مردانہ جوابی کارروائی

اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں اپنا دفاع کرنا ہے ایک ایسے وقت میں کہ جب آپ پر راکٹ برسائے جارہے ہوں تو آپ کو وہی کرنا چاہیے جو ایک مرد کو کرنا چاہیے۔معصوم بچوں خواتین اور شہریوں پر عین افطار کے وقت بمباری کرکے ان کے گھروں کو ملبہ کا ڈھیر بنادینا اور پھر شہریوں کا روزہ کھولنے کے بجائے لاشوں اور زخمیوں کو جمع کرنا یہ ظلم کی بدترین شکل ہے اس ظالمانہ کارروائی کو اسرائیلی وزیر اعظم مردانہ کارروائی سے تعبیر کر رہے ہیں۔اس طرح تو پھر ہٹلر نے جرمنی میں یہودیوں کے ساتھ جو کچھ کیا وہ اس کی مردانہ کارروائی کہا جائے گا۔اب تو اسپتالوں اور اسکولوں پر بھی بمباری کی جارہی ہے۔ہم تھوڑی دیر کے لیے یہ تصور کرلیں کہ جہاں ہم رہ رہے ہیں وہاں کسی وقت بھی کوئی بم ا?کر گر سکتااور ہم سب گھر والے ملبہ کے تلے دب کر مر جائیں گے تو ہماری ذہنی کیفیت کیا ہوگی۔اس وقت غزہ کے فلسطینی کچھ اسی قسم کی ذہنی کیفیت سے گزر رہے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں کتنے صبر و ہمت کی دولت سے مالا مال کیا ہوا ہے روز وہ لاشیں اٹھا رہے ہیں لیکن اپنے موقف جو کہ اصولی موقف ہے پر قائم ہیں ایک طرف اسرائیل کی پشت پر امریکا برطانیہ مغربی ممالک ہیں بعض عرب ممالک کی خاموش حمایت بھی اسرائیل کے حوصلوں کو بلند کررہی ہے ،ایران و شام اپنے مسائل میں گرفتار ہیں دیگر مسلم ممالک بیانات کی حد تک ساتھ دے رہے ہیں صرف پاکستان اور ترکی نے اسرائیل کی مذمت کی ہے ،اس طرح غزہ کے مسلمان پوری دنیا میں یکہ و تنہا ہیں جو اسرائیلی بربریت کا مقابلہ کر رہے ہیں۔اسرائیل کی ڈھٹائی اور بے حمیتی دیکھیے کہ امریکا میں اسرائیلی سفیر رون ڈرمر نے مطالبہ کیا ہے کہ یہودی فوجیو ں کو امن کا نوبل انعام دے جائے کہ انھوں نے حماس کے مسلسل راکٹ فائر کرنے پر ناقابل یقین حد تک صبر کا مظاہرہ کیا ہے انھوں نے حماس کے راکٹ حملوں کو دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی طرف سے لندن پر بمباری سے تشبہہ دی۔یہ اسرائیل کے صبر کی کتنی عظیم الشان مثال ہے کہ دو سو بچوں سمیت سات سو فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا یہ بھی صبر کی ایک مثال ہے کہ16دن میں اسرائیل نے غزہ کی اس چھوٹی سی پٹی پر 3250فضائی حملے کیے ہیں جو 203 حملے روز کے بنتے ہیں۔
اب تک 4220 افراد زخمی ہیں جن کے لیے اسپتالوں میں دواؤں کی شدید قلت ہے اسرئیل کے صبر کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اس کی بمباری سے 1090مکانات مکمل 19 ہزار جزوی طور پر متاثر ہوئے ہیں ،نوے اسکولز بارہ اسپتال و کلینکس اور 64 مساجد کو شدید نقصان پہنچا ہے جب کہ تین مساجد مکمل طور پر تباہ ہوئیں ہیں۔پوری دنیا منافقت کی چادر اوڑھے خاموش لیٹی ہوئی ہے ،انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ کوئی اسرائیل کا ہاتھ روکنے والا نہیں ہے ،اصل بات یہ ہے کہ اس دفعہ اسرائیل کو شاید سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے حماس نے جو سرنگیں بنائی ہیں وہ اس کے لیے وبال جان بن گئیں ہیں ایک ٹی وی چینل نے اس کی باقاعدہ ایک رپورٹ دکھائی ہے کہ کس طرح ان سرنگوں کے ذریعے یہو دی فوجیوں کو جانی نقصان پہنچایا جا رہا ہے لیکن حماس کے رہنما خالد مشعل کا اب بھی یہ عزم ہے کہ جب تک غزہ کا محاصرہ ختم نہیں کیا جائے گا کوئی جنگ بندی کا معاہدہ نہیں کیا جائے گا ایسے حبس کے ماحول میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں اسرائیلی کارروائیوں کی تحقیقات کے حوالے سے قرارداد کا منظور ہو جانا بارش کا ایک قطرہ ثابت ہو سکتا ہے امریکا نے تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس قرارداد کی مخالفت کی ہے جب کے مغربی اور یورپی ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا مگر یہ شہادتوں کا سلسلہ ابھی رکتا ہوا نظر نہیں ا?رہا اب تو اقوام متحدہ کے پناہ گزین کیمپوں پر بھی بمباری ہو رہی ہے در اصل اسرائیل جو ایک ناجائز ریاست ہے تو جس طرح غیر حلالی بچے سارے ہرام کام بڑی دیدہ دلیری سے کرتے ہیں اسی طرح اسرائیل کے نزدیک کوئی اصول ضابطے نہیں ہے جس کی وہ پابندی کرے ،اہم سوال یہ ہے کہ اسرائیل کو ا?پ کس طرح پابند کر سکتے ہیں اس کے لیے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ عرب ممالک تو کچھ کر نہیں سکتے بلکہ حماس جو اسرائیل کی دہشت گردی کا مقابلہ کررہی ہے اس کو خود سعودی عرب نے دہشت گرد تنظیم کہا ہوا ہے اس ضرورت اس بات کی ہے پاکستان ا?گے بڑھے اور ترکی اور ایران کے ساتھ مل کر کوئی ٹھوس اور موثر لائحہ عمل بنائے۔ (

«
»

عراق جنگ کا ایندھن بھارت کے مسلم نوجوان

یہ کن کی لاشیں تڑپ رہی ہیں،یہ کن کا تازہ لہورواں ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے