ان کی پٹھوفوج کے ہاتھوں ہزاروں افراد کا قتل اور گھناؤنے جرائم انہیں نظر نہیں آ رہے ہیں۔اور بڑی ڈھٹائی سے وہ اسے فوجی بغاوت قرار دینے سے گریزاں ہیں۔ اس موقع پر یہودونصار ی کے زیر اثر میڈیا کی لمبی زبانیں بھی گنگ ہیں اور جانوروں تک کے حقوق پر چیخ و پکار کرنے والی حقوق انسانی کی تنظیمیں مصر کے قتل عام پر شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپائے بیٹھی ہیں۔
وہ کون سا جرم ہے جو مصری فوجی درندوں نے نہ کیا ہو۔ نہتے عوام کو مسجدوں میں بھون دیا اور شہیدوں کی لاشوں اور زخمیوں کو جلا کر راکھ کر ڈالا۔ ان کی گولیوں کی بوچھاڑنے ہرذی روح کو بھسم کر ڈالا اور عوام پر ٹینک چڑھا کر دہشت گردی اور بربریت کی انتہا کر دی یہاں تک کہ انہوں نے ایمبولینس گاڑیوں کو زخمیوں کو اٹھانے سے روک دیابلکہ ان سے زخمیوں کو اتا ر کر گرفتار کر لیا۔ ان جرائم کے مرتکب فوجی افسران میں سے ایک کو یہ کہتے سنا گیا کہ انہیں مرنے دو تا کہ ہم ان سے نجات پا سکیں ۔ان درندوں نے فیلڈہسپتال جہاں زخمیوں اور شہدا کی لاشیں لائی جا رہی تھیں ، کو بھی جلا کر خاکستر کر دیا۔ یہ مصر کی اس بہادر فوج کی کاروائی ہے جس نے میدان میں دشمن ( اسرائیل) سے ہمیشہ شکست کھائی اور امریکا کے کہنے پردب کر کیمپ ڈیوڈ جیسا معاہدہ کر کے خود کو مصر کے اندر رئیل اسٹیٹ یعنی کاروبار کو بڑھانے اورامریکی امدادکی بھیک وصول کرتے رہنے تک محدود کرلیا۔ لیکن اپنے ہموطنوں کے خلاف وہ اس ڈھٹائی سے برسرپیکار ہے کہ اس کے کارندوں نے مسجد رابعہ عدویہ جہاں شہدا کی لاشیں رکھی ہوئی تھیں اور بچوں، عورتوں سمیت لوگ ان درندوں سے پناہ لیے ہوئے تھے، پر حملہ کر دیا اور وہ تباہی مچائی کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔مسجد کے درودیوار اور اردگرد کی عمارتیں یہاں ڈھائی جانے والی قیامت کی اب تک شہادت دے رہی ہیں حالانکہ اگلی ہی صبح فرش، دیواریں، ستون اور ارد گرد کا ایریا دھو دیا گیا۔
قیامت برپا کرنے پر ہی انہوں نے بس نہیں کیا بلکہ وزارت صحت اور دیگر اداروں کے ذریعے صفائی کا ہنگامی پروگرام بنا یا گیا اور بلڈوزروں کے ذریعے شہیدوں کی لاشوں کے ٹکڑے اور جلی ہوئی لاشوں کو اکٹھا کرکے ٹھکانے لگایا گیا۔ اس طرح ان کی رہی سہی شناخت اور پہچان بھی مٹا دی گئی ۔شہدا کے ورثا کے مطالبہ کے باوجود انہیں میتیں حوالے نہ کی گئیں۔بلکہ الٹا ملبے میں سے اپنے پیاروں کی لاشوں کو تلاش کرنے والی عورتوں اور معصوم بچوں پر ٹینک چڑھا دیے گئے۔
قاہرہ میں بی بی سی کے نمائندہ علی جمال الدین نے بتایا کہ فوج اور اس کے معاون اداروں نے حتی الامکان کوشش کی کہ کسی طرح شہدا کی تعداد کم سے کم ظاہر ہو۔ مگر وہاں جو قیات بر پا رہی اس کے نشانات مٹائے نہ مٹ رہے تھے مسجدوں کے اندر خونریزی اور ہسپتال میں جلائی جانے والی لاشوں کے نشانات جگہ جگہ اس بربریت کی کہانی سنا رہے ہیں جو وہاں روا رکھی گئی۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کے دوران کلسٹر بم بھی استعمال کیا گیا جس سے 150افراد کو آن واحد میں بھسم کر ڈالا گیا۔ ایمبولینسوں کو زخمی اٹھانے سے نہ صرف روک دیا گیا بلکہ ان کے اندر اگر کوئی زخمی موجود تھا تو اسے گھسیٹ کر باہر نکالا گیا اور گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا یا پھر اسے بھی شہید کر دیا گیا۔ جلائے گئے میدانی ہسپتال کے بچ رہنے والے عملے کے ایک کارکن کا کہنا ہے کہ حملے کے وقت یہ ہسپتا ل اور اس کے ارد گرد کے گراؤنڈ لاشوں اور زخمیوں سے اٹے پڑے تھے۔ مصری فوج نے ایسے جرائم کا رتکاب کیا ہے کہ جس کی کوئی مثال ڈھونڈے سے بھی انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔
مصری فوج اور اس کی پشتبان قوتوں کو جان لینا چاہیے کہ ان کے اِن قبیح جرائم سے ان کا بھیانک چہرہ دنیا کے سامنے بالکل عیاں ہوگیاہے۔ سب نے کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ جمہوریت اور انسانی حقوق صرف ان کے اپنے لیے ہیں باقی دنیا بالعموم اور عالم اسلام میں بالخصوص وہ ان کے روادار نہیں بلکہ یہاں بادشاہوں، ملوک اور ڈکٹیٹروں کے وہ ساتھی ہیں اورا نہیں کے ذریعے وہ عوام کو کنٹرول کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مصر میں اخوان المسلمون کی صورت میں اسلامی نظام نافذکرنے کی علمبردار قوت جب اقتدار میں آئی تو مصری بیوروکریسی نے عدم تعاون کا رویہ تو اپنایا ہی، کیونکہ انہیں تو اپنے آقاؤں کے حکم کے مطابق عمل کرنا تھا ،سو انہوں نے کیا ۔مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ عالم عرب سے کوئی معمول کی مالی امداد بھی انہیں نہ پہنچی اور مصنوعی بحران پیدا کر دیا گیا اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ جونہی فوج نے اخوان المسلمون کا تختہ الٹا تو نہ صرف امریکا بلکہ عالم عرب سے اربوں ڈالر کی امداد آنا شروع ہوگئی بلکہ وہاں سے یہ ہلہ شیری بھی مصری فوج کوملی کہ مغربی اقوام اپنی کسی مجبوری کے تحت اگر کبھی امداد روک بھی دیں پھربھی انہیں امداد ملتی رہے گی۔ کفر از کعبہ گر خیزدکجا ماند مسلمانی۔
ہم دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد کرنے والے اخوان المسلمون کو سلام عقیدت اور ہدی تبریک پیش کرتے ہیں جنہوں نے رمضان المبارک کا پورا مہینہ میدانوں اور سڑکوں پر گزارا اور وہیں پر سحروافطار کیا اور اپنی جبینوں سے میدانوں اورسڑکوں کو سجدہ گاہ بنائے رکھا اور بالاخر انہیں اپنے لہو سے سیراب کیا۔ ان کی یہ پرامن جدوجہد قابل صد تحسین ہے اور ہم اس بات پر اس حدتک یقین رکھتے ہیں جیسے کل سورج طلوع ہونے پر کہ ان کی یہ قربانیاں بہر صورت رنگ لائیں گی اور اس سے نہ صرف مصر بلکہ پورے عالم اسلام میں دین متین سربلند ہو کر رہے گا۔ اور اس وقت منافقین جواپنے تاج وتحت بچانے کے لیے امریکا کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں ، کے لیے کوئی جائے پناہ نہ ہوگی۔ بے شک اللہ تعالی کا قرآن مجید میں وعدہ ہے کہ و انتم الاعلون ان کنتم مومنین
جواب دیں