مقام عبدیت ہی معراج آدمیت ہے

 

    مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

  نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڑیشہ وجھار کھنڈ

 

انسان کے لیے سب سے بڑا مقام، مقام عبدیت ہے، کوئی کتنا ہی بڑا انسان ہو، کسی مقام و منصب پر ہو، اسے اس مقام سے کسی بھی حال میں غافل ہونے کی اجازت نہیں، روۓ زمین پر سب سے افضل انبیاء و رسل ہوتے ہیں؛ لیکن جو کلمہ ہمیں سکھایا گیا، اس میں حضور صلی االلہ علیہ وسلم کے لیے بھی عبدیت کی گواہی کو مقدم اور رسول کی گواہی دینے کو لفظامؤخر کیا گیا،معراج کا واقعہ عروج آدم خاکی کی انتہا ہے؛لیکن جب اللہ ربّ العزت نے اس واقعہ کو قرآن میں بیان کیا تو اپنے محبوب کے لیے عبد کا استعمال کیا، قرآن کریم میں ایک اور جگہ پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عبد اللہ کہا گیا، اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ انسان کی عظمت اس کی عبدیت ہی میں پوشیدہ ہے،المیہ یہ ہے کہ ہمارے زمانہ میں  مقام عبدیت کی عظمت کا احساس دن بدن کم ہوتا جارہا ہے، اس وقت مجھے ایک طالب علم کا واقعہ یاد آ رہا ہے، جس نے رخصت ہوتے وقت اپنے استاذ سے نصیحت کی درخواست کی، استاذ نے کہا کہ بیٹے سب کچھ کرنا، اللہ رسول بننے کی کوشش نہ کرنا، شاگرد نے تعحب سے کہا: حضرت اتنی مذہبی کتابیں میں نے پڑھی ہیں، اتنے دن آپ کی تربیت میں رہا، یہ بات تو میرے خواب و خیال میں نہیں آسکتی، پھر اس نصیحت کا حاصل کیاہے، میں نے کچھ سمجھا نہیں، استاذ نے کہا کہ اللہ بننے کا مطلب یہ ہے کہ کسی موقع سے اور کسی عہدہ پر پہونچنے کے بعد تمہیں یہ خیال آجاۓ کہ جو کچھ ہوگا میری مرضی سے ہوگا، میرے حکم کے مطابق ہوگا؛ جو اس کے خلاف کرے گا سزا کا مستحق ہوگا، پوری زندگی یہ بات یاد رکھنا کہ جس دن تمہاری فکر اور سوچ کا محور یہ ہوگیا، تم مقام عبدیت سے نکل کر خود کو الوہیت میں داخل کرنے کے مرتکب ہوگئے، کیوں کہ یہ مقام صرف اللہ کا ہے کہ اس کے حکم سے سرمو انحراف نہ کیا جائے اور یہ کہ اس کی مرضی اور مشیت کے بغیر پَتَّہ بھی ہل نہیں سکتا، اور رسول بننے کی خواہش کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے دل میں یہ خیال ہو کہ سب مجھے بڑا سمجھیں، میری عظمت کو تسلیم کریں اور مجھ سے عقیدت رکھیں، یہ مقام صرف رسول کا ہے، دنیا میں کوئی کتنا بڑا انسان کیوں نہ ہو خطا اور نسیان سے مرکب ہے، اس اصول سے صرف انبیاء ورسل مستثنیٰ ہیں کیوں کہ اللہ نے ہی انہیں معصوم بنایا ہے، دوسرا طبقہ صحابہ کرام کا ہے جو محفوظ ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں رَضِی اَللّٰہُ عَنْھم وَرَضُوْا عَنْہ کہہ کر بات ختم کردی ہے، ان کے علاوہ جو بھی انسان ہے نہ تو وہ محفوظ ہے اور نہ معصوم، مراتب اور درجات کے اعتبار سے مفادات کے حصول اور تحفظات کی خواہش ہر دل میں پائ جاتی ہے، "اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبِّی"سواۓاس کہ جس پر میرا رب رحم کی چادر ڈال دے، یہ معاملہ اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ لوگ اپنے قد کو اونچا اور دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے روند کر بھی گذر جانے سے گریز نہیں کرتے، اور وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے قد کی اونچائی میں دوسروں کا بھی بڑا حصہ ہے، ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک پوتا، دادا کے کاندھے پر چڑھ گیا اور کہنے لگا کہ دادا،دادا ! میں آپ سے اونچا ہوگیا، دادا نے کہا پوتے یہ مت بھولنا کہ میرے قد کی اونچائی بھی تم کو اونچا بنانے میں شامل ہے، بہت لوگ بیساکھی کے سہارے اور پاؤں میں بانس باندھ کر سرکس کے جوکروں کی طرح اونچا بننے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بانس اور بیساکھی کے ہٹتے ہی قد پھر سے بونا ہوجائے گا۔یہ بانس اور بیساکھی عہدے اور منصب کا بھی ہو سکتا ہے، حسب و نسب اور خاندانی وجاہت کا بھی

یقیناً اپنی شخصیت کی تشکیل کا ہر کسی کو حق ہے؛ لیکن جب تشکیل کے اس عمل میں بڑی لکیر کو مٹا کر خود بڑا بننے کی کوشش کی جائے تو یہ فعل مذموم بھی ہے اور قبیح بھی، یہ تو ہوسکتا ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں کو اس قدر پروان چڑھاۓ کہ بڑی سی بڑی لکیر سے وہ آگے نکل جاۓ ،یہ ایک اچھی بات ہے اور فطرت کے عین مطابق بھی۔اس حال میں بھی عبدیت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے 

انسانی زندگی میں بندگی کا جو تصور مطلوب ہے وہ انسان کی زندگی کو بیلنس معتدل اور متوازن رکھتا ہے، یہ صفت ختم ہو گئی تو انسان غیر ضروری خوش فہمی کا شکار ہوکر عجب اور کبر میں مبتلا ہوجاتا ہے، اور یہ وہ صفت ہے جو اللہ کو کسی حال میں پسند نہیں ہے، اللہ ربّ العزت تو کبر کے ساتھ زمین پر چلنے کو بھی پسند نہیں کرتے؛کیوں کہ یہ ایک فضول عمل ہے، اکڑ کر چلنے سے نہ تو انسان زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ ہی پہاڑ کی بلندی تک پہونچ سکتا ہے، اسی طرح اللہ نے اعلان کردیا ان لوگوں کے لیے جو بندگی کے دائرے سے نکل کر تکبر کے محل میں داخل ہوگئے ہیں کہ وہ اللہ کو پسند نہیں ہیں، قرآن کریم میں جن  ملعون لوگوں کا ذکر ہوا ہے، خواہ وہ قارون ہو یا فرعون، ہامان ہو یا نمرود، شداد ہو یا ابو لہب سب کی کوشش یہی تھی کہ وہ اپنے کو برتر ثابت کرے، فرعون  نےتو اَنَا رَبُّکُمُ الاَعْلٰی کا اعلان کردیا تھااور شداد نے خدائ مقابلہ کے لیے جنت بھی بنا ڈالی تھی؛ لیکن ایسے متکبرین کا جو حشر ہوا اور جس طرح ذلت کا طوق ان کے گلے میں ڈالا گیا اس سے ہر پڑھا لکھا شخص واقف ہے۔

یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ کبر کبھی کبھی تواضع کے اندر بھی پایا جاتا ہے؛ جب یہ لوگوں کو دکھانے کے لیے کیا جائے، ایسا شخص جسے آپ بہت متواضع اور منکسر المزاج سمجھ رہے تھے وقت آنے پر انتہائی متکبر ثابت ہوتاہے، بے اختیار پروفیسر لطف الرحمن کا یہ شعر نوک قلم پر آگیا۔

 

عجیب طرزِ انا ہے یہ خاکساری بھی

قریب سے جو دیکھا تو خدا نکلا

مضمون نگار کی رائےسے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اس دنیا میں جہاں بانی اور ملک گیری کے  جتنےجھگڑے ہوۓ ہیں، ان میں بیش تر مفاد کے حصول اور تحفظات کی غرض سے ہی ہوا کئے ہیں، اور کئ بادشاہوں کی حکومت باپ بھائی کے قتل کی اساس و بنیاد پر قائم ہوئی، آج عرب ملکوں کی اسرائیل اور امریکہ سے قربت، تحفظات کے نقطہ نظر سے ہے اور امریکہ اپنے مفاد کے حصول کے لیے پوری دنیا میں دادا گیری کرتا پھررہاہے، جس کے نتیجے میں پوری دنیا جنگ کا میدان بن گئی، کسی ملک میں سرد جنگ چل رہی ہے اور کسی میں  گرم جنگ، نتیجہ دونوں کا تباہی و بربادی ہی ہے۔

اس لیے اس وقت کرنے کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ انسانوں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلایا جائے انہیں بتایا جائے کہ مقام عبدیت کا حصول ہی معراج آدمیت ہے تاکہ وہ من مانی حرکتوں سے باز آۓ، اپنے کو اللہ رسول کے مقام پر رکھنے سے گریز کرے اور اللہ کی حاکمیت کے احساس کے ساتھ زندگی گذاری جاۓ، کام مشورے سے کئے جائیں، ان اعلیٰ اخلاقی اقدار کو زندگی میں داخل کیا جائے جو انسان کو انسان بناتے ہیں اور احساس دلاتے ہیں کہ انسان کوئی بھی مَافَوقَ الْبَشَر نہیں ہے۔

Attachments area

«
»

کشمیری رہنماؤں سے مودی کی ملاقات؛ یہ منظر اور اس کا پس منظر کیا بولتا ہے

ٹول کِٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے