ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ ایک ساتھ رہنے میں فائدہ اور الگ الگ رہنے میں نقصان ہے۔پرانے زمانے میں ابتدائی درجات میں بچوں کو ایک کہانی سنائی جاتی تھی۔جس میں ایک کسان کے سات بیٹے تھے۔کسان نے ایک دن انھیں بلایا اور کچھ نصیحتیں کیں۔اس کے بعد کسان نے لکڑیوں کا ایک گٹھر دیا جس میں سات لکڑیاں تھیں اور کسان نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ وہ لکڑیوں کے اس گٹھر کو توڑ دے،مگر کوئی بیٹا نہ توڑ سکا اس کے بعد کسان نے ایک ایک لکڑی سب کو دی اور توڑنے کو کہا، سب نے اپنی اپنی لکڑی توڑ دی۔اس کے بعد کسان نے کہا بیٹو اگر تم سب مل جل کر رہو گے تو کوئی ٖتمہیں نقصان نہیں پہنچاسکے گا لیکن اگر الگ الگ رہے تو ان لکڑیوں کی طرح ہر کوئی تمہیں توڑ ڈالے گا۔یہ واقعہ اجتماعیت کی اہمیت کی وضاحت کے لیے کافی ہے۔
قرآن و حدیث میں اجتماعیت کا تصور جتنا ابھرا ہواہے اور جتنی تاکید سے مسلمانوں کے ایک ایک فرد کو اجتماعیت سے جڑے رہنے کی تعلیم دی گئی ہے کسی کتاب میں نہیں ہے مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں کے اندر اس پہلو سے بہت غفلت ہے۔ قرآن مجید میں ایک سے زائد مقامات پر کہا گیا ہے کہ مسلمان اللہ کی رسی کو مل جل کر پکڑے رہیں اور آپس میں تفرقہ بازی اور گروہ سازی نہ کریں۔
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا (آل عمران:۳۰۱)”تم سب اللہ کی رسّی کو مل جل کر پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ بازی نہ کرو۔“
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے ایک قول سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ کی رسّی سے مراد جماعت اور اجتماعیت ہے۔ رسول اللہ ﷺکے مختلف ارشادات میں جماعت و اجتماعیت کو لازم پکڑنے کی بات کہی گئی ہے۔ رسول اللہ ؐ کا ارشاد گرامی ہے:
”تمہارے اوپر واجب ہے کہ تم جماعت کو لازم پکڑے رہو اور تفرقہ بازی سے بچو کیونکہ شیطان ایک کے ساتھ ہوتاہے اور دولوگوں سے دوررہتا ہے۔“ (الترمذی،باب الفتن)
جماعت کی اہمیت کے پیش نظر سفر کی حالت میں بھی اس کو لازم پکڑنے کی بات کہی گئی ہے۔ جماعت اگر قائم ہوتو اس سے الگ ہونے کی سخت مذمت کی گئی ہے بلکہ ایسے شخص کو جس کی گردن پر کسی امام یا امیر سے بیعت کا قلادہ نہ ہو اور اسی حالت میں اس کی موت ہوجائے تو اسے جاہلیت کی موت قرار دیاگیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے:
”جس شخص نے امیر کی اطاعت سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا تو قیامت کے دن وہ اللہ سے ایسے ملے گا کہ اس کے پاس کوئی حجت نہیں ہوگی اور وہ شخص جس کی گردن میں کسی امیر کی بیعت کا قلادہ نہیں اور اسی حالت میں اس کی موت ہوجائے تو گویا اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔“ (مسلم)۔
ایک دوسری حدیث میں وضاحت کی گئی ہے کہ اگر امیر غلام حبشی اور ناک اور کان کٹا ہوتب بھی اس کی سمع و طاعت کی جائے۔ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں:
”میرے خلیل ؐنے مجھے وصیت کی کہ میں سمع و طاعت بجالاوئں چاہے امیر غلام حبشی اور ناک کان کٹا ہی کیوں نہ ہو۔“ (مسلم)۔
بعض احادیث میں اطاعت امیر کو اطاعت رسول قرار دیاگیا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس سے اجتماعیت قائم رہتی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا:
”جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔“(مسلم)۔
جہاں عام لوگوں کو امیر کی اطاعت کا حکم ہے وہیں پر امیر کو اپنی رعایا کے ساتھ عدل و انصاف کرنے اور ان کو ظلم و زیادتی سے بچانے کی تاکید کی گئی ہے، دوسری صورت میں اس کے خلاف سخت وعیدآئی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا:
”اے اللہ! میری امت میں جو شخص امیر یا ذمہ دار بنایاگیا اور اس نے لوگوں کو مشقت میں مبتلا کیا تْوبھی اس پر مشقت ڈال دے اور جس نے نرمی برتی تْو بھی اس سے نرمی برت۔“ (مسلم)۔
ایک دوسری روایت میں ہے: ”اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو امیر بنایا اور اس نے اپنی رعیت کے ساتھ دھوکہ کیا تو اس پر جنت حرام ہوگی۔“ (مسلم)۔
کوئی بھی صاحب عقل اس بات سے انکار نہیں کرسکتاکہ انسان ایک سماجی مخلوق ہے اور اس کی ضروریات دوسروں سے اس قدر مربوط ہیں کہ وہ تنہا زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا لہٰذا اجتماعیت اس کی ایک فطری ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے چلانے کے لیے لازماً ایک نظام ہونا چاہیئے۔ اسی وجہ سے شریعت اسلامیہ میں اجتماعیت کے تعلق سے واضح احکام اور تعلیمات دی گئی ہیں اور اس کو واجبات دین میں شمار کیاگیا ہے۔اسلامی اجتماعیت کے درج ذیل مقاصد ہیں۔
٭ عام دین و دنیاوی مصالح کا حصول اسلامی اجتماعیت کا اولین مقصد ہے۔اس لئے امام پر لازم ہوگاکہ وہ عیدین اور جمعہ کی نمازیں قائم کرے، لوگوں کے معاملات کی نگرانی کرے، عدالتیں قائم کرے، مظلوم کی فریاد رسی کرے اور اگر کوئی لاوارث ہے تو اس کی سرپرستی کرے۔ اس طرح دین کے اکثر احکام تقاضا کرتے ہیں کہ اجتماعیت قائم ہو، اس کے بغیر آدھی شریعت متروک ہوجاتی ہے اور صرف آدھی شریعت پر عمل ممکن رہ جاتا ہے۔
٭ اس دنیا میں صرف اچھائیاں نہیں بلکہ یہاں مفاسد بھی ہیں جن کا ازالہ اور دفعیہ انفرادی ضرورت کے ساتھ اجتماعی ضرورت بھی ہے، فتنہ و فساد کا انسداد، اللہ کے دین کی حفاظت اور دشمنوں کا مقابلہ اجتماعیت کے بغیر ممکن نہیں۔
٭ اللہ تعالیٰ نے مختلف احکام نازل کیے ہیں، ان کاتعلق فرد سے بھی ہے اور معاشرہ سے بھی۔ اجتماعی احکام کا نفاذ ایک نظم کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا اسلامی اجتماعیت کا ایک مقصد یہ قرار پاتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کیاجائے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی میں وہ نافذ ہوں۔
٭ اسلام ساری انسانیت کا دین ہے۔ اس کا مقصد ساری انسانیت کی شیرازہ بندی بھی ہے چنانچہ اسلامی اجتماعیت کاایک مقصد یہ بھی ہے کہ لوگ الگ الگ گروہوں کی شکل میں زندگی گزارنے کے بجائے ایک وحدت بن کر زندگی گزاریں۔ یہی وجہ ہے کہ دین میں اختلاف و نزاع کو ناپسند کیاگیاہے اوراتحاد واتفاق پر بہت زور دیاگیا ہے۔
اجتماعیت کی چند بنیادیں ہیں جب تک وہ بنیادیں قائم ہیں اجتماعیت قائم رہ سکتی ہے ورنہ نہیں۔سب سے پہلی بنیاد مقصد کا تعین ہے۔کوئی بھی اجتماعیت بغیر واضح نصب العین اور واضح مقصد کے تعین کے قائم نہیں رہ سکتی۔اس کے بعد سمع و طاعت کا نظم ہے جو اجتماعیت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے،اگر امیر کی اطاعت نہ کی جائے،اس کا کہا نہ مانا جائے تو کسی بھی اجتماعیت کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔اسی کے ساتھ اجتماعیت سے جڑے ہر شخص کے اندر خیر خواہی کا جذبہ ہونا چاہئے اور یہ بھی ضروری ہے کہ جماعت میں عدل کا نظام بہتر ہو،جس اجتماعیت میں امیر اور مامور میں عدل کرنے میں امتیاز برتا جاتا ہے وہ اجتماعیت قائم نہیں رہ سکتی۔
قرآن و حدیث میں اجتماعیت کا تصور جتنا ابھرا ہواہے اور جتنی تاکید سے مسلمانوں کے ایک ایک فرد کو اجتماعیت سے جڑے رہنے کی تعلیم دی گئی ہے کسی کتاب میں نہیں ہے مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں کے اندر اس پہلو سے بہت غفلت ہے۔ قرآن مجید میں ایک سے زائد مقامات پر کہا گیا ہے کہ مسلمان اللہ کی رسی کو مل جل کر پکڑے رہیں اور آپس میں تفرقہ بازی اور گروہ سازی نہ کریں۔
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا (آل عمران:۳۰۱)”تم سب اللہ کی رسّی کو مل جل کر پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ بازی نہ کرو۔“
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے ایک قول سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ کی رسّی سے مراد جماعت اور اجتماعیت ہے۔ رسول اللہ ﷺکے مختلف ارشادات میں جماعت و اجتماعیت کو لازم پکڑنے کی بات کہی گئی ہے۔ رسول اللہ ؐ کا ارشاد گرامی ہے:
”تمہارے اوپر واجب ہے کہ تم جماعت کو لازم پکڑے رہو اور تفرقہ بازی سے بچو کیونکہ شیطان ایک کے ساتھ ہوتاہے اور دولوگوں سے دوررہتا ہے۔“ (الترمذی،باب الفتن)
جماعت کی اہمیت کے پیش نظر سفر کی حالت میں بھی اس کو لازم پکڑنے کی بات کہی گئی ہے۔ جماعت اگر قائم ہوتو اس سے الگ ہونے کی سخت مذمت کی گئی ہے بلکہ ایسے شخص کو جس کی گردن پر کسی امام یا امیر سے بیعت کا قلادہ نہ ہو اور اسی حالت میں اس کی موت ہوجائے تو اسے جاہلیت کی موت قرار دیاگیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے:
”جس شخص نے امیر کی اطاعت سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا تو قیامت کے دن وہ اللہ سے ایسے ملے گا کہ اس کے پاس کوئی حجت نہیں ہوگی اور وہ شخص جس کی گردن میں کسی امیر کی بیعت کا قلادہ نہیں اور اسی حالت میں اس کی موت ہوجائے تو گویا اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔“ (مسلم)۔
ایک دوسری حدیث میں وضاحت کی گئی ہے کہ اگر امیر غلام حبشی اور ناک اور کان کٹا ہوتب بھی اس کی سمع و طاعت کی جائے۔ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں:
”میرے خلیل ؐنے مجھے وصیت کی کہ میں سمع و طاعت بجالاوئں چاہے امیر غلام حبشی اور ناک کان کٹا ہی کیوں نہ ہو۔“ (مسلم)۔
بعض احادیث میں اطاعت امیر کو اطاعت رسول قرار دیاگیا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس سے اجتماعیت قائم رہتی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا:
”جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔“(مسلم)۔
جہاں عام لوگوں کو امیر کی اطاعت کا حکم ہے وہیں پر امیر کو اپنی رعایا کے ساتھ عدل و انصاف کرنے اور ان کو ظلم و زیادتی سے بچانے کی تاکید کی گئی ہے، دوسری صورت میں اس کے خلاف سخت وعیدآئی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا:
