از: مفتی محمد ندیم الدین قاسمی کاغذنگری
دینِ اسلام میں منصبِ افتاء کی جواہمیت وضرورت ہے وہ کسی صاحبِ ایمان سے مخفی نہیں؛لیکن یہ کام جہاں عظیم الشان اورباعثِ اجروثواب ہے وہیں انتہائی پر خطر و نازک بھی،اگر اسے" پل صراط" کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا،کیوں کہ" مفتی "شریعت کا ترجمان، کسی چیز کے جواز وعدم جواز، حلت و حرمت کے متعلق اللہ کے حکم کا واضح وشارح، اللہ و بندے کے درمیان واسطہ اور دینی احکام ومعاملات میں قوم کا معتمدعلیہ و مرجع ہو تا ہے، جس میں بے حد حزم واحتیاط کی ضرورت ہے،یہ ہرکس وناکس،ہر راطب ویابس اورکج علم وکج فہم کا کام نہیں ہے بلکہ یہ ماہر، زمانہ شناس، کہنہ مشق مفتی کی ذمہ داری ہے کیوں کہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہیکہ: ’’جو شخص بغیر علم کے فتویٰ دے اس پر فرشتے لعنت بھیجتے ہیں‘‘۔ (الفقیہ والمتفقہ ۴۵۸)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ ’’جو شخص بلا تحقیق فتویٰ دے تو اس کا گناہ مفتی پر ہے‘‘۔ (الفقیہ والمتفقہ ۴۵۸) اسی لئے ہمارے صحابہؓ،اور اکابر و اسلاف نے نہایت احتیاط سے کام لیا چنانچہ:
حضرت عقبہ بن مسلمؒ فرماتے ہے کہ میں ۳۴؍ مہینے مسلسل سیدنا حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی خدمت میں رہا تو آپ اکثر سوالات کے جواب میں ’’لا أدری‘‘ فرماتے تھے، پھر میری طرف متوجہ ہو کر فرمایاکہ’’ان کی خواہش یہ ہے کہ جہنم میں جانے کے لیے ہماری پیٹھوں کو پل کے طور پر استعمال کریں‘‘۔ (اصول الافتاء و آدابہ ؍۲۸۸)
اورحکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہے کہ ’’مجھ کو فقہ ہی میں بولتے ہوئے ڈر معلوم ہوتا ہے، مسائل کا بہت نازک معاملہ ہے۔‘‘ (الافاضات الیومیۃ ج۱ ص۹۴) ایک جگہ فرمایا ’’فقہ کا فن بڑا ہی نازک ہے، میں اتنا کسی چیز سے نہیں ڈرتا جتنا اس سے ڈرتا ہوں۔‘‘ (حسن العزیز ج۱ ص۱۴۴) حضرت مولانا محمدقاسم نانوتویؒ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ فتویٰ نہیں دیتے تھے بلکہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے پاس بھیج دیا کرتے تھے۔ (حسن العزیز ج۲ ص۲۰۳)
یہ ہوتی ہے خدا خوفی!
مگر آج کل شرعی مسائل کے باب میں ہمارے بعض رسمی فارغ اورنا تجربہ کارعلماء کی بے باکی اور خدا سے بے خوفی کا یہ عالم کہ اللہ کی پناہ!حد تو ہے کہ جو علم فقہ و آدابِ افتائکے ابجد سے بھی واقف نہیں، عربی زبان تو دور اردو کتب سے مسائل اخذ کرنے کی صلاحیت نہیں اور نہ زمانہ شناس ہیمحض سستی شہرت کے حصول اور لوگوں کے دلوں میں اپنا رعب جمانے یا اپنے مذموم مقاصد کے تکمیل کے لئے فتاویٰ کے اصول وقواعدکوبالائے طاق رکھ کر ہر مسئلہ کا خواہ علم ہو یا نہ ہو جواب دینا اس ٹولہ کا طرۂ امتیاز بن گیاہے
جب کہ ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جو ہر مسئلہ کا جواب دے وہ پاگل ہے(الفقیہ والمتفقہ ۴۱۷)
شوشل میڈیا کے اس دور میں تو ہر کس وناکس اپنی ایک علیحدہ ومنفرد رائے کے اظہاراور اس کی تائید میں مجروح قول پیش کرنے میں بے انتہاء جری ہوگیا اب "لاادری" نام کی کوئی چیز ہی نہیں رہ گئی،
اور مرکزی اداروں، کہنہ مشق مفتیان سے استفسار کو اپنی شانِ افتخار کیخلاف سمجھنے لگا جب کہ آپﷺ نے فرمایا"أجرؤكم على النار أجرؤكم على الفتوى"(رواه الدارمي)"تم میں سے جو فتویٰ دینے میں جری ہے وہ جہنم پر جری ہے،"
ہر ایک نوفارغ کی یہ خواہش ہے کہ لوگ مجھ سے مسئلہ معلوم کرے جب کہ بشر بن الحارثؒ کا مقولہ ہے کہ ’’جو شخص اس بات کا متمنی رہے کہ اس سے مسئلے پوچھا جائیتو یہی بات اس کی نااہلی کی دلیل ہے‘‘۔ (الفقیہ والمتفقہ ۴۷۰)
یہی وجہ کہ عوام کو روز بہ روز ایک نئی مشکل کا سامنا ہے،اور امت انتشار ذہنی کی شکار ہے، جیسا کہ ابھی لاک ڈاون کے زمانہ میں جمعہ وعیدالفطرکے مسئلہ میں اتنا اختلاف کہ اللہ کی پناہ!ہر کوئی "انا ربکم الاعلی "کے بلند وبانگ نعرے لگارہا تھا جس سے جہاں ایک طرف امت منتشر ہوی وہیں اکابر علماء اور مرکزی اداروں سے بد ظن ہوکر رہ گئی یہ سب انہیں ناقلین وغیرناقلین کی کرم فرمائی تھی جو اپنے نام سے پہلے "مفتی "کا سابقہ لگانا ضروری ہی نہیں بلکہ جزءِ لازم سمجھتے ہیں، اور جہاں ہمارے اکابر کا اختلاف ہے وہ ممدوح ہے۔
اسی لئیاب علماء ومفتیان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر جدید مسئلہ میں اکابر مفتیان اور ہمارے مرکزی اداروں دارالعلوم دیو بند، مظاہر العلوم، وغیرہ سے رجوع کریں، اٹکل و اندازہ سے مرجوح قول کی بنا پرجواب دینے سے گریز کریں اور یہ وعید ذہن میں رکھے حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
عن على كرم الله وجهه من افتى الناس بغير علم لعنته السماء والأرض
جو بغیر علم کے لوگوں کو فتویٰ دے اس پر آسمانوں اور زمین کی لعنت ہے۔
اس تحریر کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ شرعا مسئلہ بتانا ہی جرم ہے بلکہ جو اس کے اہل ہیں ان پر تو لازم ہے کہ وہ فتویٰ دیں اور لوگوں کی رہنمائی کریں لیکن جو اس کے منصب افتاء کے اھل نہیں یا اصول افتاء سے نا بلد ہیں، افتاء میں نا تجربہ کار ہیں ان کیلیے یہ لمحہ فکریہ ہے اللہ کریم ہمیں اس منصب کی اہمیت و حساسیت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین!
مضمون نگارادارہ اشرف العلوم حیدرآباد کے مدرس ہیں۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
02 جون 2020 (ادارہ فکروخبر بھٹکل )
جواب دیں