لیکن ڈاکٹر منصور خوشتر نے یہ سب سیکھا لیکن تعلیم سے کھلواڑ کئے بغیر۔ انہوں سائنس سے انٹر کیا اور پھر فیزیو تھراپی میں ڈگری حاصل کی۔ لیکن صحافت کا چسکا ایسا رہا کہ اس کے ساتھ صحافت بھی کرتے ہیں۔ پھر یوں ہوا کہ یوں ہی صحافت کرتے کرتے چپکے سے شاعر بھی ہوگئے۔ البتہ ان کی صحافت نے انہیں اس فن پر کبھی یکسوئی کے ساتھ توجہ دینے کی فرصت نہیں۔ عام طور پر شاعر حساس سمجھا جاتا ہے لیکن ایک صحافی شاید شاعر سے بھی زیادہ حساس ہوتا ہے۔ کیونکہ صحافی کے نظر صرف بڑے بڑے وقوعات پر ہی نہیں ہوتی وہ سماج پر اتنی گہری نظر رکھتا ہے بہت معمولی سا واقعہ بھی اس کی نظر سے اوجھل نہیں ہوتا۔ جہاں کہیں انسانیت مظلوم ہوتی ہے، مجروح ہوتی ہے اور اپنا وقار کھوتی ہے وہاں صحافت کی نظر ٹک جاتی ہے اور وہ خاموش نہیں رہ پاتا ۔ اس کا قلم ببانگ دہل چلتا ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں ہر جگہ وہ صراحت کے ساتھ بیان کرتا ہے ۔ صحافت میں بہت سے ایسے حالات آتے ہیں جہاں اسے استعاروں اور کم از کم علامتوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ شاعری میں تخیل لازمی عنصر ہوتا ہے۔ صحافت میں فرضی باتیں جائز نہیں ہیں نہ ہی سماج کی صورتحال کو کہانی کی شکل دے کر صحافت میں دینا مناسب ہے تاہم صحافی کی عقابی نظر یہ ہمیشہ اس بات کے لیے سر گرداں رہتی ہے کہ کہاں کہاں انسانیت مظلوم ہے مگر اس کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں ۔
ڈاکٹر منصور خوشتر کا شعری سرمایہ مختصر ہے کیونکہ ان کی عمر بھی کچھ ایسی ہی مختصر ہے۔ وہ جواں سال ہیں اور عمر کی اس دہلیز پر ہیں جہاں انسان کی شخصیت رد وتشکیل عمل سے گزرتی ہے۔ان کے شعری سرمایہ میں غزل کا حصہ زیادہ ہے۔ حالانہ مختصر نظمیں بھی ہیں۔ مگر غزل کا حصہ غالب ہے۔ وہ عمر کی جس دہلیز پر انہیں غزل کہنا چاہیے۔ لیکن ان کی غزلوں کے اشعار غزل برائے غزل بھی اور ان میں غزل کی وسعتیں بھی موجود ہیں۔
ڈاکٹر منصور خوشتر کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے بھی محسوس ہوتا ہے وہ صحافی ہیں اور جہاں صحافت کی پرواز رکتی نظر آتی ہے وہاں سے ان کی شاعری شروع ہوتی ہے۔ وہ وہاں بھی علامتوں اور استعاروں کی مدد سے سماج کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔ گوکہ ان کے یہاں غزل برائے غزل کے اشعار ہیں لیکن اس میں رومان محض کا احساس بہت کم ہوتا۔ ملاحظہ ہوں ان کے کچھ اشعار :
بہاروں پر تسلط ہے خزاں کا
برا دن آگیا ہے گلستاں کا
قتل ہونے کا ارادہ گر نہیں
کوچۂ قاتل میں پھر جاتے ہو کیوں
دشمن جاں کی وفا کا تھا اسیر
روز وشب تھا واسطہ آلام سے
یہ اشعار یوں ہی جہاں تہاں سے منتخب کر لیے گئے ہیں۔ ان اشعار میں صاف محسوس کیا جاسکتا ہے کہ زبان تو وہی علامتی ہے جس سے عشق کی کہانی بیان کی جاتی ہے مگر اس کی بنت میں وہی صحافیانہ مزاج بولتا ہے۔
ان کے یہاں آپ کو عصری حسیت کا بھی بھر پور احساس ہوگا اور آپ کے ارد گرد کی زندگی بھی نظر آئے گی ۔ یہاں یہ بات نظر میں رکھنی چاہیے کہ ارد گرد کا دائرہ اب ایک شہری اور سماج نہیں بلکہ ترسیل وابلاغ کے ذرائع نے دنیا کو سمیٹ کر ایک گاؤں کردیا ہے۔ سائنس کی وجہ سے سماج میں جو تبدیلیاں آرہی ہیں اور ان کے منفی اثرات ہیں ان کو ڈاکٹر منصور خوشتر نے اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ سماج کا ہر شخص یہ محسوس کر رہا ہے کہ دنیا بھر میں ترقی کی رفتار کے ساتھ اخلاقی قدروں کا زوال بھی بہت تیزی کے ساتھ ہوا ۔ انہوں نے ان کو اپنی جگہ میں دے کر انسان کی سوتی ہی غیر ت کو جگانے کی کوشش کی ہے۔
یہاں تو بھائی کی جاں کا ہے دشمن خود ہی بھائی
بسائی تھی جو آدم نے یہ وہ دنیا نہیں ہے
نئی تہذیب ہی نے کی ہے’نیور وسرجری‘ جو
ہمارا خود ،ہمارا چہرہ اب لگتا نہیں ہے
سٹر ک پر چلنے والے کو نہیں اتنی بھی مہلت
تڑپتی لاش کو بھی دیکھ کر رکتا نہیں ہے
حالانکہ ان کی شاعری میں کہیں یاسیت کا بھی احساس ہوتا ہے لیکن ان کا شعریہ رویہ مثبت ہے اور وہ یاسیت کی بجائے امید کے دامن کو پکڑتے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ ایک صحافی کی حیثیت سے بھی انہیں حوصلہ مند اور امید افزا گفتگو کرنی چاہیے ۔ ان کی شاعری کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ فریضہ سے عہدہ برآ ہوئے ہیں۔
وہ حوصلہ مند عاشق ہیں۔ اپنی حرمان نصیبی سے پست ہمت نہیں ہوتے ۔ بلکہ وہ آرزؤوں اور امیدوں کے سہارے جینے اور پانے کا عزم رکھتے ہیں ۔وہ اپنی عمر کا ایک ایک لمحہ ہنس ہنس کر غم والم سے بچ بچاکر گزارنے کے آرزو مند ہیں۔
زندگی پاتی اسی سے حوصلہ تم غم دوراں سے گھبراتے ہو کیوں؟
جیسا کہ اوپر مذکور ہوا کہ ڈاکٹر منصور خوشتر رد وتشکیل کی عمر سے گزر رہے ہیں لیکن ان کے اندر جا بجا فکر کی پختگی بھی نظر آتی ہے اور ایک تجربہ کار کی طرح اعتماد کے ساتھ اپنے فکر کا اظہار کرتے ہیں
چھانتے ہیں کو چۂ جاناں کی خاک بے خبر ہیں عشق کے انجام سے
اب پرندے ہو گئے ہیں ہوشیار بھاگتے ہیں دور وانہ دام سے
ڈاکٹر منصور خوشتر جدید لب ولہجہ کے شاعر ہیں ۔ ان کی شاعری میں عصری تقاضوں کے ترجمانی اور ذاتی تجربات واحساسات کی کار فرمائی نظر آتی ہے ۔ وہ شعر وادب میں اپنی ایک علاحدہ شناخت قائم رکھنے اور اپنے کلام کو تابانی عطا کرنے کے لیے کسی کے نور کے محتاج نہیں بلکہ اپنے ذہن ودل کی ضوفشانی سے شعر وادب کی کائنات خود روشن کر لیتے ہیں ۔
جب ہم منصور خوشتر کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو بہت صاف محسوس ہوتا ہے کہ ان کے یہاں لفظوں کی بازی گری بھی موجود ہے لیکن یہ بازی گری بازیچہ اطفال نہیں بلکہ کسی ہنر مند کی فنی ہنر کاری ہے۔ کیونکہ الفاظ سے حسن کا جادو اسی وقت جگایا جاسکتا ہے جب تجربات میں رعنائی اور دلکشی موجود ہو اور مزاج میں جمالیاتی احساس پایا جاتا ہو۔ ڈاکٹر منصور خوشتر احساس جمال بھی رکھتے ہیں اور متنوع تجربات بھی ۔ ان کا مزاج حسن وعشق کے تلاطم اور رومان پرور کیفیات سے عبارت ہے ۔ یہی وجہ ہے وہ واردات عشق کو کامیابی اور فن کاری سے بیان کرتے ہیں۔ عاشق کے دل کی بے تابیاں ، ہجر کی بے قراریاں اور وصل کی تمنائیں ہی عشق کے بنیادی لوازمات ہیں اور یہی ڈاکٹر منصور خوشتر کی غزلوں کی جان ہیں۔ اس میں معاملہ بندی کے اظہار کو الفاظ کے موزوں استعمال سے ڈرامائی بنادیا ہے۔ ان کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے معاملات عشق کے بیان میں سوقیانہ پن نہیں آنے دیا بلکہ ان کے اشعار واقفیت ، اصلیت اور داخلیت پر مبنی ہیں۔
ڈاکٹر منصور خوشتر نے ایک نظم بعنوان قومی ترانہ بھی تحریر کی ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ان میں نظم کا شاعر ہونے کی بھی صلاحیت موجود ہے۔ نہ صرف ریزہ خیالی بلکہ وہ تسلسل کے ساتھ ایک موضوع کو بیان کرنے پر قادر ہیں۔
اس سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ڈاکٹر منصور خوشتر کی شاعری عیب سے پاک ہے لیکن وہ جس تیز رفتار زندگی کو احاطہ کرتے ہوئے شاعری کر رہے ہیں وہ قابل قدر ہے۔ اگر انہوں نے ذرا محنت سے کام لیا اور شاعری کے فن اور باریکیوں سے واقفیت حاصل کرتے رہے تو امید ہے کہ وہ شاعری میں کوئی مقام قائم کرسکیں گے۔
جواب دیں