”اے اللہ! میری امت میں جو شخص امیر یا ذمہ دار بنایاگیا اور اس نے لوگوں کو مشقت میں مبتلا کیا تْوبھی اس پر مشقت ڈال دے اور جس نے نرمی برتی تْو بھی اس سے نرمی برت۔“ (مسلم)۔
ایک دوسری روایت میں ہے: ”اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو امیر بنایا اور اس نے اپنی رعیت کے ساتھ دھوکہ کیا تو اس پر جنت حرام ہوگی۔“ (مسلم)۔
کوئی بھی صاحب عقل اس بات سے انکار نہیں کرسکتاکہ انسان ایک سماجی مخلوق ہے اور اس کی ضروریات دوسروں سے اس قدر مربوط ہیں کہ وہ تنہا زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا لہٰذا اجتماعیت اس کی ایک فطری ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے چلانے کے لیے لازماً ایک نظام ہونا چاہیئے۔ اسی وجہ سے شریعت اسلامیہ میں اجتماعیت کے تعلق سے واضح احکام اور تعلیمات دی گئی ہیں اور اس کو واجبات دین میں شمار کیاگیا ہے۔اسلامی اجتماعیت کے درج ذیل مقاصد ہیں۔
٭ عام دین و دنیاوی مصالح کا حصول اسلامی اجتماعیت کا اولین مقصد ہے۔اس لئے امام پر لازم ہوگاکہ وہ عیدین اور جمعہ کی نمازیں قائم کرے، لوگوں کے معاملات کی نگرانی کرے، عدالتیں قائم کرے، مظلوم کی فریاد رسی کرے اور اگر کوئی لاوارث ہے تو اس کی سرپرستی کرے۔ اس طرح دین کے اکثر احکام تقاضا کرتے ہیں کہ اجتماعیت قائم ہو، اس کے بغیر آدھی شریعت متروک ہوجاتی ہے اور صرف آدھی شریعت پر عمل ممکن رہ جاتا ہے۔
٭ اس دنیا میں صرف اچھائیاں نہیں بلکہ یہاں مفاسد بھی ہیں جن کا ازالہ اور دفعیہ انفرادی ضرورت کے ساتھ اجتماعی ضرورت بھی ہے، فتنہ و فساد کا انسداد، اللہ کے دین کی حفاظت اور دشمنوں کا مقابلہ اجتماعیت کے بغیر ممکن نہیں۔
٭ اللہ تعالیٰ نے مختلف احکام نازل کیے ہیں، ان کاتعلق فرد سے بھی ہے اور معاشرہ سے بھی۔ اجتماعی احکام کا نفاذ ایک نظم کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا اسلامی اجتماعیت کا ایک مقصد یہ قرار پاتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کیاجائے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی میں وہ نافذ ہوں۔
٭ اسلام ساری انسانیت کا دین ہے۔ اس کا مقصد ساری انسانیت کی شیرازہ بندی بھی ہے چنانچہ اسلامی اجتماعیت کاایک مقصد یہ بھی ہے کہ لوگ الگ الگ گروہوں کی شکل میں زندگی گزارنے کے بجائے ایک وحدت بن کر زندگی گزاریں۔ یہی وجہ ہے کہ دین میں اختلاف و نزاع کو ناپسند کیاگیاہے اوراتحاد واتفاق پر بہت زور دیاگیا ہے۔
اجتماعیت کی چند بنیادیں ہیں جب تک وہ بنیادیں قائم ہیں اجتماعیت قائم رہ سکتی ہے ورنہ نہیں۔سب سے پہلی بنیاد مقصد کا تعین ہے۔کوئی بھی اجتماعیت بغیر واضح نصب العین اور واضح مقصد کے تعین کے قائم نہیں رہ سکتی۔اس کے بعد سمع و طاعت کا نظم ہے جو اجتماعیت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے،اگر امیر کی اطاعت نہ کی جائے،اس کا کہا نہ مانا جائے تو کسی بھی اجتماعیت کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔اسی کے ساتھ اجتماعیت سے جڑے ہر شخص کے اندر خیر خواہی کا جذبہ ہونا چاہئے اور یہ بھی ضروری ہے کہ جماعت میں عدل کا نظام بہتر ہو،جس اجتماعیت میں امیر اور مامور میں عدل کرنے میں امتیاز برتا جاتا ہے وہ اجتماعیت قائم نہیں رہ سکتی۔
جواب دیں