ملاقات کے لئے تمنائیں دلوں میں انگڑائیاں لے رہی تھیں ،اسی عرصے میں ہمارے ممدوح مظفر صاحب بانی و سابق ناظم جامعہ اسلامیہ الحاج محیی الدین منیری رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ لکھنو تشریف لائے تھے ، اس وقت منیری مرحوم کی شہرت پورے ہندوستان میں تھی اور ساتھ ہی جناب مظفر صاحب بھی ایک صاحبِ خیر ہونے کی وجہ سے ہر جگہ قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، اس موقر وفد کی آمد سے ہم طلبہ کی خوشی کی انتہا نہ رہی، پھر ہم جیسے قریبی طلبہ تو بے حد مسرورہو گئے، پہنچتے ہی آپ کی ضیافت شروع ہوئی، موسم آم کا تھا، بھٹکلی طلبہ خوب لطف اندوزہوئے۔ مرحوم ِموصوف نے بچوں کا استقبال اور ذوق و شوق دیکھ کر ان کے ساتھ لکھنو سے باہر سیر وتفریح کا پروگرام ترتیب دیا، بات اس پر ٹہری کہ طلبہ کے ساتھ صرف مدارس اور مکاتب کی زیارت اور علماء و مشائخ سے ملاقات کا پروگرام ترتیب دیا جائے۔ وہ دن بھی آگیا جس کا انتظار تھا، بسیں احاطۂ دار العلوم پہنچیں، سفر ہمارے کرم فرما اور محسن مولانا عبد العزیز صاحب خلیفہ ندوی کی امارت اور آپ کے خاص دوست ، استاذ دار العلوم مولانا رضوان ندوی علیہ الرحمہ کی رہبری میں ہواتھا ۔ ریاستِ یوپی کے کئی ایک مدارس کا دورہ ہوا، جس کی تفصیل کے لئے دسیوں صفحات سیاہ ہو جائیں گے، یہاں مضمون کی طوالت کا خدشہ ہے، ورنہ ایک ایک جگہ کا تفصیلی ذکر کیا جاتا۔
یہ سفر تاریخی تھا، ہم نے ساتھ رہ کر بلکہ ساتھ سفر کر کے آپ کی شخصیت کا دوسرا رخ بھی دیکھا، اتنے بڑے شخص کی سادگی ، بےتکلفی اور اپنائیت کے نقوش ہم طلبہ کے ذہن و دماغ پر منقش ہو گئے،جہاں گئے وہاں آپ نے ان کی ضروریات کی تکمیل کا پورا خیال رکھا، تقریبا ہر ہر جگہ پر آپ کی فیاضی اور دریا دلی کے مظہر دیکھے، اخلاص و درد مندی کا آثار پائے۔یہ داستانِ سفر میں یا ہمارے رفقاء میں کوئی اپنے ذہن و دماغ سے کیسے فراموش کر سکتا ہے ،جو مظفر صاحب کی حقیقی تصویر ہمارے سامنے لانے کا سبب بنا، جس سفر کو میں نے کتنی مجلسوں کا عنوان بنایا۔
لکھنو کا یہ سفر آپ کے اسفار میں ایک تاریخی سفر تھا، جس کا خود انھیں مکمل اعتراف بھی تھا،گویا یہ ایک مثالی سفر بھی تھا، اس کے علاوہ چھوٹے بڑے بے شمار اسفار دعوتی اور دینی مقاصد کے لئے ہوتے رہے۔ اسی نوعیت کا ایک سفر اس وقت بھی ہوا تھا جب آپ نے بھٹکل سے "ایس ٹراولس " کے نام سے بسوں کی سروس شروع فرمائی تھی۔
مادرِ وطن توجہات کا مرکز ۔
آپ کی خدمات کا دائرہ جتنا بھی عظیم ہو، آپ کے ذریعہ جتنے بھی کام انجام پائے ہوں، مگر آپ کی توجہات کا اصل مرکز بلکہ آپ کی پہلی نظرِ عنایت مادرِ وطن بھٹکل ہی پر رہی ، انھوں نے اپنے وطنِ عزیز کو اپنی محنت کا میدان بنایا، دنیا میں جس جگہ رہے اپنے وطن کو اپنی محنت کامرکز بنایا،اسی پر خصوصی توجہات رہیں، چوں کہ آپ یہاں کی غربت و تنگ دستی کا زمانہ دیکھ چکے تھے، لہذا عمرِ عزیز کا ایک حصہ اسی کی تعمیر و ترقی کے لئے وقف کیا، بظاہر جن جن منصوبوں کی تکمیل کی تجارتی مقاصد کے لئے نہیں، بلکہ تعلیمی، ثقافتی اور معاشرتی ضروتوں کی تکمیل کی خاطر کیا، اپنی اولو العزمی، مستقل مزاجی اور محنت و جاں فشانی کے نتیجہ میں اپنی زندگی ہی میں اس کے کامیاب نتائج دیکھے، "کولاکو ہسپتال" ہو یا "نونہال سیٹرل اسکول کا " قیام، " عائشہ پلازا" کا عظیم الشان تجارتی مرکز ہویا ٹرانسپورٹ و مواصلات کے لئے بسوں کی کوشش، اداروں کا تعاون ہو یا تنظیموں کا استحکام، نوجوانوں اور بے روزگاروں کے لئے کام کے مواقع فراہم کرنا ہو یا اپنے رشتے داروں کو ساتھ لے کر تجارت کا فروغ ، دوست و احباب پر اعتماد کرتے ہوئے ان کو بھی تجارت میں شراکت دینا یا ان کاجزوی مالی تعاون کر کے کر ان کی تجارت میں شراکت کرنا ہو یہ سب کچھ اگر کسی بھی غرض سے کیا تھا تو بس بظاہر ایک ہی غرض کہ یہ سب خدمتِ خلق کی شکلیں ہیں اور رضائے الہی کا ذریعہ ۔ اسی لئے اس راہ میں آپ کو تلخ وشیریں تجربات سے گزرنا پڑا، کبھی اپنوں سے تو کبھی بے گانوں سے اختلاف کرنا پڑا، لیکن جو بھی اس طرح کی شکل پیش آئی وہ وقتی رہی ہمیشہ کے لئے اسے اپنے دل پر سوار نہیں کیا، گویا وہ وطنِ عزیز کی خدمت کرنے میں اس شعر کے مصداق تھے ۔
گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز کانٹوں سے بھی نباہ کیے جارہا ہوں میں
خدمتِ خلق اور "کولا ہیلتھ کامپلکس"۔
حفظانِ صحت کےسلسلے میں پیش قدمی کرتے ہوئے اسپتال کے قیام میں عملی پیش رفت کی،‘‘کولا کو ہیلتھ کامپلکس‘‘ کے نام سے اس کی بنیاد رکھی،اسے اس وقت کے لحاظ سے نئے طبی آلات سے آراستہ کیا، اس میں دنیوی منفعت پیشِ نظر نہیں رہی، اس کو خدمتِ خلق کا عنوان بنایا، اس کے ذریعے صرف مسلم برادری ہی نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت کی، برادارانِ وطن نے بھی اس سے خوب فائدہ اٹھایا۔" کولا کو "کا ذکر ہو اور ان کے بہنوئی مرحوم جناب اسماعیل صاحب کا ذکرہ نہ ہو ممکن نہیں ہے، اس لئے کہ آپ نے اس کے لئے شبانہ روز محنت کی تھی،اپنی حکمت عملی سے اسے ترقی کی منزلوں سے ہمکنار کیا تھا،لہذا ہسپتال کے لئے ان کی خدمات بھی ناقابلِ فراموش ہیں۔
تعلیمی میدان اور "نونہال سینٹرل اسکول"۔
جی ہاں مرحوم مظفر صاحب نے اکابرین کی صحبت، اہلِ دانش کی معیت اور علماء کے بیانات میں شرکت سے اس بات کو ذہن نشین کر لیا تھا کہ اسلام میں علم کا تصور جامع ہے،اس میں دینی اور دنیوی کی تقسیم بے معنی ہے ،بلکہ یہ تقسیم خود غیر اسلامی ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعاؤں میں علم کو نافع اور غیر نافع بتلایا ہے،نہ کہ دینی اور دنیوی ۔ ہر وہ علم جو انسانیت کے لئے نفع بخش ہو اسلام نے اس کے حصول کی ترغیب دی ہے اور جو علم انسانیت کے لئے نقصان دہ اور ضرر رساں ہو اس سے منع کیا ہے۔
آج سے تقریبا تیس سال قبل اپنے بھائیوں کے تعاون سے اپنی والدہ ماجدہ مرحومہ کی طرف منسوب "عائشہ نرسری" کے نام "نوائط کالونی" میں نرسری اسکول کی شروعات کی ،جس کی نظامت کے لئے جناب حبیب قمر ارمار صاحب کی خدمات حاصل کی گئیں، پھر بعد میں دینی اور اسلامی بنیادوں پر ایک عظیم الشان عصری اسکول کی بنیاد قدوائی روڈ پر رکھی گئی اور بہت بڑی سوچ کے ساتھ اسے نو نہالانِ قوم و ملت کی طرف منسوب کر کے ‘‘ نونہال سینٹرل اسکول’’ کے نام سے موسوم کیاگیا ، اس کے لئے تعلیم و تربیت کے میدان میں تجربات رکھنے والے قومِ نوائط کے مایہ ناز فرزند، ماہرِ تعلیم مرحوم جناب صدیق محمدجعفری صاحب اور ان کی رفیقۂ حیات ڈاکٹر رقیہ صاحبہ کی خدمات حاصل کی گئیں، جس سے آغاز ہی میں اسکول تعمیری رخ پر چل پڑا، نیک نامی اس کا مقدر بنی اور تعلیمی میدان میں ان عظیم الشان خدمات کی بنا پر مرحوم مظفر صاحب نے اپنے لئے "خادمِ نونہال" ہونے کا حقیقی شرف پایا۔
راقم الحروف اس کی سنگِ بنیاد کے وقت بنفسِ نفیس حاضر تھا، مفکرِ اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ مبارک سے اس کا سنگِ بنیاد رکھا گیاتھا، آپ علیہ الرحمۃ کی دعائیں اس کی بناء میں شامل رہیں،حضرت مولانا نے سنگِ بنیاد رکھنے کے بعد انتہائی اختصار کے ساتھ جو جامع پیغام دیا تھا، اسی کومرحوم نے حرزِ جان بنایا، انہی خطوط پر اس کو چلایا، اس کی تعمیر و ترقی کے لئے کوششیں کیں، تعلیم کو زندگی کامقصد بنایا، اس کے لئے دانشوروں اور ماہرینِ تعلیم سے مشورے لئے،اہل اللہ اور علمائے ربانیین کو اس کی زیارت کرائی، ان سے دعائیں کروائیں، اسی کا نتیجہ تھا کہ بفضلِ خداوندی اس اسکول کا شمار بھٹکل کے معیاری اسکولوں میں ہوتا ہے، یہ اپنی تعلیمی سفر کی کامیاب کوششوں کی وجہ سے کئی سال تک رابطہ ایوارڈ حاصل کر تا رہا ۔
دوسرا امتیاز جو اس تعلیمی ادارہ کو حاصل رہا، وہ عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ حفظِ قرآنِ کریم کے سلسلے کا مبارک آغاز تھا، جس میں اسے اسبقیت بھی حاصل رہی۔ وہ محترمہ زرینہ صاحبہ ہی کامیاب دورِ اہتمام تھا، جب اس کی شروعات کی گئی اور طلبہ و طالبات کے لئے خصوصی گھنٹوں کے ذریعہ حفظِ قرآنِ کریم کا مستقل نظم کیا گیا، حفظ ِ قرآن کے اس مبار ک و کامیاب سلسلے کو شروع کرنے اور منظم کرانے میں اس کےمخلص بانی ہی کی خصوصی توجہات شامل رہیں، آپ نے اس پر اپنی پوری توجہ مرکوز فرمائی اوربچوں کے سرپرستوں کو بھی اس کی اہمیت بتلا کر حفظِ قرآن کے درجات میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے رہے،جو آپ کے قرآنِ پاک سے حد درجہ شغف اور تعلق کا غماز ہے، ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ یہ زرین سلسلہ آپ کے اجر و ثواب میں اضافے اور اللہ کے یہاں رفعِ درجات کا سبب بنے گا ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے بانی کا ہی خلوص تھا کہ اسکول کو اسی کی فکروں کا ایک عکس ان کی بیٹی کی شکل میں مل گیا، اور ان کی دختر زوجۂ جناب شبیب صاحب کولا محترمہ گل افروز صاحبہ کو اسکول کی ذمہ داریاں دی گئیں۔ جسے وہ مستقل محنت و لگن اور موروثی ذوق و شوق اور فکروں کے ساتھ مزید کامیابیوں سے ہمکنار کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے ۔
مساجد اورمدارس دینیہ کا قیام ۔
مرحوم مظفر صاحب کی دینی تعلیم بہت زیادہ نہ رہنے باوجود انھیں اس کی اہمیت اورضرورت کا پورا احساس دامنگیر تھا، آپ علمائے کرام کی مجالس سے اس ناقابلِ انکار حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کر چکے تھے کہ جہاں مساجد وعبادت گاہوں کی تعمیر کی فضیلت و اہمیت مسلم ہے وہیں مکاتب و مدارسِ اسلامیہ کی اہمیت بھی کچھ کم نہیں ہے،وہ جانتے تھے کہ بے شک دینی مدارس ہدایت کے سر چشمےہیں ،یہی اسلام کے مضبوط قلعے اور دین کی پنا ہ گا ہیں ہونے کے ساتھ اس کی نشر و اشاعت کا بہت بڑ ا ذریعہ بھی ہیں ،بے شک یہیں سے علمائے ربانیین اور بزرگانِ دین حنم پاتے ہیں، یہیں سے ملت کو قائدین ملتے ہیں اور حاملینِ شرعِ متین پیدا ہوتے ہیں، گویا اس کا استحکام دین کا استحکام ہے، اس کی حفاظت اپنے وجود کی حفاظت ہے۔ لہذا آپ نے اس سلسلے میں ہر ایک کا ساتھ دیا، جو بھی آپ کے پاس آیا بلا تفریق مسلک ومذہب تعاون کیا، آپ نے ہر ادارہ کے ساتھ اپنے تعلقات وروبط رکھےتھے،اس لئے اپنی ملی و سماجی خدمات سے ہر ادارہ کو مضبوط کرنے میں کوشاں رہتے تھے۔
بالخصوص پہلے " احیاء المدارس" پھر " جمعیۃ السنۃ الخیریۃ" کے ذریعے کی جانے والی کوششوں میں آپ کا جووافر حصہ ہے وہ آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے ، آپ دامے درمے سخنے قدمے اس میں امداد و اعانت کرتے رہے،جس کا تعلق تحریر سے نہیں بلکہ مشاہدہ سے ہے ، مدارس یا مساجد کے ذمہ داران آپ کی ان بے لوث خدمات کے تہہ دل سے معترف ہیں۔
سلام ہو آپ کی ان خصوصی خدمات پر جو پینتیس سال سے زیادہ عرصے پر محیط ہیں، مدارس دینیہ کے خلاف آج کے مسموم ماحول میں وہ حق پسند حضرات یقینا قابل تحسین ہیں جو ان کی ضرورت و افادیت کےنہ صرف معترف ہوں بلکہ ان مدارس و مکاتب کا ہر ممکن تعاون کرتے ہوئے اسلام کی آواز کو سربلند کرنے میں برابر کے شریک ہوں ۔اللہ تعالی اپنی شان کے مطابق انھیں اجرِ عظیم عطا فرمائے ۔
غیرتِ ایمانی اور حمیتِ دینی ۔
مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں" حمریہ دبئی "میں واقع رفیقی مولوی محمد نعمان اکرمی ندوی کے گھر تھا،جمعہ کا دن تھا، صبح گیارہ بج رہے تھے، مرحوم مظفر صاحب نے رابطہ کیا ، آدھے گھنٹے میں گھر پہنچے، بتایا کہ سعودی عربیہ میں مقیم ایک ہندوستانی سلفی عالمِ دین ( میں یہاں نام نہیں ذکر کرونگا ) دبئی تشریف لائے ہیں، کبھی انھیں براہِ راست سننے کا اتفاق نہیں ہوا ہے، آج ان کے جمعہ کا خطبہ سونا پور کی ایک مسجد میں ہے، اچھا موقعہ ہے، چلو چلتے ہیں آج نماز ان کے پیچھے پڑھیں گے، ہمارے ساتھ رفیقی مولوی محمد علی شریف ندوی بھی تھےاور ان ہمراہ ان کے بڑے داماد تھے، یہاں سے ہم ساتھ نکل گئے۔
جمعہ کا خطبہ شروع ہوا،خطبہ کیا تھا ، ائمہ اربعہ کے خلاف ایک محاذ، تقلید پر شدید تنقید، ممبر پر کھڑے بڑوں کی شان میں نازیبا کلمات، عوام کے ذہنوں میں ہمارے اسلاف اور ائمہ کے خلاف بد گمانیاں پیدا کرنے کی پوری کوشش۔ خطبہ کے دوران ہمارے دلوں کی کیفیات کا اندازہ لگانا ممکن نہیں تھا،ہم حسنِ نیت سے پہنچے تھے مگر غلط تاثر لے کر نکلے، جناب مظفر صاحب تو بیچ خطبہ ہی میں نکلنے کا اشارہ دے رہے تھے، مگر نکل کر کہیں اور جاتے تو جمعہ کی جماعت کہیں نہیں ملتی، اس لئے اپنے جذبات پر قابو پا کر بیٹھ گئے، اور نماز کے بعد فورا چلے گئے۔
آپ میں غیرتِ ایمانی اور حمیتِ دینی اس قدر شدید تھی کہ اپنے اکابر کے خلاف ایک جملہ برداشت نہیں کر سکتے تھے، بزرگوں سے عقیدت کا اعلی درجہ تھا، اس لئے جو ان کے سامنے ان کے خلاف کچھ کہتا تو وہ اپنی خیر خود مناتا ۔ جی تبلیغی جماعت اور تبایغی نصاب کی بعض تحریروں پر بعضوں نے محاذ کھرا کر رکھا تھا، اسی دوران آپ نے مولانا مکی کی ایک نشست دبئی میں رکھی تھی، جس میں اس کے علمی جوابات دئے گئے تھے ۔بہر کیف ہم آپ کے ان جذبوں کے گواہ ہیں، ایک دو نہیں کئی ایک واقعات ذہن میں گردش کر رہے ہیں، یہاں بطورِ مثال دو واقعات کی طرف اشارہ کر دیا ہوں۔ان شاء اللہ ہمیں امید ہے کہ مندرجہ ذیل حدیث کی روشنی میں آپ کا شمار بھی انہی کے ساتھ ہوگاجن سے آپ نے محبت کی تھی۔ "حضرت صفوان بن عسال رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی جس کی آواز بہت بھاری تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے محمد! ایک آدمی قوم سے محبت کرتا ہے البتہ وہ ان سے عمل میں پیچھے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے“۔ ( یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ ترمذی ۔ 2387 )
اپنے تعلقات اور ذاتی روابط ۔
جی ہاں محترم قارئین، یہ شخص میری توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا ،یا میں اس کی توجہات کا مرکز، اس کا فیصلہ کرنابہت مشکل ہے، مگر اتنا ضرورہے کہ ہمارے تعلقات کی بنیادیں کچھ پرانی ہیں تو کچھ بہت پرانی، کچھ عائلی ہیں تو کچھ دینی نسبت پر مبنی، کچھ علمی ہیں تو کچھ ثقافتی، لیکن کسی نہ کسی حیثیت سے ہمارے بیچ جو تعلقات رہے وہ بہت پختہ رہے۔ جب تک میرےجامعہ اسلامیہ میں تعلیمی ایام تھے بھٹکل آنے پر کسی نہ کسی بہانے ملاقاتیں رہتیں ۔ میں نے جب عالمیت میں کامیابی حاصل کی تو ان کے خوشی کی انتہا نہ رہی، مجھے اپنے ہی خاندان کے ایک عالمِ دین کا درجہ دیا۔
جب سنہ ۱۹۹۴ میں میرا دبئی کا سفر ہوا، تب آپ بہت خوش ہوئے، اور وقفے وقفے سے آپ کی ملاقات کرنے اور قریب رہ کر دیکھنے کے کافی مواقع ملے۔چوں کہ مزاج میں ضیافت اور مہمان نوازی تھی اس لئے جب بھی آپ کے یہاں ہندوپاک سے اہم مہمان تشریف لاتے تو ہمارے کرم فرما مولانا عبد المتین صاحب منیری کو اور مجھے اہتمام سے فون کر کے بلاتے، کئی ملاقاتوں میں ہمارا ساتھ ہی آنا جانا رہا،ہمیں ان مہمانوں کی مجلسوں اور خصوصی نشستوں میں شریک ہونے کے موا قع نصیب ہوئے، جس کی ایک مفصل تاریخ ہے،اس سے ہماری ایک نہیں بے شمار یادیں وابستہ ہیں ۔ بلاشبہ ہم آپ کے مرہونِ منت ہیں کہ آپ ہی کی وجہ سے ہمیں یہاں کے قیام کے دوران کافی قد آور اور بڑی بڑی شخصیتوں کو قریب سے دیکھنے کے مواقع ملے، بعضوں کے ساتھ نیاز مندانہ تعلقات بھی رہےاور ہمیں چیدہ و چنیدہ علمائے امت اور اربابِ فکر وفن سے مستفیض ہونے کے گراں قدر مواقع میسر ہوئے ۔ جزاہ اللہ خیرا ۔
اسی طرح جب ہمارا بھٹکل جانا ہوتا تو وہاں پر بھی ملاقاتوں کے یہ سلسلے جاری رہتے ، بالخصوص محترمہ زرینہ صاحبہ کے دورِ اہتمام میں کئی بار نونہال سینٹرل اسکول بلاکر اپنے تعلیمی اسٹاف کے سامنے کچھ وعظ ونصیحت کے لئے کہتے، گھنٹوں نو نہال میں ان کے آفس میں بیٹھ کر مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے رہتے اور بعض کتابوں کو مفت تقسیم کرانے میں تبادلۂ خیالات کرتے ۔
نیک کنبہ ۔
جب آپ کی بیٹیوں کی بیاہی کا وقت آیا توآپ نے اپنے جگر پاروں کے رشتہ کے لئے دیندار گھرانوں کا انتخاب فرمایا، نیک و صالح اور اہلِ علم کے ساتھ رشتہ جوڑا، اس لئے کہ اصل دیکھنے کی چیز حسنِ صورت نہیں حسنِ سیرت ہوتی ہے،مال و دولت نہیں حسنِ تربیت ہے، متاعِ دنیا نہیں بلکہ متاعِ علم اصل ہے۔ اسی لئے آپ دیکھیں گے کہ آپ کے بڑے داماد جناب محمد عرفان کوڑا صاحب اور دوسرے انہی کے بھتیجے اور داماد جناب محمد شبیب صاحب کولا دونوں تحریکی و دعوتی مزاج رکھتے ہیں اور باقی تینوں داماد مولانا شکیب احمد شہ بندری ندوی، مولانا موسی جوباپو ندوی اور مولانا محمد شعور کولاندوی تینوں عالمِ دین ہیں ، دینی، دعوتی اور علمی مزاج رکھتے ہیں۔ ہر ایک اپنے اپنے میدان میں خدمات انجام دے رہے ہیں ، اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حدیثِ پاک کے مفہوم میں انہوں نے دین دار افراد کے حسنِ انتخاب سے پورے گھرانے کو دین دار بنا دیا ۔اور رہے آپ کے فرزندان تو جناب عبید اور عزیر صاحبان دونوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ صلاح و تقوی ہے اور تیسرے فرزند جناب ابو بکر صاحب کو دبئی ہی کے " مدرسۃ التربیۃ والتعلیم " میں داخل کرایا اوردینی و عربی تعلیم سے آراستہ کیا اور سب سے چھوٹے فرزند مولانا عبد اللہ صاحب جامعہ اسلامیہ سے عالیہ ثالثہ میں کامیابی حاصل کرنےکے بعد دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو سےپہلے عالمیت پھر فضیلت سے فراغت کر کے اپنے والدین کے لئے ذخیرۂ آخرت بن گئے ۔
آخری بات ۔
مجھے مرحوم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجا گر کرنے اور اس پر مختصرا تحریر کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ آنے والی نسلوں کو اس کا علم ہو سکے کہ ہمارے اگلوں نے قوم و ملت کے لئے کیا کیا خدمات پیش کی ہیں، کتنے واضح اور روشن کارنامے انجام دئے ہیں، کیسے کیسے کارہائے نمایاں کر گئے ہیں۔ اہلِ ثروت و دولت میں شمار ہونے کے باوجود کس طرح سے انھوں نے دولت کودین و شریعت کی خدمت میں استعمال کیا ہے اور شاید کوئی اسے درس و عبرت کی نگاہ سے پڑھ سکے اور کوئی اس کی روشنی میں اپنی بھی صلاحیتوں کاجائزہ لے سکے، اللہ تعالی کی عطا کردہ دولت کا صحیح استعمال کر سکے ۔ آپ کے سانحۂ ارتحال پر جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے ہونہار فرزند اور اپنی برادری کے مایہ ناز سپوت، استاذ حدیث دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو مولانا فیصل احمد ارمار ندوی نے حدیث پاک کے حوالے سے ان کے متعلق جو لکھا ہے کاش کہ یہ کلمات ان کی خدمات کے لئے اعترافِ حقیقت بن جائے اور اسی کو سامنے رکھ کر اہلِ ثروت ودولت بھی اپنے زندگی کا سفر جاری رکھیں، وہ لکھتے ہیں " مجھے ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور ان کے متعدد و متنوع کار ہائے خیر دیکھ کر وہ حدیث نبوی یاد آئی،جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : " إنَّ هذا الخيرَ خَزائنُ ولِتلكَ الخزائنِ مفاتيحُ فَطوبى لعبدٍ جعلَهُ اللَّهُ عز وجل مفتاحًا للخيرِ مغلاقًا للشَّرِّ وويلٌ لعبدٍ جعلَهُ اللَّهُ مفتاحًا للشَّرِّ مغلاقًا للخيرِ" (ابن ماجہ،حدیث نمبر: 238) یعنی خیر کے متعدد خزانے ہیں اور ان خزانوں کی چابیاں ہیں، تو اس بندے کی سعادت اور خوبی کی بات ہے جس کو اللہ خیر کی چابی اور شر کا تالہ بنا دے۔یعنی خیر کے دروازوں کے کھلنے اور خیر کے جاری ہونے کا اور شر کی روک تھام اور اس کے دروازوں کے بند ہونے کا سبب بنادے۔
مظفر صاحب کو جاننے ولا ہر شخص شہادت دے گا کہ اللہ نے ان کو کتنے خیر کے کاموں کے شروع ہونے کا ذریعہ بنایا،اور کتنے خیر کے کام ان کے ذریعے جاری ہوئے! ۔اور یہ بھی مشہور حدیث ہے کہ مرنے کے بعد آدمی کے عمل کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے، مگر تین کام ایسے ہیں کہ ان کی وجہ سے اس کو ثواب پہنچتا رہتا ہے،ایک صدقہ جاریہ،دوسرے کوئی علمی نشان جس سے لوگ اس کے بعد فائدہ اٹھاتے رہیں،تیسرے نیک اولاد جو اس کے حق میں دعا کرتی رہے۔ (مسلم، كتاب الوصية ۔ باب ما یلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته،حدیث نمبر 1631)مظفر صاحب کی خوش قسمتی تھی کہ تینوں میں سے ان کو حصہ وافر ملا ہے۔"
انتقال کے بعد چاہنے والوں نے کلماتِ تعزیت پیش کئے، اپنوں نے ان کے اخلاق کی گواہیاں دیں، دوستوں نے ان کی دوستی کو سلام کیا،اور انتقال کے بعد غیروں ہی پر نہیں بلکہ خود گھر والوں پر بھی یہ حقیقت بے نقاب ہو کر آ گئی کہ " حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا " اور ان شاء اللہ ان کی خدمات پر علماء سے ملی ہوئی شہادتیں، اہلِ دل ومشائخ سے حاصل ہوئے تعریفی اور توصیفی کلمات، مستحقین و ضرورت مندوں کے لئے کی گئی خدمات، اربابِ مدارس سے ملی ہوئی گواہیوں کی بدولت وہ اللہ کے یہاں اپنی مغفرت کا پروانہ ضرور حاصل کریں گے، جنت الفردوس میں اعلی مقام کے حقدار بنیں گے ۔اوراللہ تعالی انھیں اپنے فضلِ خاص سے اپنے شایانِ شان اجرِ عظیم عطا فرمائے گا۔
آنے والا مورخ جب بھٹکل کی ثقافتی تاریخ، معاشرتی خدمات اور محسن شخصیات پر قلم اٹھائے گا تو اس میں ایک روشن نام مرحوم کا بھی ہوگا۔ بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر اگر ہندوستان کی ثقافتی اور تعلیمی تاریخ مرتب کی جائے گی تو اس ضمن میں ایک تذکرہ مرحوم کا بھی ہوگا ۔
تحریر کردہ ۔ 5/ ذو الحجۃ 1441 ہجری ۔ مطابق ۔26 /جولائی 2020 عیسوی
جواب دیں