عبداللہ غازی ندوی(ایڈیٹر ماہ نامہ پھول بھٹکل) آج صبح خطیب جمیل صاحب کے انتقال کی اندوہناک خبر نے ہم سب کے دلوں کو بہت متاثر کیا،اور اس اچانک خبر سے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔یقینا كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلالِ وَالإِكْرَامِ بھٹکل اور خصوصاً آزادنگر کا کوئی بچہ ایسا نہ […]
آج صبح خطیب جمیل صاحب کے انتقال کی اندوہناک خبر نے ہم سب کے دلوں کو بہت متاثر کیا،اور اس اچانک خبر سے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ یقینا كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلالِ وَالإِكْرَامِ
بھٹکل اور خصوصاً آزادنگر کا کوئی بچہ ایسا نہ ہوگا جو جمیل صاحب کو نہ جانتا ہو! بلاشبہ اپنی خدمات،جذبہء ہمدری اور کھیل و تفریح کے ذریعے دلوں پر حکومت کرنے والے جمیل صاحب کی کمی ہر آن محسوس کی جائے گی۔جنازوں کی تدفین کے موقعوں پر ہمیشہ آگے اور پیش پیش رہنے والے آج خود رب کائنات کے حکم سے منوں مٹی دفن ہیں۔ اور اس اچانک جدائی سے پیغام دے گئے ہیں کہ
موت سے کس کو رستگاری ہے آج وہ کل ہماری باری ہے
گزشتہ دو دہائیوں سے ہم نے انھیں ہمیشہ ایک نڈر،بے باک،خدمت گزار اور خیرخواہ انسان کی شکل میں دیکھا ہے،چپکے چپکے خیر خیرات کرنا ان کا خصوصی وصف تھا، بے سہاروں کا انتظام کرنا ان کی عادات میں شامل تھا۔ہر ایک کے جنازوں کو قبر میں اتارتے وقت مدد کرنا ان کا گویا معمول تھا۔ راہ خدا میں لٹانا ان کا پسندیدہ شغل تھا۔ انھوں نے کارگیدے سے متصل مسجد ابوعبیدہ کے لیے اپنی زمین وقف کی،پھر اس مسجد سے اپنے تعلق کو زندگی بھر جوڑے رکھا،مرحوم ہمیں بچپن میں اس مسجد میں تراویح کے لیے اکثر و بیشتر لے جاتے تھے۔
دینی تعلیم سے ان کی خاص مناسبت تھی، مدارس میں پڑھنے پڑھانے والوں کی ان کے دل میں بڑی قدر تھی، وہ خود اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ دیکھنا چاہتے تھے، اپنے آخری فرزند سرفراز کو اس خواہش کی تکمیل کے لیے جامعہ میں داخل کیا اور برابر اس کی فکر بھی کی۔لیکن قدرت الہی کو کچھ اور ہی منظور تھا۔اب ان شاءاللہ ان کے پوتے ان کے اس خواب کی تعبیر بنیں گے اور آخرت میں ان کی سرخروئی کا ذریعہ ہوں گے۔
نوجوانوں کی ہمت افزائی کے لیے وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے،"انفا"کی انتطامیہ میں بھی شامل تھے، جب بھی تعمیر وترقی کے مواقع ہوتے خود بڑھ چڑھ کر اس میں شرکت کرتے۔ رمضان میں ادارہ ادب اطفال بھٹکل کی طرف سے نوجوانوں کے لیے سترہ رمضان کی مناسبت سے"یوم بدر"منعقد کیا گیا، اس موقع پر جب نوجوان ان کے یہاں دعوت نامہ لے کر پہنچے تو وہ نوجوانوں کے اس جذبے پر بہت خوش ہوئے اور کچھ رقم نکال کر انتظامی کام کے لیے دیا۔بھٹکل سے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے شائع ہونے والے رسالے "ماہ نامہ پھول" سے بھی انھیں اسی قدر الفت تھی۔
وہ خود کھلاڑی تھے اس لیے کھیل اور کھلاڑیوں کو بھی پسند کرتے تھے، عمر کا طویل حصہ گزرنے کے بعد بھی میدان میں اترتے،کبڈی کھیلنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا،کھیل میں اپنے مخصوص انداز سے بچوں کوخوب ہنساتےتھے،اس لیے عمر کی ستر بہاریں بیت جانے کے بعد بھی وہ بالکل جوان اور چاق و چوبند نظر آتے تھے۔ بچوں اور نوجوانوں کی تفریح کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے نکلنے نہیں دیتے تھے،حتی کہ اپنی گاڑی کا ہارن بھی ہمیشہ اس انداز سے لگاتے تھے کہ سامنے والا اس کو سن کر اپنے ہونٹوں پر ضرور مسکراہٹ لاتا تھا۔
اللہ مرحوم کے درجات بلند کرے،جمیل صاحب کی فرقت پر پس ماندگان کو صبر جمیل دے اور ان کی آل اولاد کو ان کی خصوصیات اور صفات اپنانے کی توفیق دے۔ آمین
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں