تحریر ۔ سید ہاشم نظام ندوی ذو الحجۃ کے پہلے مبارک عشرہ کے پانچ دن گزرنے کے بعد وسطِ عشرۂ اولی یعنی ۶/ ذو الحجہ ۱۴۴۱ ہجری، مطابق ۲۷ /جولائی ۲۰۲۰ عیسوی کی شام یہ المناک اطلاع ملی کہ جامعہ اسلامیہ کے سچے عاشق، اپنے فرزندوں کی تعلیم و تربیت کے لئے اسی کے سپرد […]
ذو الحجۃ کے پہلے مبارک عشرہ کے پانچ دن گزرنے کے بعد وسطِ عشرۂ اولی یعنی ۶/ ذو الحجہ ۱۴۴۱ ہجری، مطابق ۲۷ /جولائی ۲۰۲۰ عیسوی کی شام یہ المناک اطلاع ملی کہ جامعہ اسلامیہ کے سچے عاشق، اپنے فرزندوں کی تعلیم و تربیت کے لئے اسی کے سپرد کرنے والے جناب عبد الرحمن صاحب منا اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ إنا لله و إنا إليه راجعون۔
دنیا والوں کی نگاہیں اس مردِ با خدا کے خد وخال سے زیادہ واقف نہیں تھیں، اکثر و بیشتر لوگوں کی آنکھوں سے ان کے اوصاف وکمالات اوجھل تھے، اس لئے جہاں انتقال کے بعد لوگوں کی زبانوں سے شہادتیں ملنے لگیں، ان کے محلے کی "مسجدِ طوبی" کے تعزیتی اجلاس کے اہم خطابات اور ان کے متعلق توصیفی کلمات سامنے آئے تو حیرت واستعجاب کی انتہا نہ رہی، بلکہ دورانِ خطاب بعضوں پر مبالغہ آرائی کا بھی گمان ہونے لگا۔ لیکن جن احباب کو ان سے ذاتی روابط رہے ہیں، اور جن خوش نصیبوں نے انھیں اللہ والوں کے صفات سے متصف اور نبوی اخلاق سے متخلق پایا ہے وہی اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم اللہ کے ایک نیک و صالح اور برگزیدہ بندے سے محروم ہو گئے۔ اللهم اغفرله وارحمه وأدخله فسيح جناتك یا رب العالمین۔ آمین
حسنِ عمل اب بھی مسلمانوں سے رخصت نہیں ہوا ہے، ہماری ہی صفوں میں آج بھی کتنے اللہ تعالی کے مقرب ترین بندے ایسے ہیں اور کتنے وہ اہلِ دل ہیں جن کے بارے میں زبانِ نبوت سے یہ گواہی ملتی ہے کہ "لو أقسم على الله لأبره" یعنی اللہ رب العزت انھیں یہ قدرت و اختیار دیتا ہے کہ وہ جو چاہتے ہیں وہی ہوجاتا ہے، جو مانگتے ہیں اللہ انھیں نواز دیتا ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’کیا میں تمہیں بتا دوں کہ جنتی کون ہے؟ ہر وہ کمزور اور گمنام آدمی کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اسے سچا کر دے۔ (صحیح البخاری، کتاب الادب، باب الکبر، ۴ / ۱۱۸، حدیث: ۶۰۷۱)اور صحیح مسلم میں زبانِ نبوت سے یہ الفاظ نقل کئے گئے ہیں: ’’بہت سے لوگ ایسے ہیں، جن کے بال پَراگَندہ ہیں، اور لوگ بھی انہیں اپنے دروازوں سے دھتکار دیتے ہیں (لیکن ان کا مقام اللہ کے نزدیک یہ ہوتا ہے کہ) اگر وہ اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو سچا کر تا ہے"۔ ( مسلم، کتاب البرّ والصلة والآداب، باب فضل الضّعفاء والخاملین، حدیث: ۲۶۲)
انسانی تاریخ کے اس سفر میں ایک اچھے اور کامیاب والد ہونے کی تصویر ان کی اولاد میں نمایاں نظر آتی ہے، چوں کہ ماں اور باپ دونوں کی توانائیاں اپنے جگرپاروں کی بہتر نشونما اورحسنِ تربیت میں صرف ہو جاتی ہیں، ان کے صبح وشام اپنے بچوں ہی کے لیے وقف ہوتے ہیں، والد اگر معاش کی طرف توجہ دیتا ہے تو والدہ کردار کو سنوارتی ہے، اسی لئے باپ کے مقابلے میں ماں کا کرداربھی لازوال ہوتاہے، باپ بچوں پر خرچ کرتا ہے، اسے وہ اسلامی اور شرعی فریضہ سمجھتا ہے اور اپنے بچوں کو اچھی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے اپنی کمائی کا ایک بڑا حصہ لگا دیتا ہے۔
محترم قارئین۔ زیرِ تحریر مضمون مرحوم جناب عبد الرحمن منا صاحب پر لکھنے کے ارادہ سے بیٹھنے کا اصل محرک مرحوم کی وہ اولاد ہیں جو علمِ دین کی نعمتِ بیش بہا سے مزین ہیں اور ان کے دل نورِ قرآن سے منور ہیں، وہ حفظِ قرآن کی دولتِ گراں مایہ سے سعادت مند ہیں، جو مرحوم کی زندگی کا حاصل اور ان کی کوششوں کا محور تھے، جنہیں آپ نے اچھی تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا ہے، جن بچوں کو اعلی دینی تعلیم دے کر ان کاہی نہیں بلکہ صحیح معنوں میں دنیا اور آخرت کے لحاظ سے خود اپنا بھی مستقبل بنایا تھا، بچوں کو علم کے زیور سےآراستہ کر کے ان کو عزت کے مقام پر پہنچایا تھا، ہمیں اللہ کی ذات عالی سے یقین ہے کہ ان شاء اللہ یہی بچے جس طرح اپنی دینی تعلیم کے ذریعے دنیا میں والدین کی نیک نامی کا سبب بنے ہیں اسی طرح آخرت میں بھی مغفرت اور رفعِ درجات کا سبب بنیں گے۔
جی ہاں قارئین، ہمیں یقین ہے اس لیے کہ جہاں قرآن مجید کا حفظ کرنا بہت بڑی سعادت ہے، وہیں اپنے بچوں کو حافظِ قرآن بنانے کا جذبہ بھی قابل قدر ہے، اس کی سعادت کا حصول ہر مسلمان کی آرزو اور تمنا ہوتی ہے، اس سعادت کا حقیقی صلہ تو اللہ جل شانہ آخرت میں عنایت فرمائیں گے، جب اس کے والدین کی تاج پوشی ہوگی۔
مرحوم عبد الرحمن منا کی زندگی کے تمام اوصاف اپنی جگہ، لیکن ان کے دین سے سچی محبت اور تعلیم اسلام ہی میں کامیابی کی ضمانت کی سب سے بڑی دلیل جو اظہر من الشمس ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے فرزندوں کا داخلہ جامعہ اسلامیہ میں کرایا، انھیں دینی تعلیم سے آراستہ کیا، ان کی حسنِ تربیت کی طرف پوری توجہ دی، اسی کو دنیا اور آخرت کا اصل سرمایہ گردانا، دولت و عزت کا سبب سمجھا۔آپ کے تین فرزند وں نے جامعہ اسلامیہ سے سندِ فراغت حاصل کی ہے، بڑے بیٹے مولانا محمد صہیب منا جامعی ہمارے خاص دوستوں میں ہیں، درجہ کے لحاظ سے ہم سے ایک سال آگے تھے، لیکن گاہے بہ گاہے ہمارا وقت ساتھ گزرتا، نشست وبرخاست بھی ساتھ رہتی، ہمارے خاص چاہنے والوں میں ہیں، تعلیم سے فراغت کے بعد جامعہ ہی میں کچھ سال تدریس سے وابستہ رہے، اس وقت سعودی عربیہ کے شہر "رحیمہ" میں مقیم ہیں، وہاں رہ کر جامعہ اور بھٹکل کے بعض اداروں کو بھی کتابیں روانہ کرنے کی فکر میں رہتے ہیں، ایک وقت تھا جب کیسٹوں کا دور تھا تو آپ ہی کے توسط سے جامعہ میں کافی کیسٹیں پہنچتی تھیں، ابنائے جامعہ منطقہ شرقیہ کے رکنِ تاسیسی ہیں، اس کے کلیدی عہدوں پر رہ چکے ہیں، فارغین کے علاوہ عوام کو بھی جامعہ سے مربوط رکھنے میں آپ کا بھی حصہ رہتا ہے، گویا وہ اپنے مادرِ علمی سے مربوط رہنے میں "پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ" کے مصداق ہیں۔
دوسرے فرزند مولانا عبد الحسیب منا ندوی بھی اسی گلستان جامعہ کے گلِ سر سبد ہیں، حفظِ قرآن کی سعادت سے مالا مال ہیں، دار العلوم ندوۃ العلماء سے فراغت کے بعد اسی کی آبیاری میں مشغول ہو گئے، تدریسی خدمات سے جڑ گئے، سابق مہتممِ جامعہ مولانا عبد الباری علیہ الرحمۃ کے منظور نظر رہے اور اب بھی انھیں اپنے اساتذہ و سرپرستانِ جامعہ کا مکمل اعتماد حاصل ہے، ترقی کرتے کرتے گزشتہ چند سالوں سے "مکتب جامعہ اسلامیہ، چوک بازار" کے صدر مدرس بن گئے۔ ساتھ ہی آپ کی خدمات کا دائرہ آزاد نگر اسپورٹ ایسوسیشن "انفا" سے لے کر محلے میں واقع "مسجدِ طوبی" تک محیط ہے، اگر اسپورٹ سینٹر کے کلیدی عہدے پر فائز ہیں تو مسجد میں امامت کے عظیم منصب پر رہ کر اپنی شخصیت کو مزین کئے ہوئے ہیں۔ جماعت المسلمین بھٹکل کے زیرِ اہتمام قائم "شعبۂ تبلیغ بھٹکل" اور بھٹکل مسلم یوتھ فیڈریشن کے ساتھ مل کر بھی شہر کی مختلف سرگرمیوں میں جڑے رہتے ہیں۔ اپنے بھائیوں میں آپ کو یہ خصوصی سعادت حاصل رہی کہ بھٹکل ہی میں مقیم رہنے کی وجہ سے آپ کا بڑا وقت اپنے والدِ ماجد کی خدمت میں گزرا، والدین کی خدمت کا شرف پایا۔
مرحوم کے آخری فرزند مولانا عبد المقیت صاحب منا کا شمار بھی جامعہ کے ہونہار فرزندوں میں ہوتا ہے، ماشاء اللہ حافظِ قرآن ہیں، اچھے قاری ہیں، قدرت کی طرف سے حسنِ صوت کی نعمت ملی ہے، اس میں انھوں نے مزید محنت کی ہے، مختلف قرات اور قاریوں کو سننے کے ساتھ ساتھ عملی مشق بھی کرتے رہتے ہیں، امسال عید الاضحی کی نمازِ عید شہرِ "الجبیل" ہی کی عالیشان مسجد "الجامع الکبیر" میں آپ کی امامت میں ادا کی گئی، ہزاروں فرزندانِ توحید شریک تھے، جو الحمد للہ پوری برادری کے لیے ایک قابلِ فخر اور بہت بڑا اعزازتھا، آپ بلند اخلاق کے حامل ہیں۔ ہمارے ادارہ فکر وخبر کے شعبۂ "اجمل التلاوۃ" سے بھی جڑے ہوئے ہیں، اس شعبہ کےتحت جو کوششیں کی جاتی ہیں اس میں آپ کا بھی پورا تعاون رہتا ہے، وقتا فوقتا مفید مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں۔
جہاں تک تعلق آپ کے فرزندارجمند جناب یاسر صاحب کا ہے، تو آپ اپنے والدین کے لئے ہر طرح سے معاون رہے، آپ کو گھر کی ذمہ داریوں کے احساس نے چین سے بیٹھنے نہیں دیا، اسی لئے آپ اپنے بھائیوں میں سب سے پہلے معاشی ضروریات کی تکمیل کے لئے سفر کرنے والوں میں ہیں،جس کے لئے آپ سعودی عربیہ چلے آئے، والدین کے ساتھ ساتھ بہن بھائیوں کے لئے معاشی اعتبار سے ایک ظاہری سہارا بن گئے، یہاں ایک عرصہ گزارا، یہیں پر قیام کے دوران جب آپ عمرہ کےایک سفرپر تھے،ایسے خطرناک حادثے کا شکار ہوئے کہ بظاہرجس سے بچنا مشکل ہی نہیں بلکہ محال تھا، جس حادثہ کی شدت کا اندازہ اس سے ممکن ہے کہ جائے واردات ہی پر دو جاں بحق ہوئے اور ایک خاتون جو بچ بھی گئی وہ معذور ہی رہی۔مگر اسے تقدیرِ الہی کے فیصلے کے بعد والدین ہی کی خدمت اور ان کی دعائیں کہئے کہ آپ اس حادثہ میں بال بال بچ گئے اور کچھ مدت بعد صحت یاب بھی ہوئے ۔ ساتھ ہی یہ بھی آپ کی بڑی سعادت ہے کہ آپ کو اپنے والدین کی خدمت کا شرف حاصل ہوا، والدِ ماجد عمر کے آخری مرحلہ میں زیادہ انہی کو ساتھ رہنے کا موقع ملا۔
مرحوم عبد الرحمن منا ایک فرض شناس اورانتہائی محنتی وایماندار انسان تھے۔ اہلِ دل سے تعلق رکھتے تھے، علماء سے محبت کرتے، ان کے سامنے اپنی محبت کا اظہار فرماتے، بالخصوص بانئ جامعہ اسلامیہ جناب ڈاکٹر علی ملپا رحمۃ اللہ علیہ سے ربطِ خاص تھا، موقع بہ موقع ان کے کاشانہ پر حاضری دیتے تھے۔
آپ زندگی میں صبر آزما شدائد اور جاں گسل تکلیفوں کے بیچ رہے، رزقِ حلال کے لئے شب و روز بڑی محنت کی، اپنی استطاعت بھر مشقت کی، بے حد دوڑ دھوپ کے بعد اپنا روزگار حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ دیکھنے والوں سے یہ بات مخفی نہیں تھی کہ مرحوم نے رزقِ حلال کی تلاش میں کس قدر خون پسینہ ایک کر کے حصولِ معاش میں لگے رہے، ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کی۔
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
جو انسان روزی روٹی بڑی محنت و مشقت سے حاصل کرتا ہے۔ معاشرہ میں اسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اللہ کے نزدیک اس کا رتبہ بڑھایا جاتا ہے۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی پیشے کی حقارت مٹانے کے لئے محنت اور مزدوری کی عزت افزائی فرمائی ہے، خود اپنی زندگی میں اس کا عملی نمونہ پیش کیا ہے، طلب معاش اور کسبِ حلال ایسا پسندیدہ عمل ہے، جس میں ربِّ ذو الجلال نے انبیائے علیہم السلام اور عوام کو جمع فرمادیا ہے۔
آپ میں جہاں سخاوت و فیاضی، داد و دہش و غرباء پروری کا وصف غالب تھا، وہیں صلہ رحمی، ہمدردی اور خورد نوازی کے اوصاف بھی پائے جاتے تھے۔ ہمارے ان سے تعلقات کی دو نوعتیں تھیں، اگر پہلی نوعیت آپ کے بڑے فرزند مولانا صہیب منا صاحب سے ہماری رفاقت اور دوستی تو دوسری نوعیت ایک نیک صفت انسان ہمارے خالو اور سسر جناب محمد جعفر صاحب دامدا فقیہ کے ساتھ ان کی رفاقت یا دوستی تھی۔ اس لئے انھوں نے مجھ سے بھی بہت محبت کی، ہمیشہ مسکراہٹوں اور خوشیوں سے استقبال کیا، جب بھی ملے تپاک سے ملے، جملے کا آغاز مولوی صہیب سے تو اس کا اختتام اپنے سسر جعفر پرہوتا، ہر ملاقات میں اپنے تعلقات کا فخریہ اظہار فرماتے، ان کا ہمارے سسر کے گھر آنا جانا بھی برابر رہتا، شاید بہت کم مواقع ایسے ہوں کہ ان کا گزر سلطانی محلے یا اچار کیری سے ہوا ہو اور "جاوید منزل" آئے بغیر چلے گئے ہوں۔
آپ کو مساجد سے گہرا تعلق تھا، جب تک طاقت و ہمت رہی ہر نماز مسجد ہی میں ادا ہوئی، بلکہ وقت سے پہلے مسجد حاضری زندگی بھر کا معمول رہا تھا۔ مسجدِ نور، مسجد خالد بن الولید اور مسجد ملیہ یعنی تنظیم مسجدکا شمار آپ کی خاص مسجدوں میں ہوتا تھا، اور مسجدِ طوبی آپ کے محلے ہی کی مسجد ہے، یہ تمام مساجد گواہ ہیں کہ آپ کا دل کس طرح مسجد سے لٹکا رہتا تھا۔
برادرم مولوی عبد اللہ غازی دامدا ابو ندوی، مدیر ماہنامہ "پھول، بھٹکل" کے مضمون سے ان کے ذوقِ مطالعہ کا بھی اندازہ ہوتا ہے، جس سے ان کے بچوں کی تربیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، وہ لکھتے ہیں : "عبادات اور تعلق مع اللہ کے علاوہ ان کا دلچسپ مشغلہ کتب بینی تھا، خصوصا رسائل و جرائد کے وہ جنون کی حد تک شوقین تھے، ایک ایک رسالہ ترتیب کے ساتھ رکھتے تھے، مطالعے کے دوران میں کوئی اہم نکتہ یا واقعہ ملتا تو اپنے گھر والوں کو سنانا ان کا معمول تھا۔ بچوں کے رسائل سے ان کی دلچسی کا عجیب عالم تھا، رامپور سے نکلنے والے ماہ نامہ "ھلال" اور "نور" کے تو رسیااور شیدا تھے، پرانے شمارے مانگ مانگ کر پڑھتے، اپنے پاس رکھے شماروں کو چھونا تو درکنار قریب تک پھٹکنے نہ دیتے۔ حالاں کہ یہ رسائل بچوں کے تھے لیکن ان بچوں کے رسائل کے سب سے بوڑھے قاری یہی تھے۔ ھلال سے کہانیاں منتخب کر کے بچوں کے درمیان پڑھنا بھی ان کا خاص معمول تھا۔
بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں سیکڑوں صفات ہوتی ہیں وہ گویا کمالات کا مجموعہ ہوتے ہیں، لیکن کچھ پردے ان کے درمیان حائل رہتے ہیں۔ جناب مرحوم عبدالرحمن صاحب کا بھی کچھ یہی حال تھا۔بظاہر وہ سادہ لوح انسان تھے، لیکن ان کی زندگی کی داستان دلچسپ اور ان کے اوصاف و کمالات حیرت انگیز ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ان کی حیات مستعار نے ہمیں بہت سے پیغامات دئے ہیں۔ بلا شبہ مرحوم اپنی نیک صفات اور نیک اولاد کی خدمات سے ہمیشہ یاد آتے رہیں گے۔ ان کی زندگی میں ہر والد کے لیے یہ پیغام ہے کہ اصل دولتِ دنیا نیک اور صالح اولاد ہیں، یہی ذخیرۂ آخرت بھی ہیں، ان ہونہار بچوں نے اپنے والدِ ماجد کی جو خدمات کی ہیں ان پر منور رانا صاحب کے یہ دو مصرعے یاد آتے ہیں۔
یہ سو چ کے ماں باپ کی خدمت میں لگا ہوں اس پیڑ کا سایا مرے بچوں کو ملے گا
تحریر کردہ ۔ 11/ ذو الحجہ ۱۴۴۱ ہجری۔
مطابق۔ یکم/ اگست ۲۰۲۰ عیسوی
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں