’مریخ مشن‘کیا ضروری تھا؟

حکومتی ، سیاسی اور سائنسی حلقوں میں اس کامیابی پر بڑے پیمانے پر خوشیاں منائی جارہی ہیں ۔ جگہ جگہ جشن ہورہے ہیں اور مبارکبادیاں دی جارہی ہیں ۔ میڈیا اور اخبارات اسے قومی افتخارکہہ رہے ہیں اور اس کارنامے کوتاریخ کا سب سے عظیم کارنامہ کہہ رہے ہیں ۔
بلاشبہ ہندوستان کے لیے یہ افتخار اور اعزاز کی بات ہے کہ وہ مریخ کے مشن پرروانہ ہو گیا اور اس مشن میں اس نے تمام ایشیائی ممالک کو پیچھے چھوڑدیا ۔بجا ہے کہ ہندوستان کی اس عظیم کامیابی پر خوشی اور جشن بھی منایا جائے ،مبارکبادیں بھی دی جائیں۔ ہندوستان کی بلند ی اور برتری پر خوش ہوا جائے اور اس کی تعمیر و بنیادکی مضبوطی کے لیے اللہ پاک کے حضور دعائیں کی جائیں نیز اس بات کی تمنائیں بھی کہ حقیقت میں ’ہمارا بھارت مہان ‘ بن جائے ….مگر ایک لمحے کے لیے ذراسوچیے!جس ملک میں منھ کھولے مسائل کا انبار ہو۔عام آدمی غربت و افلاس کی آخری حد سے گذر رہا ہو۔مہنگائی کے عفریت نے اس کا جینا مشکل کر دیاہو۔ جہاں کے کسان قرضو ں میں گردن گردن ڈوبے ہوں اور اپنی عزت و ناموس کے لیے یا تو اپنے بیوی بچوں کو بیچ رہے ہوںیا خودکشی کرکے موت کو گلے لگارہے ہوں ۔ایک ایسے ملک میں جہاں اندرونی دہشت گردی کے سائے بڑھے چلے آرہے ہوں ۔جہاں بچے بھوکے سو جاتے ہوںیا وہ ناقص تغذیہ اور کپوشن کے شکار ہوں۔ جہاں لوگوں کے پاس صاف پانی پینے کے لیے نہ ہو ۔جہاں گندگیوں کے انبار لگے ہوئے ہوں ۔جہاں کی ندیاں پوری طرح آلودہ ہوگئی ہوں اور ان سے فرحت بخش ہواؤں کے بجائے بیماریاں پھیلانے والے وائرس آرہے ہوں ۔کیا ایسے ملک کا آسمان میں اڑنا مناسب تھا۔کیا ایسے ملک میں جہاں انسانوں کی جان محفوظ نہیں ہواور جہاں خواتین کی عصمتیں سرراہ اور بھرے بازاروں میں لٹتی ہوں ۔جہاں قانون کی دھجیاں اڑا کر فرقہ پر ست دن کے اجالے میں اقلیتوں کا خون سڑکوں پر بہاتے ہوں کیا ایسے ملک کے لیے ’مشن مریخ ‘ضروری تھا۔ایک ساڑھے چارارب روپے جیسی خطیر لاگت والا مشن ؟جسے خلائی مشن کے سربراہ معمولی رقم کہہ رہے ہیں اور غریبوں کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں ۔دنیا بھر میں کہتے پھررہے ہیں کہ’’ بہت سے لوگ اسے بڑی رقم کہیں رہے ہیں لیکن قومی فخر کے نقطۂ نظر سے یہ بہت چھوٹی رقم ہے۔‘‘…….حکومت کی اس حماقت سے پہلے کیایہ ضروری نہیں تھا کہ بے کراں خلاؤں میں تاک جھانک اور چاندتاروں پر کمندیں ڈالنے سے قبل ملک کی خراب ہوتی صورت حال کو سنوارا جاتا ۔ باشندگان وطن کی مشکلات کا خاتمہ کیا جاتا ۔ انھیں مہنگائی،دہشت گر دی اور قتل و خودکشی جیسے ناسوروں سے نجات دلائی جا تی ۔کیا اس بے مقصد اڑان سے پہلے یہ ضروری نہیں تھا کہ ملک کے باشندوں کے ہونٹوں پہ تبسم لایا جاتا اور ان کے آنسوؤں کو پونچھا جاتا۔ان کے زخموں کا سلاجاتا اور ان کے سرو ں پر ہاتھ رکھ کر ان کی مزاج پرسی کی جاتی ؟
مگر نہیں۔شاید حکوت کی نظر میں یہ ضروری امور نہیں ہیں ۔اس کی نظر میں سب سے بڑا اور ضروری کام مریخ پر پہنچنا تھا۔ اگر وہ یہ سب کرتی تو دنیا میں اسے کمتر شاید کوئی اور حکومت ہوتی ہی نہیں ! ان بڑے لوگوں کو چھوٹوں لوگوں کی کیا پر واہ ہو سکتی ہے ۔وہ مریں یا جئیں ،خودکشیاں کر یں یا قرضوں میں ڈوب کر اپنے بچوں کو بیچیں ۔انھیں مہنگائی زندہ رکھے یا بخش دے انھیں کوئی فکر و احساس نہیں ہے ۔ حالانکہ اسرو کے سربراہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارا کسی کوئی کمپٹیشن یا مقابلہ نہیں ہے ۔مگر اہل نظر بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ سیاسی بیان ہے ۔جو دل کے نہاں خانوں سے نہیں بلکہ ہر وقت جھوٹ بولنے والی زبان سے دیا گیا ہے۔اس طرح حکومت کا مقصد حریف ممالک کی نیندیں حرام کر نا ہے اور اپنی دھاک بٹھانا ہے۔
مجھے امید کامل ہے کہ میرے ان تلخ خیالات پر منھ بنائے جائیں گے اور مجھے ہندوستان کی ترقی کا دشمن کہا جائے گا مگراس حقیقت کو بھی یاد رکھیے! اقوام کی ترقی اور ان کے تحفظ کا بندو بست کیے بغیر کوئی ملک ترقی یافتہ نہیں کہلایا جاسکتا۔بھلا بتا ئیے جس شخص کو کو دو روٹیوں کی بھوک ہو اور اس کے گھر میں فاقے ہورہے ہوں وہ چاندیا مریخ لے کر کیا کر ے گا؟کیااسے چاٹے گا ؟مجھے اس موقع پر فلم ’چپکے چپکے ‘کے وہ مکالمے بہت شدت سے آرہے ہیں ۔جب شاہد کپور کوراجپال یادو جال میں مچھلی سمجھ کر لے آتا ہے اور اپنے مالک پریش روال کو پکارپکار کر بلاتا ہے ۔وہ آتے ہیں اور مچھلیوں کے بجائے جال میں شاہد کپور کو دیکھتے ہیں تو سر پیٹ لیتے ہیں ۔اس وقت راج پال یادو کہتا ہے کہ ہم نے اس کی جان بچائی ہے اس کے بدلے ہمیں حکومت سے گولڈ میڈل یعنی سونے کا چاند ملے گا ۔اس کے جواب میں قرض میں ڈوبے اور حالات سے پریشان پر یش راول کہتے ہیں کہ کیا میں اُس سونے کے چاند کو لے کرچاٹوں گا؟……..فلموں سے نکل کر جب ہم حقیقت کی دنیا میں آتے ہیں تو ہر شخص یہی سوال کر رہا ہے کہ مریخ اور چاند ہمارے کیا کام آئیں گے؟گوحکو مت نے ایک بہلوا بھی دیا ہے کہ ’مشن مریخ ‘سے اس کا ایک مقصد ہندوستان کے باشندوں کی زندگیوں میں سدھار لانا اوران کے دورحیات کو بہتر بنا نا ہے …..مگر اس پر کس کو یقین آسکتا ہے ۔جب ہماری حکومت زمین پر رہ کر ہی ہمارے مسایل کو حل نہ کر سکی وہ خلاؤں میں جاکر کس طرح کرسکتی ہے؟ہندوستان کے باشندوں کے پھر بھی حوصلے دیکھئے وہ بار بار بد عنوان حکومت کی باتوں میں آکر اسے اپنا نجات دہندہ سمجھ لیتے ہیں ۔سچائی تو یہ ہے بجھے چاند سے کبھی کسی گھر روشن نہیں ہوا۔
ہندوستان کے سیاہ و سفید کے مالکوں سے نہ جانے کس پاگل نے کہہ دیا کہ مریخ پر زندگی کے آثا ر موجود ہیں ۔وہاں زندگی گذاری جاسکتی ہے ۔یہ باتیں سن کر ان کی آنکھیں روشن ہو گئیں اور انھوں نے ملک کے سائنسدانوں کے سر پر مریخ کی تسخیر کا بھوت سوار کر دیا ۔وہ حکم کے غلام ٹھیرے اور انھوں نے حکومت کی چاپلوسی کر تے ہوئے رات دن ایک کرکے’منگل یان‘ نامی راکٹ تیار کیا اور اسے بے کراں خلاؤں میں اڑا دیا۔یہ وہی لوگ ہیں جو ایک طرف تو دیو مالائی باتوں پر یقین رکھتے ہیں اور توہم پر ستی کے شکار ہیں نیزدوسری جانب آسمان کی وسعتوں کو ناپ رہے ہیں ۔یہ وہی دیوانے ہیں جو کسی بھی ڈ ھونگی بابا کی جھوٹی باتوں پر یقین کر کے سونے کی تلاش میں ہزاروں میٹر تک زمین کھدوا دیتے ہیں چاہے وہاں خاک کے سوا کچھ نہ ملے ۔ایسے لوگ چاند اور مریخ کی تسخیر کا ارمان اپنے دل میں سجائے ہوئے ہیں ۔نیز غریبوں کی آہوں کراہوں کو مسلسل کچلتے جارہے ہیں ۔
بہر حال میں بجھے دل سے ہندوستان کی اس کامیابی پر مبارک باددے رہا ہوں اور اللہ پاک کی بار گاہ میں دعاگو ہوں کہ میرا ملک نام نہاد ترقی میں سہی،آگے ہی آگے بڑھتا رہے۔ 

«
»

نئے بھارت کا مسلمان چیلنج اور خطرات

ڈرون حملے غیر قانونی اور بعض جنگی جرائم کے زمرے میں بھی آتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے